Baseerat Online News Portal

ملت کا گوہر نایاب سلاخوں کے پیچھے کیوں؟

محمد قاسم ٹانڈؔوی
کہتے ہیں کہ: کسی بادشاہ نے اپنے ماتحت رعایا میں منادی کرائی کہ شام ڈھلے سبھی لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق گھروں سے دودھ لائیں اور سرکار کی طرف سے رکھے گئے برتن (بڑے ٹب یا ڈرم) میں ڈال کر اسے بھریں۔ چنانچہ لوگ آتے گئے اور رکھے گئے اس برتن کو بھرنے میں لگ گئے، صبح ہوتے ہوتے عوام نے اس برتن کو بھر دیا۔ اب دیکھئے لوگوں نے ایک طرف تو سرکاری فرمان کی پاسداری کی اور ہر شخص ہاتھ میں برتن لئے دکھائی دیا مگر دوسری طرف اکثر لوگوں نے اندھیرے کا فائدہ اٹھایا اور دودھ کی جگہ گھروں سے پانی لے کر آئے، پانی لانے والوں کا اپنا یہ گمان تھا کہ اتنے آدمیوں میں اگر میں پانی لے جاکر انڈیل دوں گا تو میرے پانی لے جانے کا کسے تو پتہ چلےگا، اور دوسرے اتنے سارے دودھ میں پانی کی آمیزش سے ہو کیا جائےگا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ صبح کو جب بادشاہ نے دیکھا تو وہ بڑا برتن جسے دودھ سے بھرنے کےلئے رکھا گیا تھا اس میں دودھ کم اور پانی زیادہ تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ہاتھ میں برتن لے جانے والا ہر شخص یہی سوچ رہا تھا کہ میرے ایک گلاس پانی سے اتنے دودھ میں فرق کیا پڑےگا؟
یہ ہماری آج کی تحریر کی تمہیدی مثال ہے، جو بعینہ ہماری قوم کی رہنمائی اور قیادت کا دم بھرنے والوں پر حرف بحرف صادق آتی ہے۔ کیوں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب سے ملک میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے، جس میں سیاسی اور سماجی دونوں قسم کے افراد حراست میں لئے جا رہے ہیں تب سے ان گرفتاریوں کے خلاف نہ تو کوئی مؤثر آواز بلند کی جا رہی ہے اور نہ ہی کوئی جامع لائحہ عمل مرتب کیا جا رہا ہے، جس سے کہ مرکزی یا صوبائی حکومتوں کی شہ پر ہر ہفتے عشرہ کے بعد ہونے والی گرفتاریوں پر آنکھ سے آنکھ ملا کر بات چیت کی جا سکے اور تحقیقی ایجنسیاں اور متعصب میڈیا کے ذریعے جنہیں مجرم ٹہھرا کر سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے اس سے قوم کے ہنرمند و باکمال اشخاص کو راحت مل سکے، جن کا بعد میں نہ تو کوئی پرسان حال ہوتا ہے اور نہ کوئی مقدمات کی پیروی کرنے والا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج نہ جانے کتنے قوم کے افراد کال کوٹھڑی میں قید ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں، جن میں ایک نام میدان سیاست کے شہ سوار، قوم و ملت کے غم خوار، بےداغ شخصیت کے حامل اور سرسید ثانی کے لقب سے مشہور جناب محمد اعظم خاں کا بھی ہے جو فی الحال اپنی رفیق حیات اور جواں سال بیٹے کے ہمراہ جیل میں ہیں اور عمر کے اس پڑاؤ پر غیروں سے زیادہ اپنوں کی سازشوں کا شکار ہو کر شکوہ کناں ہیں۔
یہ وہی اعظم خاں ہیں جنہوں نے سماج وادی پارٹی کو عروج و تابناکی سے ہمکنار کرانے میں اپنا خون پسینہ ایک کر اسے یوپی میں چار بار اقتدار کی منازل طے کرانے میں اپنی طرف سے نہ صرف بھرپور تعاون پیش کیا بلکہ پوری امانت و دیانتداری کے ساتھ اس کےلئے صوبہ سے باہر بھی سیاسی میدان ہموار کرایا جس سے یہ بات دو اور دو چار کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ سماج وادی پارٹی کو ہر اعتبار سے مضبوط و منضبط کرنے میں جو کردار بےانتہا محنت و لگن کے ساتھ یا مؤسس و محرک رکن کی حیثیت سے محمد اعظم خاں (ممبر آف پارلیمنٹ) نے نبھایا ہے، پارٹی سے وابستہ دیگر لیڈران کی طرف سے اس کا نصف بھی نہیں نبھایا اور اعظم خان نے پارٹی اور پارٹی سپریمو کےلئے کچھ بھی قربان کرنے میں دریغ نہیں کیا، خود ‘ملائم سنگھ یادو’ کو رفیق الملک کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ یہ وہی اعظم خاں ہیں جو سڑک سے لےکر پارلیمنٹ تک ہر موقع پر کمزور اور مظلوموں کی آواز بلند کرتے رہے اور سماجی ناانصافی اور محروم طبقات کی مضبوط اواز بن کر میدان عمل میں ڈٹے رہے اور دبے کچلے عوام کے جائز حقوق کے تحفط کےلئے جو بھی جدوجہد اور تگ و دو ہو سکتی تھی وہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ سب سے بڑی عدالت پارلیمنٹ میں بھی جب انہیں بولنے کا موقع دیا گیا تو اس وقت بھی انہوں نے پہلی تقریر کے دوران اپنی پوری سیاسی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ:
"میری پوری سیاسی زندگی میں اگر سوئی کی نوک کے برابر بھی کہیں بےایمانی، رشوت یا کوئی گھوٹالہ سازی یا کسی کے ساتھ کوئی زیادتی سرکار ی قلم کے ساتھ ہو تو میں ابھی اسی وقت پارلیمنٹ چھوڑنے کا اعلان کرتا ہوں، میں نے بہت صاف ستھری زندگی گزاری ہے؛ ورنہ اتنا لمبا سفر طے کرنے کے بعد ملک کی سب سے بڑی عدالت میں کھڑا نہ ہوتا”۔
اس سلسلے انہیں اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں تھا کہ مظلوم کس ذات برادری سے تعلق رکھنے والا ہے بلکہ ان کے پیش نظر تو صرف انسانیت اور خدمت ہوا ہوتی تھی، وہ بڑے سے بڑے مجمع اور بڑے سے بڑے آدمی کے سامنے حق اور سچ کہنے سے نہیں ڈرتے تھے۔ لوگوں نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب سماج وادی پارٹی پر ملائم سنگھ کا قبضہ تھا اور انہیں کی طوطی بولا کرتی تھی، تب بھی پارٹی میں سب سے قدآور نیتا یہی اعظم خاں ہوا کرتے تھے اور پارٹی سے وابستہ تمام اراکین کےلئے گائیڈ لائن اعظم خاں ہی جاری کرتے تھے اور جب پارٹی کی باگ ڈور اکھلیش یادو کے ہاتھوں میں آئی تب بھی سب سے نمایاں چہرہ اعظم خاں کا ہی ہوا کرتا تھا اور جس وقت پارٹی میں چچا بھتیجے کی آپسی رنجش کی بنیاد پر اتھل پتھل ہوئی اور پارٹی دو خیموں میں بٹ گئی تب بھی پارٹی کے تمام قدیم ورکرز کو سنبھالے رکھنا اور پوری قوت توانائی کے ساتھ اکھلیش یادو کا ساتھ دینے کےلئے راہ کے تمام کانٹے اپنے دامن میں سمیٹ لینا اسی مرد داناں کا کام تھا، مگر آج مصیبت و آزمائش کی اس مشکل گھڑی میں سب میدان سے غائب ہیں اور اس مرد درویش کو اس طرح یکہ و تنہا چھوڑ دینے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سب کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہو، جس کی وجہ سے سب نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ہم نے دیکھا اور بارہا دیکھا کہ جب بھی پارٹی یا ملائم خاندان پر کوئی مشکل گھڑی آئی تب سب سے آگے اعظم خاں نظر آئے مگر آج جب پارٹی کے اسی وفادار و بےباک اور وقت کے ہاتھوں ستائے گئے انسان دوست، انسانیت نواز اور قوم و ملت کے قیمتی سرمایہ کے نگہبان و محافظ شخص پر برا وقت آن پڑا تو اس کے حق میں آواز بلند کرنے والا کوئی دور دور تک نظر نہیں آ رہا ہے، اس کی قائم کردہ دانش گاہ پر بلڈوزر چلا دیا گیا، املاک کو نقصان پہنچایا گیا، قیمتی اور نادر کتب کا ذخیرہ نیست و نابود کر دیا گیا اور سیاسی انتقام لینے میں اس کے ساتھ اس کے اہل خانہ کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کر دیا گیا، لیکن اس کے حق میں کسی کو آواز بلند کرنے کی توفیق نہیں ہوئی، ملی ادارے اور تنظیموں کے سربراہان جو کبھی حصول مفادات میں بڑے بڑے پوشٹر اور ہولڈنگس میں ان کی تصاویر کے ہمراہ اپنی تصاویر چسپاں کرنے پر فخر جتایا کرتے تھے، وہ سب بھی گونگے بہروں کی مانند آواز بلند کرنے سے کترا رہے ہیں، خود ملائم سنگھ کا حال یہ ہے کہ وہ زنا کے الزام میں بند "پرجاپتی” سے ملاقات کے لئے تو وقت نکالتے ہیں، مگر اعظم خاں سے ملنے کے لئے وہ بستر علالت پر ہوتے ہیں، ان کے بیٹے اکھلیش یادو ڈیزل اور پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاج و مظاہرہ کر مرکزی حکومت کے خلاف اپنے چیلے چپاٹاٹوں کے ساتھ ناراضگی کا اظہار تو کر سکتے ہیں، مگر جیل میں بند اعظم خاں اور ان کی فیملی کے حق میں آواز بلند کرنے کےلئے سڑک پر نہیں آ سکتے؟ یہ سیاسی عداوت و منافقت کی بدترین شکل ہے، جسے آج کے مسلم رہنما اور سیاسی لیڈران اختیار کئے ہوئے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں اتنا یاد رکھنا ہوگا کہ وقت نہ کسی کا رفیق ہوتا ہے اور نہ رقیب، یہ جب آتا ہے تو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتا ہے، مانا کہ آج جس مصیبت و پریشانی اور درد و الم کے دور سے اس گوہر نایاب اور محسن ملک و ملت کو سامنا ہے کل جب حالات پلٹا ماریں تو یہی گھڑی آپ کے اوپر بھی آئے اور اس وقت دور دور تک کوئی آپ کی آواز سننے والا بھی نہ ہو، اس لئے ہمیشہ اس بات کی عادت ڈالئے کہ آپ "حق اور سچ” کا ساتھ دینے والے ہوں تاکہ جب آپ کو ضرورت در پیش ہو تو آپ کی بھی مدد و نصرت کےلئے پورا جم غفیر ہو۔

Comments are closed.