Baseerat Online News Portal

مسجد اقصٰی کی بازیابی کیوں کرممکن ہے

 

خلیل الرحمٰن قاسمی برنی

آج کل سوشل میڈیا پر مسجد اقصٰی اور فلسطین کے قضیہ کو لے کر کافی تقریریں کرائ جارہی ہیں -ان میں ملک کے بعض نامور علماء اور مشائخ کی بھی تقریریں سامنے آرہی ہیں -جن میں وہ فرماتے سنائ دے رہے ہیں کہ مسجد اقصٰی آزاد ہوکر رہے گی ۔فلسطین کو آزاد ہوجانا چاہیے ۔اب وقت آگیا ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو –

 

یقین جانیے مجھے ان علماء واکابر کی تقریریں سن کر بہت خوشی ہوئی، کیوں کہ اب سے پہلے کئ حساس موقعے مجھے ایسے یاد ہیں کہ جب ان حضرات کو بولناتھا؛مگر ان کی طرف سے کوئ مثبت ردعمل ظاہر نہ آنے کی صورت میں مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا -آج اس حساس مسئلہ پر جب ان حضرات کی تقریریں سامعہ نواز ہوئیں تو بے اختیار دل بھر آیا -خدا کرے یہ عمل گفتار سے بڑھ کر کردار کی شکل اختیار کر لے ؛کیوں کہ کام ہمیشہ کردار و عمل ہی سے بنتے ہیں گفتار سے صرف چرچے ہوتے ہیں –

 

 

1997ءکی بات ہے جب میں مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں طالب علم تھا -اس وقت مادر علمی میں عالم عرب کی ایک بڑی شخصیت ،مسجد اقصٰی کے سابق امام اور جامعہ غزہ کے استاذ،ڈاکٹر محمد محمود صیام تشریف لائے تھے -ان کے اعزاز و استقبال میں دارالعلوم کی جامع رشید میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا گیا تھا ،جس میں دارالعلوم دیوبند کے تمام اساتذہ وطلبہ اور اہالیان شہر بھی جمع ہوگئے تھے – موصوف نے اولا مغرب کی نماز پڑھائ، جس میں انھوں نے بہت ہی پرسوز اور وجیہ لہجے میں تلاوت فرمائی ،پہلی رکعت میں سورۃ آل عمران کی دو آیتیں (قل اللہم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء الخ)اوردوسری رکعت میں سورہ فرقان کی آیات (الم تر الی ربک کیف مدالظل ولوشاء لجعلہ ساکنا) تلاوت فرمائی-نماز کے بعد جلسہ ہوا تھا ،جس میں انہوں نے بہت ہی پرجوش ولولہ انگیز اور درد میں ڈوبی ہوئی تقریر کی ۔

 

اپنی تقریر میں انھوں نے دارالعلوم دیوبند کو زبر دست خراج عقیدت پیش کیا اور فرمایا کہ یہ ادارہ اور اس کے مشائخ ہمیشہ حق پرست حق گو اور حق کے ترجمان رہے ہیں- مجھے یہاں آکر اتنی خوشی ہوئی ،جس کو میں الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کرسکتا -یہاں بڑے بڑے لوگ دنیا کے کونے کونے سے آۓہیں میں ان سب میں زیادہ سعادت مند ہوں؛کیوں کہ مجھےاس کی قدیم و جدید دونوں تاریخوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا ہے –

 

 

ڈاکٹر محمد محمود صیام نے دوران تقریر بطور خاص یہ بھی بھی کہی :

 

بلاشبہ ہم مسلمان اللہ کی طرف سے ناامیدی کا شکار نہیں ہوتے-ناکامی اورنامرادی کا خواہ ہمیں کتنا بھی سامنا ہو وہ ہمارے بازوؤں کو توڑ نہیں سکتی- اور نہ ہمارے عزم و ارادہ پر کوئ منفی اثر مرتب کرسکتی ہے ؛اس لیے کہ ہم ایسی قوم ہیں کہ اگر ہمارے آسمان کا کوئ ستارہ روپوش ہوجائے تو کئ سورج طلوع ہوکر روشنی بکھیر نے لگتے ہیں اور اگر ناکامیاں، اپنی بھیانک شکل میں ہمارے سامنے آئیں گی ،تو ہمارے عزم و یقین اور عقیدوں میں اور مضبوطی آۓ گی-

 

ڈاکٹر صیام کی یہ بات بالکل صاف ہے اور اس میں ذرہ برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے

کہ جب جب کسی ناکامی اور مصیبت نے ہمیں آدبوچاہے تو اس کے معا بعد کئ ایسے محاذ بھی ہم نے کھو لے ہیں ،جہاں دشموں کی جمیعیت کو جی بھر کے توڑا اور کیفر کردار تک پہنچایا ہے-مد مقابل کے دانت کھٹے کیے ہیں-میدان کارزار میں ان کو شکست وہزیمت کا منہ دکھایا ہے اور ان کی تمام جنگی صلاحیتیں نیست و نابود کر کے ناکامی کا منہ دکھایا ہے-

 

 

آج مسجد اقصٰی اور اس کے ارگرد مبارک زمین پر یہودی قابض ہیں- انھوں نے چالبازی اور ہوشیاری سے اس پورے خطے ہی کو اپنے عمل دخل میں لے کر یہاں کے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے-نت نئے طریقوں سے فساد بھڑ کاتے ہیں اور پھر اس کی آڑ میں نہتے فلسطینیوں بشمول بچوں اور عورتوں کو بے دریغ قتل کر نے لگتے ہیں -ان حالات میں مسجد اقصٰی اور مبارک زمین کی بازیابی کا عمل صرف تقریروں اور قراردادوں کے ذریعہ ہر گز ممکن نہیں ہے –

 

 

اس مقصد کیلئے تو غازیانہ کردار اور مجاہدانہ وسرفروشانہ عمل کی ضرورت ہے -یہ کام صرف اور صرف قوم کے وہ زندہ افراد ہی کرسکتے ہیں جو غیرت و حمیت سے سرشار ہوں اور جن کے اندر عمر خالد اور صلاح الدین کے نقش قدم پر چلنے کا جذبہ ہو ان کے دل میں ایمان کی چنگاری بھڑک رہی ہو اور جنھوں نے اپنی تمام خوشیوں کو رب کی رضا کے لئے تج دیا ہو نیز جو مضبوط ارادوں کے مالک اور عزائم میں پہاڑوں کی سی استقامت والے ہوں اور جو بندروں اور خنزیروں کی اولاد کو ان کی اوقات یاد دلانے کا ہنر جانتے ہوں –

 

خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347

Comments are closed.