Baseerat Online News Portal

مسافروں کی موت کا ذمہ دار کون—؟

شکیل رشید
بھٹکتی ٹرینوں کے وزیر، بھارت کے وزیر ریل پیوش گوئل کا ایک بیان نظر سے گزرا اور ہم آہ کر کے رہ گئے۔ اس جمہوری ملک میں اب شہری آہ ہی کر سکتے ہیں، وہ بھی چھپ کر، کہیں اگر ہمارے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو شک بھی ہو گیا کہ آہ ان کی حکومت کے کسی محکمہ پر بھری گئی ہے تو یو اے پی اے کے تحت تہاڑ جیل بھیجے جانے میں سیکنڈ نہیں لگے گا! اسی لئیے پیوش گوئل کا بیان دیکھ کر گھر کے اندر والے کمرے میں آہ تو نکلی پر فوراً ہی یہ سوچ کر کہ کوئی جاسوس باہر سن نہ لے، گھٹ کر رہ گئی ۔
اب پیوش گوئل کا بیان بھی سن لیں،وزیر موصوف کا کہنا ہے کہ "کورونا کی وباء کے تین مہینوں کے دوران ملک میں بھوک سے ایک بھی موت نہیں ہوئی ہے "۔ یہ بیان 15 مئی کا ہے، اس بیان کے بعد مظفر پور ریلوے اسٹیشن پر 25 مئی کے روز اروینہ خاتون نام کی ایک 35 سالہ خاتون کی موت نے پیوش گوئل کے بیان کو نئے سرے سے موضوع بحث بنا دیا ہے ۔گجرات سے اپنے دو بچوں کے ساتھ بہار کے کٹیہار کی طرف یہ خاتون شرمک اسپیشل سے روانہ ہوئی تھی۔شدید گرمی اور پانی و غذا کے فقدان کو برداشت کرتی ہوئی وہ مظفر پور پہنچی تھی کہ اس کی جان نکل گئی ۔اس کی موت کے جو ویڈیو وائرل ہوئے ہیں وہ بڑے ہی دردناک ہیں،چھوٹی بچی اس کی لاش پر پڑی چادر کھینچ کر ماں کو اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے ۔المناک منظر ہے، یقیناً جس نے بھی دیکھا ہو گا اس کی آنکھیں بھر آئی ہوں گی، لیکن پورا یقین ہے کہ ریل منتری کی بلکہ پوری مرکزی سرکار کی آنکھیں نہیں بھری ہوں گی ۔ثبوت کے طور پر مغربی بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش کا بیان پیش ہے، موصوف نے کہا :” کیا ٹرین میں کسی کی موت نہیں ہوتی؟ کیا ٹرین حادثہ نہیں ہوتا؟ یہ اموات معمولی بات ہیں”۔ اور یہ کوئی ایک موت نہیں ہے، بھوک، پیاس اور شدید ترین گرمی اور ریل کے ڈبوں یا ریلوے اسٹیشنوں پر میڈیکل سہولیات کے فقدان کے سبب ایک رپورٹ کے مطابق ٨٠ لوگ موت کی نیند سو چکے ہیں ۔محکمہ ریل ان اموات کو صحت کی خرابی اور بیماری سے جوڑ رہا ہے، ممکن ہے کہ مرنے والے بیمار رہے ہوں لیکن ریل کے ڈبوں میں اور ریلوے اسٹیشنوں پر بیماروں کی تیمارداری کا ذمہ دار کون ہے؟ کون ذمہ دار ہے بیماروں اورگرمی کے ماروں کو پانی اور غذا پہنچانے کا؟ جواب تو سامنے ہے، ریل انتظامیہ، وہی ریل انتظامیہ جس کے کرتادھرتا پیوش گوئل ہیں ۔ظاہر ہے کہ عام ہندوستانی جو بھاگ بھاگ کر ریل کے ڈبوں میں بھرے اپنے ہندوستانی بھائیوں کو تھوڑا بہت کھانا پانی پہنچا رہے ہیں ان کی تو یہ ذمہ داری نہیں ہے ۔پیوش گوئل اپنی ذمے داری سے منھ نہیں موڑ سکتے، انہیں یہ جواب دینا ہی ہوگا کہ اکتالیس کے قریب شرمک ٹرینیں کیوں بھٹکیں، کیوں کوئی ٹرین ساٹھ تو کوئی اٹھتر گھنٹے میں اپنے مقام تک پہنچی ، کیوں ان ٹرینوں میں کھانے، پانی اور دواؤں کی قلت رہی یا فقدان رہا؟ اور پیوش گوئل یہ بھی یاد رکھیں کہ بھوک سے مرنے والوں میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں بھرپیٹ کھانا نہیں ملتا، جنہیں مطلوبہ مقدار میں کیلوریز، نشاستہ اور پروٹین والی غذائیں دستیاب نہیں ہیں، جنہیں ایک وقت کا کھانا جو ملتا ہے وہ ایسا روکھا سوکھا ہوتا ہے کہ پیوش گوئل جیسے لوگ اسے دیکھنا بھی پسند نہ کریں۔عظیم پریم جی یونیورسٹی کے سینٹر فار سسٹینیبل ایمپلائمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی وبا ء کے بعد سے غریب اور نچلے و اوسط درجہ کے چوہتر فیصد لوگوں نے اپنی روز کی خوراک میں کٹوتی کر دی ہے تاکہ روزمرہ کا خرچ قابو میں رہے اوراکسٹھ فیصد لوگوں کے پاس بس اتنے پیسے ہیں کہ ایک ہفتے کا ہی راشن لے سکیں ۔روز روز کی کم خوراکی بدن کونچوڑ لیتی ہے اور آدمی کی موت ہو جاتی ہے، پیوش گوئل شاید نہیں جانتے کہ اسے بھی بھوک سے مرنا ہی کہا جاتا ہے ۔اور آج بڑی تعداد میں ہندوستانی اس کی چپیٹ میں ہیں۔
اب بات وزیر خزانہ کی کر لی جائے۔ نرملا سیتارمن نے بیس لاکھ کروڑ روپیے کی تقسیم کی جانکاری دیتے ہوئے چھ لاکھ روپے سے 18 لاکھ روپے تک سالانہ کمانے والوں کا شمار نچلے متوسط طبقے میں کیا تھا، ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا ۔سوال یہ ہے کہ اگر اتنی بڑی رقم سالانہ کمانے والے نچلے متوسط طبقے کے ہیں تو ڈیڑھ دو لاکھ یاتین لاکھ روپے سالانہ کمانے والے کس درجہ میں ہیں! چھ لاکھ روپے سالانہ کا مطلب ماہانہ پچاس ہزار روپے اور 18 لاکھ روپے سالانہ کا مطلب ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے ۔کون سا غریب اور متوسط طبقے کا آدمی آج اتنا کما رہا ہے؟شاید کوئی نہیں مگر حکومت سب کو مالدار سمجھ رہی ہے اسی لئیے بجائے مدد کے انہیں قرض پیش کر رہی ہے ۔تو یہ ہے ہمارے حکمراں!! انہیں نہ یہ پتہ ہے کہ غربت کیا ہے نہ یہ کہ غریب کسے کہتے ہیں، نہ ہی انہوں نے کبھی بھوک پیاس کا سامنا کیا ہے، لہٰذا اگر لوگ بھوک اور پیاس سے اور بیماری سے مر رہے ہیں ہیں تو مرتے رہیں یہ تو یہی کہتے آئے ہیں اور یہی کہتے رہیں گے کہ ملک میں کوئی بھی بھوک پیاس سے نہیں مرا ہے اور نہ مرے گا، مودی سرکار زندہ باد!! ایک موضوع پر اور بات کرنی تھی، پولس پٹائی میں پندرہ ہندوستانی مارے گئے ہیں، یہ سب اپنے گھر جا رہے تھے، پیدل، پولس کو شاید ان کا پیدل چلنا نہیں بھایا، پٹائی کردی، کچھ مارے گئے کچھ اپاہج اور زخمی ہوئے ۔پر ان کی بات کیا کی جائے ان کی تو قسمت میں ایسی ہی موت لکھی ہے، اور ویسے بھی اس سرکار کو لوگوں کا مرنا پسند بھی آتا ہے ۔لوگوں کا مرنا پسند نہ آتا تو اچانک لاک ڈاون کرکے موت کے اتنے سارے انتظامات کیوں کئے ہوتے!!!

Comments are closed.