Baseerat Online News Portal

مفتی سلمان ازھری کا یتی نرسمہانند سرسوتی کو دعوت مباہلہ یا چیلینج

مرتب: قاضی ومفتی محمد ریاض ارمان القاسمی
مدرسہ الصالحات اندھیری ویسٹ ممبئی
موبائل نمبر:۸۵۲۹۱۵۵۵۳۵
مباہلہ کا لفظ’’ اھل ‘‘کے وزن پر مادہ "بہل” سے آزاد کرنے اور کسی چیز سے قید و بند اٹھانے کے معنی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا نوازیدہ بچہ آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے، اسے "باھل” کہتے ہیں اور دعا میں "ابتھال” تضرع اور اللہ تبارک وتعالیٰ پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔ اصطلاح میں مباھلہ ایک دوسرے پر نفرین کرنا تا کہ جو باطل پر ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہواور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے، اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جا تی ہے ۔ مباہلے کا عمومی مفہوم اس طرح بیان کیا جاتا ہے:’’دو مد مقابل آپس میں یہ دعا کریں کہ اگر تم حق پر ہواور میں باطل ہوں تواللہ مجھے ہلاک کرے ،اور اگر میں حق پر اور تم باطل پر ہو تو اللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کرے ‘‘،پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہے ۔

مباھلہ کا شرعی حکم : مباہلہ کہتے ہیں اگر کسی امر حق وباطل میں فریقین میں نزاع ہوجائے اور دلائل سے نزاع ختم نہ ہو تو پھر ان کو یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ سب مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو اس امر میں باطل پر ہو اس پر خدا کی طرف سے وبال اورہلاکت پڑے سو جو شخص جھوٹا ہوگا ،وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا اس طور پر دعا کرنے کو مباہلہ کہتے ہیں اور یہ ضرورت کے وقت جائز ہے:وھل المباہلة مشروعة بعد النبي صلی اللہ علیہ وسلم فذکر في رد المحتار في باب الرجعة عن البحر معزیا إلی غایة البیان أنہا مشروعة عند الحاجة قال الشیخ في بیان القرآن: إن في مشروعیة اللعان أقوی دلیل علی مشروعیة المباہلة (احکام القرآن للشیخ ظفر احمد عثمانی جلد ۲ص۲۶)۔

مباہلہ کامشہور واقعہ ہے، جسے سیرت ابن اسحاق اور تفسیر ابن کثیر میں تفصیل سے لکھاگیا ہے ۔نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے نجران کے نام ایک فرمان بھیجا ،جس میں یہ تین چیزیں تھیں ،اسلام قبول کرو ،یا جزیہ ادا کرو، یا جنگ کےلیے تیار ہو جاؤ،مسیحیوں نے آپس میں مشورہ کر کے شرجیل ،جبار بن فیضی وغیرہ کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ۔ان لوگوں نےمذہبی امور پر بات چیت شروع کی،یہاں تک کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرنے میں انتہائی بحث وتکرار سے کام لیا، اسی دوران وحی نازل ہوئی جس میں مباھلہ کا بھی ذکر ہے’’ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (سورۃ آل عمران:۶۱) اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں حضرت حسن حسین اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ اورداماد حضرت علی ؓ کو گھر سے لے کر نکلے، دوسری طرف مسیحیوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ہیں تو ہم ہلاک ہو جائیں گے ،اور ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔

یہ تو رہا مباھلہ کا مختصر سا تذکرہ اب ہم ملک عزیزمیں جاری ’’مباھلہ یا چیلینج‘‘ کی طرف آتے ہیں ۔

غیر سنجیدہ ،بدسخن، بدفطرت،گستاخ رسول ’’یتی نرسمہانند سرسوتی‘‘ نے پاک سیرت، پاک نہاد، پاک سخن، حسین صورت پیغمبرﷺ کی شان میں جس طرح گستاخیاں کی ہیں، ان سے ہر مسلمان کے دل چھلنی ہیں۔ اور طبیعت افسردہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ اہلِ ایمان عجیب قسم کی بے چینی میں ہیں۔ گویم مشکل، وگر نگویم مشکل۔ ایک طرف کورونا کے عنوان سے زندگی تنگ ہے اور دوسری طرف اس انسان نما حیون کی طرف سے تکلیف دہ باتوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ۔ مسلمان کرے بھی تو کیا، اور جائے بھی تو کہاں! امانت اللہ خان نے ٹوئیٹ کیا تو پورا حزب الشیطان ہم آواز ہو گیا۔ اس وقت کا قومی میڈیا بھی حزب الشیطان کا ہی اہم حصہ ہے۔ سچ کہیے تو موجودہ دور حزب اللہ اور حزب الشیطان سے کڑے مقابلے کا ہے، بس غم اس کا ہے کہ حزب اللہ ٹکڑوں میں منقسم ہے اور حزب الشیطان بنیان مرصوص بنا ہوا۔ حضورﷺ کے عہد کے عباد اللات و العزیٰ کے بارے میں اللہ نے کہا تھا: تحسبہم جمیعاً و قلوبہم شتیٰ(سورۃ الحشر :۱۴)۔ بظاہر متحد ہیں اور در پردہ منتشر، لیکن ہمارے دور کا حزب الشیطان بظاہر منتشر ہے اور بباطن متحد۔ یہی وجہ ہے کہ نرسمہا نند جیسا خبیث ابھی تک آزاد گھوم رہا ہےاور محسنِ کائناتﷺ کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔

جہاں تک مباہلہ کا معاملہ ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے، مگر افہام و تفہیم کے بعد۔یہاں ایک غلط فہمی بھی دور کر دینا ضروری ہے، ایک طبقے کا خیال ہے کہ مباہلہ کا تعلق نبی کی ذات تک محدود ہے اور ان کے بعد منسوخ۔ یہ نظریہ صحیح نہیں ہے۔ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن نے متعدد حوالوں سے یہ بات لکھی ہے کہ: ہر ایسا معاملہ خواہ دینی ہو یا دنیاوی جس کا حق ہونا دلائلِ حقہ سے واضح ہوچکا ہو، اس کے باوجود مدِّ مقابل اسے تسلیم کرنے پر تیار نہ ہو، اور صاحبِ حق اپنی سچائی، یا دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے لیے مباہلہ کرنا چاہے تو شرعًا اس کی اجازت ہے؛ کیوں کہ مباہلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد کے زمانوں میں بھی مباہلہ کرنا ثابت ہے، لہذا آج بھی اگر کوئی مباہلہ کرنا چاہے، تو کر سکتا ہے، تاہم کسی جھوٹے معاملہ میں دھوکا دینے کے لیے ہر گز مباہلہ نہیں کرنا چاہیے، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے مباہلہ کے حوالہ سے تجربہ نقل کیا ہے کہ ناحق مباہلہ کرنے والے کو مباہلہ کے بعد سال بھر بھی جینا نصیب نہیں ہوتا، یعنی سال مکمل ہونے سے قبل ہی وہ اللہ کی پکڑ کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔

تاریخ میں ایسے واقعات بہ کثرت موجود ہیں کہ اللہ والوں کو آگ نے کوئی نقصان نہیں پہونچایا۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، مشہور تابعی حضرت ابومسلم خولانی ہیں۔ سیدنا حضرت خالد بن ولیدؓ زہر کا پیالہ پی گئے اور انہیں کچھ نہیں ہوا، مگر یہ سب بطور مباہلہ نہیں تھا۔ اول الذکر دو شخصیات کو زبردستی آگ میں جھونکا گیا تھا، رہا خالد بن ولیدؓ جیسے جلیل القدر صحابی کا معاملہ، تو وہ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے تھا کہ زہر فی نفسہ قاتل ہوتا ہے ،اور ارادۂ خداوندی کو کوئی دخل نہیں۔ ہاں! شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے آگ میں کودنے کی دعوت دینے والی بات درست ہے۔ مشہورِ زمانہ پادری فنڈر نے مسلمانوں کو چیلنج کیا کہ اگر تم سچے ہو تو قرآن لے کر آؤ، میں انجیل اور بائبل لے کر آتا ہوں۔ تم اپنا قرآن آگ میں ڈالو، میں اپنی کتابیں نذرِ آتش کرتا ہوں۔ جس کی کتاب جل گئی، اس کا دین سچا ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے فرمایا: ایسا نہیں، یوں کر لو! تم اپنی کتابیں لے کر آگ میں کودو اور میں اپنا قرآن لے کر آگ میں گھستا ہوں۔ جو زندہ بچ گیا، وہ برحق ہے۔ وہ گھبرا کر بھاگنے لگا، لوگوں نے پکڑا اور وجہ پوچھی، تو کہنے لگا: انجیل پر تو مسالہ لگا لیا تھا تاکہ آگ نہ جلائے، اپنے جسم پر نہیں۔

خلاصہ یہ کہ مفتی سلمان ازہری کےعمل کو آپ مباہلہ کہیں یا چلینج یہ آپ کی سوچ پر مبنی ہو سکتا ہے ،اس کےشرعی وعقلی دلائل قوی اور ضیعف کہے جاسکتے ہیں ،لیکن یہ واضح ہوچکا ہے کہ حق وباطل آمنے سامنے ہے ،اور کوئی بھی موثر قدم نہیں اٹھا یا جارہا تھا ،ایسے میں ایک نوجوان عالم دین مفتی سلمان ازھری نے صدا لگائی ہے ،اور پوری دنیا کی نگاہ آنے والی ۱۷ رمضان المبارک ۱۴۴۲ ہجری پر لگی ہوئی ہے ۔اب بھی امت کے باشعور طبقہ کے لیے وقت ہے کہ سر جوڑ کر بیٹھیں اورکوئی مضبوط لائحہ عمل تیار کریں تاکہ امت کو رسوائی سے بچایا جاسکے،کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک مستانہ کی آواز صدائے بازگشت ثابت ہو۔

 

Comments are closed.