Baseerat Online News Portal

مسلم دنیادوراہے پر

سمیع اللہ ملک
یواے ای اوربحرین کے بعدٹرمپ نیاعلان کیاہے کہ مزیددس ممالک اسرائیل کوتسلیم کرنے کی تیاری کررہے ہیں یقیناایک بارپھر مغربی طاقتیں اسرائیل کوتسلیم کرنے کیلئے مسلم ممالک پردباؤبڑھارہی ہیں۔یہ معاملہ کسی ملک کوتسلیم کرنے کانہیں بلکہ مسلم دنیا کے ایمان کے سینے میں خنجرگھونپنے کاہے۔اسرائیل کاوجودمسلم دنیاکے جسم میں پل پل پھیلتے ناسور جیساہے۔دوسری عالمی جنگِ کے اختتام پراسرائیل کوقائم کرکے مغربی طاقتوں نے مسلم دنیاکیلئیایک مستقل نوعیت کی اذیت کاسامان کیاجواب تک جاری ہے۔پہلی جنگِ عظیم کے نتیجے میں جونفرت پیداہوئی تھی،اس نے یہودیوں کوبہت بڑے پیمانے پرموت کے گھاٹ اتارنے کاسامان کیا۔جرمن نازیوں نے یہودیوں سے صدیوں کے دوران پلنے والی نفرت کے تحت انتقام لیا۔اگریہودیوں کایہ دعویٰ درست بھی تسلیم کرلیاجائے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنوں کے ہاتھوں60لاکھ یہودی موت کے گھاٹ اترے تھے تب بھی سوال یہ پیداہوتاہے کہ یہودیوں کوسب سے زیادہ نفرت کس سے ہونی چاہیے تھی؟ظاہرہے،جرمنوں سے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مسلمانوں نے تویہودیوں کو یوں سرعام نفرت کانشانہ کبھی نہیں بنایا۔یہودیوں کی نظرمیں اگرانتقام لازم تھاتوپھرجرمنی کے خلاف کوئی قدم اٹھایاجاناچاہیے تھا۔جرمنوں کوسبق سکھانے کی ضرورت تھی مگرمغربی قوتوں نے یہودیوں کوانصاف فراہم کرنے کیلئے مسلمانوں سے ناانصافی برتی اوریوں فلسطین کے سینے میں اسرائیل کے نام کاخنجرگھونپ دیاگیا۔
یہ امرتسلیم شدہ ہے کہ یہودیوں کواسرائیل میں بساکرفلسطینیوں کی شدیدترین حق تلفی کی گئی ہے۔اب بھرپورکوشش کی جارہی ہے کہ پوری اسلامی دنیااسرائیل کوتسلیم کرلے۔ اسرائیل کوجس طورقائم کیاگیااورجس اندازسے اس ریاست نے مغرب کی سرپرستی میں فلسطینیوں سے شدید ناانصافی روارکھی ہے اس کاتقاضاہے کہ اسلامی دنیااسرائیل سے نفرت کرے اوروہ ایساہی کرتی آئی ہے ۔عام یہودیوں سے مسلمان اب بھی نفرت نہیں کرتے۔مغربی دنیامیں رہنے والے یہودیوں کومسلمانوں سے کبھی کوئی شکایت نہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل ایک سازش کے تحت معرضِ وجودمیں لایاگیاہے۔اسرائیل کسی بھی طور برقرارنہیں رہ سکتاتھامگرمغربی طاقتیں اس کی پشت پناہ تھیں۔امریکااوریورپ نے مل کراسرائیل کاوجودبرقراررکھنے پرتوجہ دی ہے۔اس کیلئے گویافلسطینیوں کوانسان ہی نہیں سمجھاگیااس کے باوجودکوشش یہی کی جارہی ہے کہ تمام مسلم ممالک اسرائیل کو دل وجاں سے تسلیم کرلیں۔
یواے ای وبحرین نے اسرائیل سے دوستی اورتعاون کاجومعاہدہ کیاہے وہ اس امرکاغمازہے کہ بات چیت بہت پہلے سے جاری تھی۔ جب موقع آیا تو’’آملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک‘‘جیسی کیفیت پیداہوگئی۔اسرائیل کوتسلیم کرنے کی تیاری بہت پہلے کر لی گئی تھی اوردوستی وتعاون کے معاہدے کے تمام نکات پربھی رضامندی یقینی بنالی گئی تھی۔یو اے ای اوراسرائیل نے جس انداز سے ایک دوسرے کوگلے لگایاہے وہ صاف بتارہاہے کہ میدان بہت پہلے تیارکرلیاگیاتھا۔تاہم سعودی عرب نے واضح طورپراعلان کیاہے کہ اسرائیل کوتسلیم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔یہ اعلان شدیددباؤکانتیجہ ہے۔یہ دباؤاندرونی یعنی اسلامی ممالک کی طرف سے ہے۔حرمین کی وجہ فطری طورپرسعودی عرب دنیابھر کے مسلمانوں کیلئے انتہائی قابلِ احترام ہے اورہراہم معاملے میں سعودی عرب کی طرف دیکھتے ہیں۔بیشترمسلم ممالک کی قیادت سعودی عرب کے نقوشِ قدم پر چلنے میں کوئی ہرج نہیں سمجھتی اگرسعودی عرب صحیح راستے پرگامزن ہو۔معاملات اس وقت پیچیدہ ہوجاتے ہیں،جب سعودی عرب سے اچھے اشارے نہیں آرہے ہوتے۔سعودی قیادت کوبھی اس کا شدت سے احساس ہے۔
ایک زمانے سے مسلم ممالک مرکزی قیادت کیلئے ترس رہے ہیں کہ مسلم دنیاکی قیادت کس ملک کے ہاتھ میں ہو۔سعودی عرب اور ایران کی شکل میں مسلم دنیادوبلاکس میں تقسیم ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ ان دونوں کی رقابت نے کئی ممالک کوشدیدترین منفی اثرات سے دوچارکررکھاہے۔پاکستان جیسے ممالک کیلئے یہ معاملہ بہت عجیب اورنقصان دہ رہاہے۔یہاں سعودی عرب کی حمایت کرنے والے بھی موجودہیں اورایران نوازعناصربھی۔ایسے میں معاشرے کامنقسم ہورہنافطری امرہے۔سعودی قیادت کی خواہش اورکوشش رہی ہے کہ باقی دنیاسے معاملات طے کرنے میں مسلم ممالک اس کی طرف دیکھیں،اس کی پالیسی کواپنائیں۔سعودی قیادت کا جھکاؤمکمل طورپرمغربی طاقتوں کی طرف ہے۔امریکانے سعودی قیادت کومٹھی میں لے رکھاہے۔اس کی تمام پالیسیوں پرامریکی اثرات بالکل نمایاں ہیں۔دوسری طرف یورپ بھی سعودی عرب کوزیرِتصرف رکھنے پرمتوجہ رہتاہے۔وہ اچھی طرح جانتاہے کہ سعودی عرب پراثراندازہوکرباقی اسلامی دنیاپراثراندازہوناقدرے آسان ہوجاتاہے مگربنیادی سوال یہ ہے کہ سعودی قیادت کی پیروی کرناہرمسلم ملک کیلئے لازم ہے؟ اگراس کی پالیسیاں اسلامی دنیاکیلئے مجموعی طورپرسودمندہوں تب تومعاملہ ٹھیک ہے بصورتِ دیگرسعودی قیادت کی پیروی کرنابے عقلی اورخسارے کاسوداہی سمجھاجائے گا۔
ڈیڑھ عشرے کی مدت میں ترکی تیزی سے ابھراہے۔ترکی نے مسلم دنیاکی قیادت بھی کی ہے اوراب پھرایساکرنے کی کوشش میں ہے۔اس وقت ترک قوم غیرمعمولی اعتماد سے مالا مال ہے۔ترکی نے یورپ کی طرزپرغیرمعمولی ترقی یقینی بناکراسلامی دنیاکے سامنے خودکومثال کی حیثیت سے پیش کیاہے۔وہ چاہتاہے کہ مسلم دنیاجدیددورکے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ترکی نے جدیدترین علوم وفنون میں پیش رفت یقینی بنانے پرخاطرخواہ توجہ دی ہے۔یہ سب کچھ یورپ کی پیروی کرتے ہوئے ممکن ہوسکاہے۔ترکی میں عمومی طرزِرہائش یورپی ہے مگراس کایہ مطلب نہیں ہے کہ اس نے اپنی تہذیب اوراقدار کوخیربادکہہ دیاہے۔ترکوں کواچھی طرح اندازہ ہے کہ انہوں نے مسلم دنیاکی قیادت کی تھی اوراگرموقع ہاتھ آجائے تواس دورکو دہرانے کی بھرپورکوشش کی جاسکتی ہے اورشایدوہ موقع آچکاہے۔
اردگان ایک ایسے لیڈربن کرابھرے ہیں جوبعض اہم معاملات میں مغرب کی سوچ اورمرضی کونظراندازکرنے میں دیرنہیں لگاتے۔اسرائیل کے معاملے میں انہوں نے یورپ کی ناراضی کی پروانہیں کی اورمحصورفلسطینیوں کی امدادکے حوالے سے ان کے اقدامات مسلم دنیامیں انتہائی مقبول ہوئے۔بھارت کوکشمیرکے معاملے میں آنکھیں دکھانے کے معاملے میں بھی اردگان پیچھے نہیں رہے۔انہوں نے ہرموقع پرپاکستان کے ساتھ کھڑے ہوکرباقی دنیاکوبتادیاکہ کسی بھی اہم معاملے پرپین اسلامک سوچ اپنائی جا سکتی ہے۔فلسطینیوں اور کشمیریوں کیلئے آوازبلندکرکے اردگان نے ایران اورملائیشیاکوبھی زبان دی ہے۔ملائیشیانسلی اعتبارسے منقسم معاشرہ ہے۔وہاں غیرمسلم بھی بڑی تعدادمیں ہیں۔یہ ملک اب تک مجموعی طورپرخاصاپرامن اورمستحکم رہاہے۔مہاترمحمد نے کشمیراورچنددوسرے معاملات میں بھارت سے ٹکرانے سے گریزنہیں کیا۔یہ بہت حیرت انگیزبات ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت غیرمعمولی نوعیت کی ہے۔مہاترمحمدنے سویابین آئل کی برآمدکوداؤپرلگانے سے بھی گریزنہیں کیا۔انہوں نے کشمیریوں کی حمایت میں نئی دہلی کوناراض کرنے سے ذرہ بھرگریزنہیں کیا۔اقوام متحدہ کے فورم سے بھی انہوں نے بھارت کو لتاڑنے میں بخل نہیں دکھایا۔اس معاملے میں ان کے جذبات کواردگان سے خاصی تحریک ملی ہے۔ ایران بھی ترکی اورملائیشیاکاہم نواہوکرابھراہے۔ان تینوں نے مسائل سے دوچارمسلم معاشروں اورزیادتی کانشانہ بننے والی بڑی مسلم آبادیوں کے حقوق کی بات کرکے باقی دنیاکو بتادیاہے کہ اب معاملات کوجوں کاتوں برداشت نہیں کیاجاسکتا۔جلدیابدیر،مسلم دنیاکے بنیادی مسائل حل کرنے ہی سے بات بنے گی اوریہ کہ مغربی دنیاکواسلامی ممالک یامسلم اقلیتوں سے کھلواڑجاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
ترکی کاابھرناسعودی عرب کیلئے پریشان کن ہے کیونکہ اس کی نام نہادقائدانہ حیثیت خطرے میں پڑگئی ہے۔سعودی عرب نے اب تک مغربی پالیسیوں کے مقابل انتہائی بزدلانہ روّیہ اختیارکیاہے۔مسلم دنیاکوبہت سے اہم مواقع پریہ توقع رہی کہ سعودی قیادت ان کے دل کی آوازبن کرابھرے گی،دنیابھرکے مسلمانوں کودرپیش مسائل کے حوالے سے مغرب سے دوٹوک اندازسے بات کرے گی مگراس نے ایساکچھ بھی نہیں کیا۔ہراہم موقع پرسعودی قیادت نے اپنے اورخطے کے مفادات کوزیادہ سے زیادہ تحفظ عطاکرنے پر توجہ مرکوزکی ہے۔یہ روش مسلم دنیامیں تقسیم کاباعث بنی ہے۔ایران اورترکی نے مسلم دنیاکی آوازبن کراپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے۔یہ دونوں ممالک اب ملائیشیاکے ساتھ مل کرمغرب کوکسی حد تک منہ دے رہے ہیں اوربھارت کوبھی۔بھارتی قیادت اسلامی دنیامیں حق کیلئے آوازبلندکرنے کی طاقت رکھنے والے کسی بھی بلاک کے ابھرنے سے پریشان ہے۔ بھارت کے لاکھوں باشندے مسلم دنیامیں کام کررہے ہیں۔سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،بحرین،قطراوردیگرخلیجی ریاستوں میں بھارت کے لاکھوں مزدور، ہنرمنداورنالج ورکرزکام کررہے ہیں۔اگران ممالک میں ان کیلئے مجموعی طورپرمشکل حالات پیداہوگئے توبھارتی معیشت کوغیر معمولی دھچکالگے گا۔بھارت میں مسلمانوں سے عمومی سطح پر زیادتیوں اورکشمیریوں سے خصوصی طورپرامتیازی سلوک روا رکھے جانے پربھی عرب دنیامیں بسے ہوئے بھارتی باشندوں سے روارکھے جانے حسنِ سلوک میں اب تک کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔بھارتی قیادت کواِس خوش کن حقیقت کابھی کچھ احساس نہیں۔نئی دہلی کے پالیسی سازیہ نہیں سوچ رہے کہ اگرعرب دنیا میں بھارتی باشندوں کے خلاف نفرت کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی توکیاہوگا؟
وقت آگیاہے کہ مسلم دنیاکیلئے کوئی ایک ملک پوری قوت کے ساتھ کھڑاہواوربھرپورقائدانہ کرداراداکرے۔ترکی،ایران اورملائیشیا نے ایسی ہی کوشش کی ہے۔چندماہ قبل کوالا لمپور میں منعقد کی جانے والی سربراہ کانفرنس اسی سلسلے کی کڑی تھی۔پاکستان نے اس کانفرنس میں شریک ہونے سے سعودی دباؤکے باعث گریزکیاتھا۔بعدمیں عمران کوملائیشیاجاکر وضاحت بھی کرناپڑی تھی۔یہ سب کچھ زیادہ نہیں چل سکتا۔پاکستان کواس حوالے سے کوئی حتمی نوعیت کافیصلہ توکرناہی پڑے گا۔سی پیک سے جڑے منصوبوں کی بقااورچین سے دیرپادوستی برقراررکھنے کیلئیایساکرناناگزیرہے۔
ترکی اورایران نے مل کرایسی فضاپیداکردی ہے،جس میں بھارت اوردیگرعلاقائی طاقتوں کے مفادات کوخطرات لاحق ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔چین کااسلامی دنیاسے مجموعی تعلق بہت اچھاہے۔اس وقت کوئی ایک بھی مسلم ملک چینی مفادات کایکسر مخالف نہیں۔مغربی پروپیگنڈے کے باوجودمسلم دنیامیں چینی قیادت اورعام چینیوں کیلئے خیرسگالی کا جذبہ پایاجاتاہیاورپھرجنوب مشرقی ایشیا سے ملائیشیابھی مسلم دنیاکیلئیتواناآوازبن کرابھراہے۔مہاترمحمدنے پیرانہ سالی کے باوجودمسلم دنیاکے اتحادکی خاطرمتحرک رہنے کوترجیح دی ہے۔ایسے میں ترکی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ رکھنافطری امرہے۔ترکی مسلم دنیاکاقائدرہا ہے۔ترکوں میں قائدانہ صفات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔حالات اس امرکے متقاضی ہیں کہ مسلم دنیاسعودی عرب پردباؤڈالے کہ وہ بھی ترکی کاہمنواہو۔اگرایساکرناممکن نہ ہوتب بھی مسلم ممالک کے پاس ترکی کی ہم نوائی کاآپشن ضرورموجودہے۔شمالی
افریقا ایک زمانے سے امتیازی سلوک کاسامناکررہاہے۔عرب دنیاسے جڑے ہونے کے باوجودشمالی افریقاکے مسلم ممالک کوکچھ خاص ملا نہیں۔سعودی عرب اورخلیج فارس کی متمول ریاستوں نے مسلم دنیا کیلئے مجموعی طورپرکوئی بڑااقتصادی وسیاسی کردارادا کرنے سے اب تک گریزکیاہے۔یہ سلسلہ اب زیادہ دیرنہیں چل سکتا۔اگرمسلم دنیاکے بیشترممالک نے کوئی فیصلہ نہ کیاتومزید خسارے سے دوچارہوں گے۔چین تیزی سے ابھررہاہے۔اس کے ابھرنے سے امریکااوریورپ کے علاوہ بھارت جیسے ممالک بھی پریشان ہیں۔بھارت اقتصادی طورپراتنامستحکم اب بھی نہیں کہ کسی بڑے دھچکے کوآسانی سے جھیل سکے۔اگرامریکااوریورپ نے راستہ بدل لیاتوبھارت کوڈوبنے سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔
مسلم دنیادوراہے پرکھڑی ہے۔دنیابدل رہی ہے۔بدلتی دنیاکا ساتھ دینے کیلئے لازم ہوگیاہے کہ مسلم دنیاکی ایک مضبوط مرکزی قیادت ہو۔مسلم دنیاکوعلاقائی قیادتوں کے ذریعے بھی مستحکم کیاجاسکتاہے مگریہ مستقل نوعیت کاحل نہیں۔اگراس وقت مسلم دنیا میں، کسی نہ کسی شکل میں،مضبوط مرکزی قیادت ابھرجائے توچین کاحوصلہ بھی بڑھے گااوروہ زیادہ قوت کے ساتھ امریکااوریورپ کی برتری واجارہ داری کاطلسم توڑنے کی سمت بڑھ سکے گا۔

Comments are closed.