Baseerat Online News Portal

مسجدوں کی حفاظت اورہماری ذمہ داریاں

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی

جنرل سیکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

 

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو اشرف المخلوقات حضرت انسان کے لئے بنایا اور بسایا ہے ، زمین کی تہوں سے لے کر سمندر کی اتھاہ گہرائیوں اور آفاق کی وسعتوں تک بڑی سے بڑی اورچھوٹی سے چھوٹی ، جاندار اور بے جان جتنی مخلوقات ہیں ، وہ براہ راست یا بالواسطہ اسی مشتِ خاک — انسان — کی خدمت میں شبانہ روز مشغول ہیں اور خود انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے : ’’وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ (الذاریات : ۵۶ ) اللہ کی بندگی جزوقتی نہیں ؛ بلکہ ایک ہمہ وقتی عمل ہے ، انسان جس وقت اور جس کیفیت میں ہو ، اسے اپنی بندگی کا استحضار ہونا چاہئے ، اسے خیال ہونا چاہئے کہ وہ خدا کا غلام ہے اور یہی غلامی اس کے لئے اوجِ کمال ہے ، رسول اللہﷺ پر عبدیت اور بندگی کا رنگ اس قدر غالب اور کامل تھا کہ آپ کھانا تناول فرماتے تو اس میں بھی تواضع اور فروتنی کا رنگ پوری طرح نمایاں ہوتا اور ارشاد فرماتے : ’’ اٰ کل کما یأ کل العبد‘‘ (مجمع الزوائد : ۸؍۵۸۲ ، حدیث نمبر : ۱۴۲۱۰)۔

اس عبدیت اور بندگی کے استحضار کے لئے ضرورت ہوتی ہے کہ کچھ لمحات انسان تمام تعلقات سے پَرے اُٹھ کر خدا کے دربار میں بچھ جائے ؛ تاکہ اس میں اپنی بندگی کا شعور تازہ ہوتا رہے ؛ اسی لئے اسلام میں مختلف عبادتیں رکھی گئی ہیں ، گو ان سب کا مقصد ایک ہے ؛ لیکن تربیت اور انسان کی خود سپردگی کی آزمائش کے اعتبار سے ان کے طریقے الگ الگ ہیں ، ان میںپہلا درجہ نماز کا ہے ، توحید و رسالت کے اقرار کے بعد سب سے افضل اور اہم عمل نماز ہے ، قرآن مجید میں ۹۵ مواقع پر نماز کا ذکر آیا ہے ، حدیثیں جن عنوانات کے تحت ذکر کی جاتی ہیں ،ان میں سب سے وسیع حصہ نماز کا ہے ، نماز کی حالت میں انسان کے سر سے پاؤں تک پورا وجود مکمل طورپر عبادت میں مشغول اور احکام خداوندی کے سامنے سرخمیدہ ہوتا ہے ، پورے جسم کو ساکن وجامد اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق جما رہنا ہے ، آنکھوں کو وہاں دیکھنا ہے ، جہاں آپ ﷺ نے دیکھا ، زبان کو وہی کچھ کہنا ہے اور وہی بول ادا کرنے ہیں ، جو رسول اللہ ﷺ نے ادا کئے ہیں ، کبھی ایک اقراری مجرم اور غلام کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہے ، کبھی اپنے مالک کے سامنے کمر تک جھکتا ہے ، کبھی اپنے وقار کی علامت ناک اور پیشانی کو خدا کی چوکھٹ پر بچھادیتا ہے ، نہ حسب خواہش بولنے کی اجازت ہے ، نہ چلنے کی ، نہ حرکت کی ، نہ کھانے پینے کی ، گویا پورا وجود غلامی اور بندگی کی تصویر ہے !

ایسی عظیم الشان عبادت کے لئے ایسا ماحول بھی ضروری تھا ، جو ذہن کی یکسوئی اور قلب کی فراغت کا باعث ہو ، جس میں ہر شخص افکار دنیا سے فارغ ہوکر اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس سے مناجات کے لئے یکسو ہو ؛ اسی لئے یوں تو روئے ارض پر کہیں بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے ، اور یہ اس اُمت کے امتیازات میں سے ہے (دیکھئے : ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۴۸۹ ، باب فی المواضع التی لا تجوز فیہا الصلاۃ )، کہ اس کی عبادتیں در و دیوار کی محتاج نہیں ہیں ؛ لیکن ماحول کی ہم آہنگی اور موافقت کے لئے کچھ مقامات کو مخصوص کرنےاورانھیں نماز کی ادائیگی کے لئے مختص کرنے کا حکم دیا گیا ، یہی عبادت کے لئے مخصوص جگہیں ’’مسجد ‘‘ کہلائیں ، خود قرآن مجید میں ۲۸ مواقع پر مساجد کا ذکر آیا ہے اور متعین طورپر مسجد حرام ، مسجد اقصیٰ اور مسجد قباء کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔

مسجد کے اصل معنی ہیں : سجدہ کرنے کی جگہ ، غور کیجئے تو نماز کا اصل مقصد عجز و فروتنی کا اظہار ہے اور اس فروتنی کا سب سے بڑا مظہر سجدہ ہے ، جس میں انسان عظمت و احترام کی آخری علامت پیشانی اور ناک کو بھی خاک پر بچھا دیتا ہے ؛ اسی لئے نماز پڑھنے کی مخصوص جگہ کو مسجد سے تعبیر کیا گیا ، اسلام میں مساجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے ؛ کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے ، اس وقت تو خود کعبۃ اللہ موجود تھا ، جو اس کائنات میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد تھی ، گو اس پر مشرکین کا قبضہ تھا ؛ لیکن جب آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی اور مدینہ پہنچنے سے پہلے قباء میں قیام پذیر ہوئے تو وہیں آپ ﷺ نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی ، جس کا خود قرآن مجید نے ذکر کیا ہے ، (التوبۃ : ۱۰۸) پھر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ ﷺنے اپنی اور اپنے رفقاء کی رہائش گاہ کے لئے فکر کرنے سے پہلے مسجد کی فکر فرمائی اور جس مکان کو آپ کی قیام گاہ ہونے کا شرف حاصل تھا ، اسی کے سامنے ایک زمین خرید کر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی ۔

یوں توپوری کائنات ہی اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے، لیکن دنیوی زندگی کی حد تک اللہ تعالی کی ہی مشیت سے انسان زمین کے کسی ٹکرے کا مالک بنتاہے، اوراس میں مالکانہ تصرف بھی کرتاہے، وہ اسے خریدتاہے، بیچتاہے، اپنی چاہت کے مطابق خود استعمال کرتاہے اوردوسروں کو بھی استعمال کیلئے دیتاہے، اس کی مرضی ہے کہ وہ اس کو محل بنادے یا بیت الخلاء،بادشاہ کی قیام گاہ بنادے یاجانوروں کا اصطبل،مگرزمین کے جس ٹکرےکو مسجد بنادیاجائے،اس پر انسان مالکانہ تصرف نہیں کرسکتا، اگرکسی زمین کو مسجد بنادیاگیاتو چاہے اس پر کوئی عمارت نہ ہو ،وہ کھلاہوا ہو، میدان ہی کیوں نہ ہو ،لیکن اب اس کو مسجد کیلئے وقف کرنے والا شخص نہ کسی کو قیمت لے کر بیچ سکتاہے، نہ ہبہ کرسکتاہے، نہ ناپاکی کی حالت میں اس جگہ قیام کرسکتاہے ،نہ کسی اور مقصد کیلئے اس جگہ کو استعمال کرسکتاہے، اب عبادت کے اعتبار سے اس زمین میں تمام مسلمانوں کاحق برابر ہے، وقف کرنے والا شخص کسی سے یہ نہیں کہہ سکتاکہ ’’میں تم کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا، اس لئے تم نماز ادانہیں کرو‘‘، اس لیے جیسے مسجد بنانا ثواب کاکام ہے، اورایسے شخص کیلئے واضح طورپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں گھر بنانے کی خوش خبری دی گئی ہے، ویسے ہی اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق مسجدوں کو بچانابھی ہرمسلمان کا مذہبی فریضہ ہے اورمسلمانوں کو چاہئے کہ جیسے انسان تن من دھن لگاکر اپنے گھر کی حفاظت کرتاہے،اسی طرح وہ ہر طرح کی قربانی دے کر مسجد کی حفاظت کرے۔

مسجد کی حفاظت کی بعض صورتیں وہ ہیں جن میں شرپسند عناصر سے مقابلہ کی نوبت آتی ہے، اس سلسلہ میں شریعت کا بنیادی حکم یہ ہے کہ ہرمسلمان اپنی طاقت بھر جدوجہد کرنے کا مکلف ہے، اوراس میں کوتاہی سے کام لینا گناہ ہے، ایک جمہوری ملک میں احتجاج اوراظہار ناراضگی کے مختلف طریقوں کی اجازت ہوتی ہے ،اپنی مسجدوں کو بچانے کیلئے حسب ضرورت ان تمام تدبیروں کو اختیار کرناچاہئے، اوراپنی طرف سے کوشش کرنی چاہئے کہ ناراضگی کا اظہار بھی ہوجائے اورامن وامان بھی برقرار رہے، لیکن اس کے علاوہ بھی مسجد کو محفوظ رکھنے کے لیے موجودہ حالات میں بعض اور امور کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے، جن میں سے چند کاذکر کیاجاتا ہے :

(۱)مسجدوں کو آباد کیاجائے، ان کو ویران نہ چھوڑدیاجائے،جو گھر آبادرہتاہے، چور کو وہاں گھسنے کی ہمت نہیں ہوتی، جو گھر ویران ہوتے ہیں، وہ چوروں اور ڈاکوؤں کی آماج گاہ بن جاتے ہیں، اس لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان صد فیصد مسجدوںمیں نماز اداکرنے کی کوشش کریں اوراسے آباد رکھیں کہ ہر نماز نمازیوں کی کثرت کے اعتبار سے جمعہ کا منظر پیش کرے۔

(۲)بعض مسجدیں مسلم آبادیوں سے دور بنی ہوئی ہیں، جن کو کسی بادشاہ نے اپنے زمانۂ اقتدار میں تعمیر کردیا، دلی کے مضافات میں بھی ایسی بہت سی مسجدیں ہیں ،حیدرآباد کے قرب وجوار میں بھی مغل اورقطب شاہی دور کی متعدد مسجدیں موجود ہیں، جن کے تحت موقوفہ اراضی بھی ہیں؛ مگر وہ ابھی ویران اور غیر آباد ہیں ،دیگر بڑے شہروں کا بھی کم وبیش یہی حال ہے،ایسی مسجدوں سے متصل وقف کی زمینوں پر اقلیتی تعلیمی ادارے قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ،اگروقف بورڈ کا محکمہ سنجیدگی کے ساتھ اس پر توجہ دے اور دینی مدارس یامسلم انتظامیہ کو اسکولوں کو ایسی جگہوں کے استعمال کی دعوت دے تو تعلیمی نقطۂ نظر سے بھی مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا، اوریہ مسجدیں ایک طرف فرقہ پرست عناصر کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہیں گی، اوردوسری طرف مسلم اورغیرمسلم غاصبین سے بھی محفوظ رکھیںگی،کیوں کہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والےبہت سے خداناترس مسلمان بھی ایسی جگہوں پر غاصبانہ نظر جمائے رہتے ہیں، پہلے مسجد سے متعلق افتادہ اراضی پر قبضہ کرتے ہیں ،پھر آہستہ آہستہ مسجدوں کا نام ونشان مٹادیتے ہیں اورساری زمینیں فروخت کردیتے ہیں۔

(۳)جن ویران مساجد کے ساتھ تعلیمی اداروں کاانتظام دشوار ہو، مسلم آبادی وہاں سے دور ہو، یاوہ مسجد غیرمسلم آبادی کے درمیان ہو، اورمسلمانوں نے کسی وجہ سے اس محلہ کو چھوڑدیاہو، توکم سے کم اتنا ہو کہ مسجد میں ہرسال رنگ وروغن کیاجائے، وہاں سے قریبی فاصلہ پر جو مسلم آبادی ہو، وہاں سے کچھ لوگ جمعہ کیلئے یہاں آیاکریں،اوراس مسجد میں جمعہ کی نما ز اداکریں، کبھی رمضان المبارک میں وہاں افطار کھولنے کا انتظام رکھ لیں، اورمصلحت کے خلاف نہ ہو تو برادران وطن کو بھی اس مین شامل کرلیں، عید کی نماز وہاں اداکی جائے، سال بھر میں ایک دو دینی اجتماع وہاں رکھ لیاجائے؛ تاکہ مسجد کی حیثیت سے اس جگہ کی شناخت باقی رہے، اورلوگ محسوس کریں کہ یہ جگہ مسجد ہی ہے نہ کہ افتادہ زمین اور ویران مکان۔

(۴)آج بھی ملک میں ہزاروں ایسے دیہات ہیں، جہاں مسجدیں نہیں ہیں، جنوبی ہند میں بعض مقامات پر دین سے بے خبر مسلمان مرد اور عورتیں، مندروں اورچرچوں میں جاکر اپنے مذہبی جذبات کی تسکین کرتے ہیں،یہ طرز عمل ارتداد کی طرف لے جاتاہے، اس لیے ضرورت ہے کہ شہروں میں کروڑوں روپے خرچ کرکے مسجد تعمیر کرنے کے بجائے دیہاتوں میں وہاں کی آبادی کے اعتبار سے چھوٹی چھوٹی مسجدیں تعمیر کی جائیں، اورجوپیسہ خوبصورت اوربلند وبالا تعمیرات سے اجتناب کرنے کی وجہ سے بچ گیاہے، اس سے وہاں امام کا انتظام کردیں، جو اذان بھی دے، نماز بھی پڑھائے، اورچھوٹے بچوں کو بنیادی تعلیم بھی دے، دیہاتوں میں صرف مسجدتعمیر کردیناکافی نہیں ہے؛کیوں کہ وہاں ایسے لوگ نہیں ہوتے ہیںجو نماز پڑھاسکیں، اورایسی مالی گنجائش نہیں ہوتی کہ امام کاانتظام کرسکیں، چنانچہ تلنگانہ کے بعض اہل خیر تاجروں نے وسیع پیمانے پر چھوٹی چھوٹی مسجدوں کی تعمیر کا انتظام کیا،لیکن امام کا انتظام نہیں کیا، نتیجہ یہ ہواکہ آہستہ آہستہ مسجدیں مقفل ہوگئیں، اوربعض میں قادیانی حضرات نے اپناامام مقرر کردیا اورجو مسجد مسلمانوں کے دین وایمان کے تحفظ کیلئے بنائی گئی تھی، وہی کفر وارتداد کا مرکز بن گئی؛اس لیے مسجد کی تعمیر اور امام کا انتظام دونوں ضروری ہے۔

(۵)یہ بھی ضروری ہے کہ ہم مسجد ایسی جگہ تعمیر کریں جہاں مسلمانوں کی مستقل آبادیاں موجود ہوں، راقم الحروف نے خود دیکھاہے کہ بعض اہل خیر نے دینی جذبہ کے تحت عالی شان مسجد توبنادی ،مگر ایسی جگہ جہاں قریب میں مسلم آبادی نہیں ہے، میں نے دریافت کیا کہ ایسی جگہ پر مسجد کی تعمیر کی کیاضرورت ہے؟توکہاگیا کہ اس ہائی وے سے بہت سے مسلمان گزرتے ہیں، ان کو نماز پڑھنے میں سہولت ہوگی،غورکیجئے! کہ کیاگاہے گاہے گزرنے والے مصلیوں کیلئے موجودہ حالات میں مسلم آبادی سے دور مسجد آباد کرنا کوئی عقل مندی کی بات ہے؟مسافر پر تو ویسے بھی جماعت واجب نہیں اور رسول اللہﷺ نے فرمایا:پوری روئے زمین مسلمان کیلئے نماز کی جگہ ہے(صحیح بخاری،حدیث نمبر:427)وہ سڑک کے کنارے مصلی بچھاکر نماز پڑھ لے تویہ بھی کافی ہے، مگر ایسی مسجدیں جو محض اپنے دینی جذبات کی تسکین کیلئے بنائی جاتی ہیں، بعد میں ویران ہوجاتی ہیں اوران کے احترام کو باقی رکھنا دشوار ہوجاتاہے۔

(۶)اسی طرح بعض ایسے تجربات بھی سامنے آئے کہ کسی فیکٹری کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں مسلم ملازمین جمع ہوئے جو گورنمنٹ کے یافیکٹری کے کوارٹرس میں مقیم ہیں، پھر فیکٹری بند ہوگئی تو وہاں سے چلے گئے، ریٹائرڈ ہوگئے، اور وہاں سے نقل مکانی کرتے رہے،یہاں عارضی طورپر مقیم ان حضرات نے مسجد تعمیر کرلی تھی ،جب یہ وہاں سے رخصت ہوگئے تو اب مسجد نمازیو ں کیلئے ترس رہی ہیں، مسلمان ملازمین کی جگہ غیرمسلم ملازمین آگئے، یہ مسجد ان کو بے کار محسوس ہوتی ہے اور نگاہوں میں کھٹکتی ہے، ایسی مسجدوں کی حفاظت بے حد دشوار ہوتی ہے، اس لیے جہاں عارضی طورپر آباد ہوں ، وہاں مسجد کی جگہ مصلیٰ(جماعت خانہ)بنادیناچاہئے،کیوں کہ مصلیٰ کا حکم مسجد کا نہیں ہوتا، ضرورت ختم ہوجائے تو اس سے دوسرا کام بھی لیاجاسکتاہے۔

(۷)اس وقت جب کہ پورے ملک میں فرقہ پرستوں کی طرف سے مسجدوں پر ناجائز دعوے کیے جارہے ہین اورزمین کوکھودنے کی بات کہی جارہی ہے، ضرورت ہے کہ مسلمان قانون داں ہر شہر میں اپنی ایک ٹیم بنائیں جو اپنی آخرت اوراللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے قانونی طورپر مسجد کے تحفظ کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوں ،اس کو ’’لیگل گروپ برائے تحفظ مساجد ‘‘کانام دیاجاسکتاہے،یہ گروپ عدالتی کارروائی کرے،اوراس کو اپنی آخرت کیلئے کرے؛کیونکہ ہر جگہ مسلمان اس موقف میں نہیں ہیں کہ وکیلوں کی بھاری بھرکم فیس اداکرسکیں؛اس لیے مسلمان وکلاء بھی اس بات کو سمجھیں کہ مسجد کے تحفظ کی جتنی ذمہ داری عام مسلمانوں پر ہے، بحیثیت ایک قانون داں کے ان پر اس کی زیادہ ذمہ داری ہے۔

(۸)انسان جس ملک میں ہو،اس کیلئے اس ملک کے قانون کی رعایت بھی ضروری ہوتی ہے، جیسے ہم ٹرین کا سفر کریں تو ٹکٹ لے کر کریں، گاڑی لے کر سڑک پر چلیں تو ٹریفک قانون کا لحاظ کریں،اسی طرح حکومت نے ذاتی مکانات اورعبادت گاہوں کی تعمیر کیلئے کچھ قوانین بنائے ہیں، جن کا مقصد گاڑیوں کی آمد ورفت کے نظام کو درست رکھنا ،امن وامان قائم رکھنا ،اس کیلئے دو عبادت گاہوں کے درمیان فاصلہ کی رعایت کرنا وغیرہ ہے، لیکن ہمارے ملک میں عام مزاج یہ ہے کہ ذاتی مقصد کی تعمیر ہو، یا سماجی مقاصد کیلئے بنائی گئی عمارت ،یا عبادت گاہیں، حکومت سے باضابطہ اجازت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی، اس میں ہندو،مسلم سب برابر ہیں، دوسرے اہل مذاہب کے یہاں عبادت گاہوں کے تقدس کا وہ تصور نہیں ،جو مسلمانوں کے یہاں ہے،وہ تو اپنی عبادت گاہوں کو فروخت کردیتے ہیں، مگر ہمارے یہاں جو جگہ ایک بار مسجد بن گئی، وہ قیامت تک مسجد رہتی ہے، اس لئے مسلمانوں کو خاص طورپر مسجدوں کی تعمیر کرتے ہوئے قانونی طورپر اجازت حاصل کرلینی چاہئے؛ تاکہ کل ہوکر مسجد کو غیرقانونی قراردے کر حکومت نقصان نہ پہنچاسکے اور فرقہ پرست عناصر اس کو فساد کی بنیاد نہ بناسکیں، قانون پر چلنے کی وجہ سے کوئی انسان چھوٹا نہیں ہوجاتا،بلکہ یہ اس کے فہم وفراست اور تہذیب وشائستگی کی علامت ہوتی ہے،غرض کہ ایک طرف ہمیں اعداء دین سے مسجد کی حفاظت کرنی چاہئے، اس کے لیے ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار رہنا چاہئے ، اور دوسری طرف مسجدوں کے تحفظ اور بچاؤکے لیے مثبت تدبیریں بھی کرنی چاہئے۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.