Baseerat Online News Portal

مظلوموں کی مدد ، ایک اہم فریضہ

 

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی

جنرل سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ

اسلام اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا دین ہے ، یہ کوئی نیا دین نہیں ؛ بلکہ حضرت آدم علیہ السلام ہی کے وقت سے یہ دین چلا آرہا ہے ؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لئے اسی نظامِ حیات اور طریقۂ زندگی کو پسند فرمایا ہے ، قرآن کا ارشاد ہے : ’’إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اﷲِ الإِسْلاَمُ‘‘(آل عمران: ۱۹) یعنی اللہ کے نزدیک جو دین معتبر و مقبول ہے وہ صرف اسلام ہے ، اس دین کو آخری اور مکمل صورت میں محمد رسول اللہ ﷺپر نازل فرمایا گیا ، اب جو لوگ اس سچے دین پر ایمان لے آئیں ، وہ سب گویا ایک خاندان کے افراد ہیں اور ایمان کے رشتہ نے ان کو جوڑ رکھا ہے ۔

یہ ایک آفاقی اور عالمگیر خاندان ہے ، جیسے پانی کے ایک قطرہ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ، ہوا اُسے اُڑا لے جاتی ہے اور دُھوپ اُسے لمحوں میں جلا کر رکھ دیتی ہے ؛ لیکن یہی قطرہ سمندر میں مل جاتا ہے تو وہ سمندر کی وسعت و طاقت کا ایک حصہ بن جاتا ہے اور ایک ناقابل تسخیر طاقت قرار پاتا ہے ، اسی طرح جب کوئی انسان ایمان لاتا ہے ، تو وہ سمندر سے بھی زیادہ وسیع اور طاقتور خاندان کا ایک حصہ بن جاتا ہے ، علاقے اور جغرفیائی سرحدیں ، برادریاں اورزبانیں یہ سب انسانی تقسیم میں اور بٹوارے ہیں ، اسلام کی نگاہ میں پوری انسانیت صرف دو گروہ میں بٹی ہوئی ہے : ایک وہ جو خدا کی طرف سے آئی ہوئی ابدی سچائی پر یقین رکھتا ہو ، یہ قرآن کی زبان میں مسلم ہے ، دوسرے وہ جو اس سچائی کے منکر ہیں ، جنھیں قرآن کافر سے تعبیر کرتا ہے ۔

افسوس کہ مغرب نے اُخوت ِایمانی پر تیشہ چلانے اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے قومیت کے جاہلی تصور کو جگایا اور انھیں علاقہ ، زبان اور قبیلہ و خاندان کےنام پر تقسیم کرنے کی بے جا کوشش کیا اور وہ بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے ؛ لیکن حقیقت یہی ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک کنبہ اور خاندان ہیں اور ہم سب اس خاندان کے افراد ہیں ، اُخوتِ اسلامی کا یہ رشتہ تمام رشتوں سے زیادہ عزیز اور یہ تعلق تمام تعلقات سے زیادہ محبوب ہے ، رسول اللہ ﷺنے اس آفاقی خاندان کے باہمی رشتۂ محبت کو کس خوبصورتی کے ساتھ بیان فرمایا ، آپ ﷺنے فرمایا :

تم اہل ایمان کو باہمی رحم دلی او رمحبت و مودت میں ایک جسم کی طرح پاؤ گے ، کہ اگر ایک عضو کو بھی تکلیف ہو تو اس کے لئے پورا جسم بےخوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔( بخاری ، عن نعمان بن بشیر ، حدیث نمبر : ۶۰۱۱)

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے ، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے ، پھر خود رسول اللہ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر اس کو عملی مثال کے ذریعہ سمجھایا : ’’المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً ‘‘ ۔(بخاری ، حدیث نمبر : ۶۲۰۶)یہ رشتہ درد و محبت کا رشتہ ہے ، دنیا میں کہیں کسی مسلمان پر کوئی آزمائش آئے ، ہرمسلمان کو اس پر تڑپ اُٹھنا چاہئے ، ایک مسلمان کو کوئی زخم لگے تو دوسرا اپنے سینے پر اس کی کسک محسوس کرے ، ایک مسلمان پر کوئی پتھر پھینکا جائے ، تو دوسرے کو اپنے کلیجہ پر اس کی چوٹ محسوس ہو ، اس وقت ہمارے ملک میں گجرات کے مسلمان بھائی ہندو دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ، ہزاروں افراد قتل کر دیئے گئے ، سینکڑوں مرد و عورت زندہ نذر آتش کر دیئے گئے ، چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں ؛ بلکہ پیٹ میں پرورش پانے والے جنین تک کو ظلم وجور کا نشانہ بنایا گیا ہے ، شاید آسمان کی آنکھوں نے ایسے مظالم کم دیکھے ہوں گے ، اس صورتِ حال نے بجا طور پر نہ صرف مسلمانوں ؛ بلکہ ان تمام لوگوں کو جن کے اندر انسانیت کی کوئی رمق باقی تھی ، لرزہ براندام کرکے رکھ دیا ہے اور پورے ملک سے مسلمان گجرات کے لٹے ، پٹے بھائیوں کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں ، یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ گجرات کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے والوں میں مسلمانانِ حیدرآباد نے سب پرسبقت حاصل کی ہے ، ہمیں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اس وقت ہم گجرات کے مظلوم بھائیوں کے لئے جو کچھ کر رہے ہیں ، وہ احسان نہیں ؛ بلکہ ایک مذہبی اور انسانی فریضہ ہے اور مسلمانانِ گجرات کو یہ سزا اُن کے مسلمان ہونے اور پورے ملک میں اسلامی کاز کی مدد کرنے کی وجہ سے دی گئی ہے ۔

مدد کا ایک طریقہ تو ہنگامی ہے ، یعنی عارضی طور پر کچھ کھانے پینے کے سامان دے دیئے ، کچھ برتن اور کپڑوں کا نظم کر دیا ، یہ تو ضروری ہے ہی ؛ لیکن اصل مسئلہ پائیدار بنیادوں پر ان مشکلات کو حل کرنے کا ہے ، یہ زیادہ اہم ہے ، اس وقت بہت سے لوگ سر چھپانے کے لئے سایہ سے بھی محروم ہو چکے ہیں ، ان کے لئے مکانات کی تعمیر ، ان کی مصیبت اور پریشانی کو حل کرنا ہے ، بہت سے لوگ وہ ہیں کہ جنھیں ان کی آبادیوں سے نکال دیا گیا ہے اور ایمان سے محرومی کی قیمت پر ہی ان کو واپسی کی اجازت دی جارہی ہے ، جو ظاہر ہے کہ کسی مسلمان کے لئے زندگی اور جان کی قربانی سے بھی بڑھ کر ہے ، ان کے لئے مسلمانوں کے کثیر آبادی والے علاقوں میں زمین خرید کر بستیاں بسانا ضروری ہے ، بہت سی خواتین بیوہ ہو چکی ہیں ، ان کی زندگی کے لئے گذر اوقات کا مسئلہ ہے کہ اگر ان کی شادی کر دینا قرین مصلحت ہو اور وہ اس پر آمادہ ہوں تو مسلمان اس بوجھ کو اُٹھانے کے لئے تیار ہوں اور بیوہ عورتوں سے نکاح کی جو سنت رسول اللہ ﷺنے چھوڑی ہے ، اس سنت کو تازہ کریں ۔

رسول اللہ ﷺنے بیوہ اور مسکین لوگوں کی خدمت کرنے والوں کو اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے یا دن میں روزہ رکھنے والے اور رات میں تہجد پڑھنے والے کے برابر قرار دیا : ’’الساعی علی الارملۃ والمسکین کالمجاھد فی سبیل اﷲ أو کالذی یصوم النہار یقوم اللیل‘‘(بخاری عن صفوان ، حدیث نمبر : ۶۰۰۶)حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا : جس نے کسی مسلمان سے دنیا کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو دُور کیا تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں میں مصیبت کو دُور فرمائے گا ، جس نے کسی تنگ دست پر آسانی پیدا کی ، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے ساتھ آسانی فرمائیں گے ، جو کسی مسلمان کی غلطی کو چھپائے اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی ستاری فرمائیں گے ، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس بندہ کی مدد کی طرف متوجہ رہتے ہیں ،(ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۴۹۴۶) اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت ان مظلوم بھائیوں کی مدد کس قدر اہم او راجر و ثواب کا سامان ہے ۔

رسول اللہ ﷺنے حاجت مندوں کی اعانت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ سمجھایا ہے ، جسے سن کر ہر شخص کا دل پسیج جائے ، آپ ﷺنے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے ، اے ابن آدم ! میں بیمار ہوا تونے میری عیادت نہیں کی ، بندہ عرض کرے گا ، پرور دگار ! میں کیسے آپ کی عیادت کر سکتا تھا ، آپ تو خود سارے جہان کے رب ہیں ، ارشاد ہوگا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا ، تونے اس کی عیادت نہیں کی ، اگر تم اس کی عیادت کرتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے —پھر ارشاد ہوگا : اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا اور تونے مجھے کھلا یا نہیں ، بندہ عرض کناں ہوگا : میرے پرور دگار ! آپ تو تمام عالم کے رب ہیں ، آپ کو میں کیوں کر کھانا کھلاتا ، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : میرا فلاں بندہ تجھ سے کھانے کا طلب گار ہوا تھا ، تم نے اسے نہیں کھلایا ، اگر تم اسے کھلاتے تو مجھے وہاں موجود پاتے ، پھر اللہ کہیں گے : اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا اور تونے مجھے نہیں دیا ، بندہ ملتجی ہوگا ! میرے پروردگار ! آپ تو کائنات کے رب ہیں ، میں آپ کو کس طرح پلاتا ، فرمانِ باری ہوگا ، تجھ سے میرے فلاں بندے نے تو پانی مانگا تھا ، تونے اسے پانی نہیں دیا ، اگر تو اسے پلاتا تو مجھے وہاں موجود پاتا ،( مسلم ، حدیث نمبر : ۶۵۵۶) — گویا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی مدد کرنا براہِ راست اُسے اللہ کے حضور پہنچانا ہے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں مخلوق کی خدمت اور بندوں کی حاجت روائی کی کیا اہمیت ہے ؟

انسان کو سب سے زیادہ فکر اور خواہش درازیٔ عمر اور خوش معاشی کی ہوتی ہے ، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ : جو چاہتا ہو کہ اس کی رزق میں وسعت اور عمر میں برکت ہو تو اسے صلہ رحمی کرنا چاہئے ،( بخاری ، حدیث نمبر : ۵۹۷۵)— جو لوگ آخرت کی زندگی اور اللہ تعالیٰ کے نظامِ غیبی پر یقین رکھتے ہیں ، ان کے لئے یہ یقیناً مژدہ جانفزا ہے ۔

ایک اہم مسئلہ یتیم ہونے والے بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی کفالت کا ہے ، اس سلسلہ میں بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ مسلمان حسب ِاستطاعت ایک دو بچوں کی کفالت قبول کرلیں اور اپنے خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے ان کی پرورش کریں ، خاص کر جو لوگ صاحب اولاد نہیں ہیں ، ان کے لئے یہ نہایت ہی بہتر صورت ہے ، یہ ایک دو یتیم لڑکے یا لڑکی کی کفالت انشاء اللہ ان کے لئے برکت ہی ثابت ہوگی اور رسول اللہ ﷺ کی وہ سنت بھی ادا ہو سکے گی ، جو یتیم کی کفالت کے سلسلہ میں آپ ﷺنے قائم فرمائی تھی ، کئی ازواجِ مطہرات جو آپ ﷺ کی نکاح میں آئیں ، وہ اپنے ساتھ یتیم بچوں کو بھی لے کر آئیںاور آپ ﷺ نے انھیں بوجھ نہیں ؛ بلکہ خدا کی ایک نعمت سمجھ کر قبول فرمایا، آپ ﷺنے اپنے انگشت ِشہادت اوردرمیانی انگلی کو ملا کر فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے ،(بخاری ، حدیث نمبر : ۶۰۰۰۵)— مومن کے لئے یہ کس قدر مسرور کن خوشخبری ہے ! اور جو لوگ دنیا میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت سے محروم ہیں ، ان کے لئے آخرت میں اس سعادت کو حاصل کرنے کا کتنا آسان نسخہ ہے ! — یتیموں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرنے کے علاوہ ایسے باپ کی شفقت اور ماں کی ممتا سے محروم بچو ںکے لئے یتیم خانے بھی قائم کرنے ہوں گے ؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ لڑکے اور لڑکیاں اجتماعی کفالت کے زیر سایہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں ، اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے سلسلہ میں ایسی بات ارشاد فرمائی ہے کہ جو سنگ دل سے سنگ دل آدمی کو بھی پگھلا کر رکھ دے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : لوگوں کو یہ سوچ کر ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انھیں اپنے بچوں کے بارے میں کیسے کچھ اندیشے ہوتے ؛ اس لئے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور درست بات کہنا چاہئے ، (النساء : ۹۰) — کیسی چونکا دینے والی بات ہے ، کسی کو یہ خبر نہیں کہ اس کے بچوں کی پرورش اس کے ہاتھوں ہوگی ، یا وہ انھیں چھوڑ کر دنیا سے گزر جائے گا اور اگر وہ انھیں چھوڑ کر دنیا سے بلا لیا جائے تو اپنے بے سہارا بچوں کے بارے میں اس کے کیا جذبات واحساسات ہوں گے ؟

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.