Baseerat Online News Portal

ملک کی سالمیت خارجی سیاست کی نذر

 

مفتی شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

امام و خطیب مسجد انوار شیواجی نگر گوونڈی ممبئی

 

کسی بھی ملک کی سالمیت اور بقا کا انحصار ،مساوات وبرابری اور انصاف ورواداری پر مشتمل صحت مند داخلی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ دفاعی نظام کے استحکام ، سرحدوں پر حفاظتی انتظامات کی مضبوطی، اور سفارتی تعلقات روابط کے قیام پر مبنی خارجہ پالیسی بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، ملک عزیز بھارت میں اول روز سے دونوں پالیسیاں نہایت معتدل اور

مضبوط رہی ہیں خصوصاً اس کا سرحدی نظا م ہمیشہ سے مستحکم رہا ہے’، سرحدی حفاظت کے لئے ملک کا بڑا سرمایہ مخصوص ہے جو اس پر متعین محافظوں پر صرف ہورہا ہے، اور لاکھوں افراد پر مبنی محافظوں کے یہ سینکڑوں دستے ہمہ وقت ملک کے تحفظ کے لئے تیار کھڑے رہتے ہیں، سرحد کے ان علاقوں میں جہاں سورج شعلے برساتا ہے’، اور ان سرد خطوں میں جہاں درجہ حرارت مائینس ہوجاتا ہے، اور یخ بستہ سردیوں میں پینے کا پانی بھی برف ہوجاتا ہے، یہ پوری تندہی سے ان علاقوں کا کنٹرول سنبھالے رہتے ہیں’، بلاشبہ خارجی دشمنوں سے بے پرواہ ملک میں جو تمام سرگرمیاں جاری رہتی ہیں، معاشی نظام ترقی کی راہوں پر بے خوف وخطرسرپٹ دوڑتا ہے’، امن وسکون کی جو فضا فراہم ہوتی ہے’اس میں فوج کے ان جوانوں کی جد وجہد اور ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا خاص دخل ہے’جو اپنی جانوں پر کھیل کر ملک کے ایک اک چپے کی حفاظت کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قوم کے دل ان کی عظمت سے معمور رہتے ہیں’، اس کے جذبات کے سمندر میں فوج کے ان جوانوں کی الفتیں موجوں کی صورت میں ہمیشہ بے تاب رہتی ہیں، ان کی بقاء کے لئے اور ان کےتحفظ کے لئے قوم کے ہاتھ عبادات میں اکثر اٹھے رہتے ہیں۔۔

 

ادھر ایک عرصہ سے ملک کی داخلی صورتحال جس طرح بگڑی ہے’، سماجی نظام کا تانا بانا جس طرح بکھرا ہے’، حکومتی سطح پر فرقہ پرستی کی ہوائیں جس قوت سے چل رہی ہیں، نسل پرستانہ نظریات نے جس انداز سے ملک کا تیاپانچہ کیا ہے’، اقتدار کے متعصبانہ رویے سے جس طرح امن وامان کی فضائیں مکدر ہوئی ہیں ، ملک کے ہر انصاف پسند فرد کے سامنے عیاں ہے’، بے بصیرت لاک ڈاؤن میں مذہبی منافرت کا طوفان تو نیشنل میڈیا کے ذریعے شباب نہیں بلکہ انتہا کو پہنچ گیا، میڈیا ہر محاذ پر ناکام پالیسیوں کو کامیابی کی صورت میں پیش کرتا رہا اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرقہ پرستی کے خاکوں میں رنگ بھرتا رہا۔

 

تاہم سرحد کے حوالے سے ملک کی عوام ایک حد تک مطمئن تھی کہ یہ نظام اقتدار کی کمزور پالیسیوں اور دہرے معیار سے اب تک محفوظ تھا، یا اس تعلق سے ملک کے فرائض کا موقع اور حقیقی چانس ہی پیدا نہیں ہوا تھا، اور جو ماضی قریب میں کچھ واردات ظاہر ہوئیں وہ خاص مقاصد اور سیاست کا حصہ تھیں ۔

 

حال ہی میں جب چائنا کا تنازعہ سامنے آیا، چینی فوجیوں نے ملک کے خاصے حصے میں دراندازی کی اور اس پر قبضہ کیا تو مرکز کی انتظامی صلاحیتوں کے علاوہ اس کے جذبات اس کی دلچسپی اس کی اس معاملے میں سنجیدگی اور ملک کی مٹی سے اس کے رشتوں کی پوزیشن بھی عیاں ہو گئی، جس کی آڑ میں ایک زمانے سے سیاست کا کھیل جاری ہے

 

لداخ کے سرحدی علاقے گلوان ،ہاٹ اسپرنگس،اور پنگونگ کے خطوں پر چین کا ایک عرصہ سے ملکیت کا بے بنیاد دعوی سیاسی فضا میں گونجتا رہتا تھا،لیکن مئی کے اوائل یعنی 5/6تاریخ کو اس کی فوجیں زبردستی ان علاقوں میں داخل ہوگئیں،

اس پر ہمارے محافظین نے مزاحمت کی،جھڑپ ہوئی، اور پندرہ سولہ جون کو اچانک چینی فوجیوں نے ہندوستانی فوج کے

متعینہ دستے پر حملے کرکے بیس جوانوں کو شہید کرڈالا ،اس پر تشدد جھڑپ میں بہت سے ہمارے فوجی شدید زخمی بھی ہوئے،

اس حملے کے ذریعے چینیوں نے وادی گلوان کے کلیدی پوائنٹس پر قبضہ کر لیا،

 

یہ طے بات ہے کہ شروع میں اگر ملک کی طرف سے اس جارحیت اور قانون شکنی پر آواز اٹھتی، آرمی کی اطلاعات پر سنجیدگی سے غور کرکے دفاعی پوزیشن مضبوط کی جاتی، ملک کی وہ میڈیا جو منافرت اور فرقہ پرستی کے موضوعات پر ایک کمیونٹی مجرم ثابت کرنے کے لئے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتی ہے، اس اہم موضوع پر بات کرتی، چین کی جارحیت کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتی، اور انٹرنیشنل سرحدی قوانین و بھارت چین کے درمیان معاہدات کی روشنی میں اس کے غاصبانہ کردار کو اُجاگر کرتی تو عین ممکن تھا کہ ملک کے بیس جوانوں کی قیمتی زندگیاں ہلاک نہ ہوتیں، مرکز کی اس خاموشی پر جب ہر طرف سے آوازیں اٹھیں،تو آل پارٹیز کانفرنس وجود میں آئی،لوگوں کو یہ امیدیں ماضی کے سرجیکل اور مختلف نمائیندوں کی روشنی میں اور اس کے تناظر میں ہو چلی تھیں کہ

چین کے اس وحشیانہ کردار پر اقتدار کی طرف سےسخت فیصلہ لیا جائے گا، مضبوط حکمت عملی اختیار کی جائے گی، سفارتی سطح پر بھی اور آلات ووسائل کے اعتبار سے دفاعی وانتقامی حیثیت سے بھی مستحکم قدم اٹھائے جانے پر غور ہوگا۔

 

لیکن کانفرنس میں جب خاموشی ٹوٹی،تواس طرح کہ پورے حادثے کا ہی انکار کردیا گیا، بیس فوجیوں کی شہادت کو یہ کہ کر نظر انداز کر دیا گیا کہ ،،دونوں طرف سے دونوں خطوں میں کسی کی دراندازی ہے’نہ ہی کسی کا قبضہ، حالانکہ چینیوں کی جارحیت ان کے حملے، ان کے قتل کی وارداتیں ،زخمی فوجیوں کے بیانات سے بھی ظاہر تھی، سیٹیلائٹ کے ذریعے بھی عام تھی،

وہاں کی میڈیا اور عوام کے ذریعے بھی بالکل عیاں تھی، خود آرمی کی مسلسل اطلاعات تھیں، یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اتنے ذرائع کے باوجود کوئی نگہبان اس طرح ملک کے حالات سے بے خبر رہ سکتا ہے، لہٰذا دوسرا پہلو متعین ہو جاتا ہے کہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مسلمات اور حقائق کا ہی انکار کردیا جائے، اس بیان پر اگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے تنقیدیں ظاہر ہوں تو کیا تعجب ہے، چنانچہ حزب مخالف میں سے راہل گاندھی نے کہا کہ اس بیان کے ذریعے چینیوں کو کلین چٹ دے دی گئی ہے، چینی فوجیوں کی جارحیت کے آگے گلوان کے علاقے سے حکومت نے درحقیقت اس بیان کے مطابق دستبرداری کا اعلان کیا ہے,اگر زمین چائنا کی ہے’تو ہمارے فوجیوں کو کیوں ہلاک کیا گیا،

 

سابق وزیر کانگریس کپل سبل کے بقول ،،پی ایم چائنا کی زبان مذکورہ بیان میں بول رہے ہیں، اگر چینیوں نے دراندازی نہیں کی ہے’ تو اس کا مطلب ہمارے فوجیوں نے ان کے علاقے میں دراندازی کرکے حملے کا ماحول پیدا کیا ہے’،ظاہر اس کے بغیر یہ بیسیوں فوجیوں کے ہلاکت کیونکر ممکن ہے’، اقتصادیات کے ماہر سابق وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے حکومت کے اس افسوسناک روئے اور غیر ذمہ دارانہ بیان پر نہایت شائستہ اور معتدل تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ایک اسپیچ میں پوری سنجیدگی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ احتیاط اور حقیقت کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا بلکہ ذمہ داری کے حدودکی بھی خیر خواہانہ اور عادلانہ و محققانہ طور پر

نشاندھی کی، اس بے بصیرت بیان پر اس طرح کے سوالات کا پیدا ہونا لازمی تھا سو ہوا، بالآخر پی ایم کے دفتر سے اس بیان کی وضاحت کی ضرورت پیش آئی ۔

 

من موہن سنگھ کا یہ مشورہ یا تبصرہ ایک ملک کے پی ایم کے روئیے ،فوجیوں کی شہادت پر ان کی سرد مہری، اور چینی حملوں کے تناظر میں حقیقت پسندانہ ہے’،انصاف کا تقاضا تھا کہ اس پر غور کیا جاتا، ٹھوس حکمت عملی تیار کی جاتی، ملک کی سالمیت کے لئے تحفظ کے لئے مضبوط قدم اٹھائے جاتے،مگر اس کے بجائے اقتدار میں موجود پوری جماعت کی طرف سے اس سلسلے میں اٹھے سوالوں پر دیش دروہی کے مترادف قرار دے دیا گیا، بارڈر کی حقیقت اور حکومت کے آئندہ اقدامات کے سلسلے میں حقیقت کو تلاش کرنے والوں پر لعن طعن کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا، اسی ہٹ دھرمی کی کڑی یہ بھی ہے’کہ من موہن سنگھ کے تبصرے پر حال ہی میں حکمراں پارٹی کے ایک وزیر جگت پرکاش نے جوابی حملہ کرکے ان کے بیان کو لفظوں کا کھیل قرار دیا اور بھونڈا الزام لگا کر ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ناروا کوشش کی، انہیں سابق فوجی تیز بہادر کی اسپیچ سننا چاہئے جنہوں نے آج تک ٹی وی چینل پر اپنے ساتھیوں کی اطلاع کی روشنی میں دیا ہے، ان کے بیان کے مطابق، چینی جارحیت ، اس کی دراندازی،

اور لائن آف کنٹرول کے قانون کی خلاف ورزی بہت پہلے سے جاری تھی، مگر مرکز نے کوئی دھیان نہیں دیا حالانکہ آرمی بارڈر پر تمام موومنٹ کی پل پل کی خبر دلی کو دیتی رہتی ہے،

 

وہاں ایک کرنل کو ماردیا گیا جو ایک بٹالین کے برابر ہوتا ہے’اس کے علاوہ 27/لوگوں کو ہلاک کیا گیا سترہ فوجیوں کو گرفتارکر لیا گیا،لیکن اس کے باوجود جوابی حملہ کرنے کے لئے نہ کوئی اسلحہ دیا گیا، نہ حفاظت کا کوئی سامان دیا گیا،اور نہ اس کی اجازت دی گئی ، اس کے باوجود بجائے اس کے اس حادثے پر حکومت افسوس کا اظہار کرتی،شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتی،اس نے تمام واقعات پر جھوٹ کا پردہ ڈال کر یہ کہا کہ ہمارے جوانوں نے 43 چینی فوجیوں کو مارا ہے’ کس قدر مضحکہ خیز ہے’، یہ ایسی ہی افواہ ہے جیسے پلوامہ میں چھ سو لوگوں کو مارنے کا دعویٰ تاکہ اس کے ذریعے سیاسی فتوحات حاصل کی جائیں،

تیز بہادر کے مطابق شہادت کے بعد وہی پی ایم جو چھوٹے چھوٹے مافیا کی موت پر بھی ٹوئٹ کرکے اظہار افسوس کرتے ہیں

یہاں ملک کے جوانوں کے لئے ایک بھی ٹوئٹ نہیں کیا،وزیر خارخہ نے اگرچہ کیا مگر ان میں کہیں چائنا کا نام نہیں لیا، قابل ذکر بات یہ بھی ہے’کہ حکمراں جماعت کے تمام افراد نے مرکز کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اس حادثے کا ذمے دار فوج کو ٹھہرایا ہے’اور اسی کی غلطی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے،حالانکہ بارڈر کی حقیقت یہ ہے’کہ ایک فائر بھی کرنا ہوتا ہے’تو حکمراں ہیڈ کوارٹر سے اجازت لینی پڑتی ہے’، یہ عمل موجودہ حکومت میں شروع ہوا ہے’ اس سے پہلے یہاں کی آرمی بااختیار ہوتی تھی

سرحد کے معاملے اور اس کی نزاکت کے پیش نظر وہ فیصلہ لینے میں خود مختار تھی مگر اس وقت وہ ایک قدم کے لئے بھی مجبور محض ہے’ایسی صورت میں ذمہ داریاں اس پر تھوپ کر اپنے فرائض سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش نہایت پست عمل ہے’۔

 

قیامت یہ ہے’کہ وہی اینکر اور میڈیا جو گلا پھاڑ پھاڑ کر دوسرے ملکوں کے معاملے میں سرحدوں کے حوالے سے دیش بھکتی کا نعرہ لگارہی تھی یہاں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک ہونے والے تصادم کی حقیقت جاننے کی کوشش کی، نہ یہاں اس سانحے پر کوئی سوال وجواب کی نشست رکھی، نہ ہی پہلے کی طرح ترجمان حکمراں سے اس خاموشی اور متضاد بیانات کی وضاحت چاہی، حکومت سے ٹھوس حکمت عملی کے متعلق اینکروں نے کوئی سوال پوچھا نہ ہی پلوامہ اور دوسرے علاقوں میں شہیدوں

کی طرح یہاں کے شہیدوں کو خراج تحسین اور سلامی پیش کی

بلکہ پوری بے شرمی سے حکومت کے طرزِ عمل کی پشت پناہی اور حمایت میں یہ کہ کر انہیں قصوروار ٹھہرایا کہ پٹرولنگ کرنا فوج کا کام ہے’اس لیے حکومت کی اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔۔

چائنا اب بھی مذکور ہ علاقے پر قابض ہے’، اس کے وزیر خارجہ نے ہند کو ایلٹی میٹم دیا ہے وہ تمام اشتعال انگیز کارروائیاں بند کرے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندوستان کو چین کی فوجی طاقت کے بارے میں کسی خام خیالی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے،کیونکہ چین پوری طاقت سے اپنی علاقائی سالمیت کی حفاظت کرے گا اور جارحانہ انداز میں یہ بھی کہا کہ گلوان کا علاقہ ہمیشہ چین کا حصہ رہا ہے’اور ہنوز وہ اس کے اقتدار کا حصہ ہے، اس کے باوجود بھارت کا اس کے ساتھ رؤیہ مدافعانہ اور مصالحانہ کیوں ہے’،اس پر تو ہر بھارتی کے دل میں سوال کا پیدا ہونا لازمی ہے،ملک سے محبت کا تو یہاں بھی تقاضا ہے کہ چین کی جارحیت کا منھ توڑ جواب دیا جائے۔

8767438283

Comments are closed.