Baseerat Online News Portal

…منتظرہے نگاہ!

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
اس ملک میں انکاؤنٹرکی تاریخ نئی نہیں، کافی پرانی ہے، اتنی کہ لوگ پرانے انکاؤنٹرکوبھول ھی چکے ہیں، پھریہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ ملک کی آزادی کے بعدسے اب تک دوہی پارٹیوں کے ہاتھوں میں اس ملک کی باگ ڈوررہی ہے، ایک گانگریس اوردوسری بھارتیہ جنتاپارٹی، گانگریس کی حکومت سالہاسال رہی، اس کے دوراقتدارمیں بھی انکاؤنٹرہوتے رہے، اوربھارتیہ جنتاپارٹی کے دورمیں بھی ہوتے رہے اورہورہے ہیں، اورپرلطف یہ ہے کہ دونوں کے اقتدارمیں ہوئے کئی انکاؤنٹرس پرسوال بھی ہوتے رہے ہیں، جن کاجواب آج تک نداردہے اورشایدقیامت کی صبح تک نداردہی رہے۔
۲۰۰۰کے بعدسے کچھ انکاؤنٹرتوایسے ہوئے ہیں، جنھیں آج بھی یادکیاجاتاہے، ان میں سے ایک بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹرہے، جو۱۹؍ستمبر۲۰۰۸ کوپیش آیاتھا، جس میں عاطف اورساجدنامی دوافرادمارے گئے تھے، یہ انکاؤنٹر۱۳؍ستمبر۲۰۰۸ کے دہلی سلسلہ وار بم دھماکہ کے بعدہواتھا، ۲۰۰۴ میں عشرت جہاں انکاؤنٹرہواتھا، ۲۶؍نومبر۲۰۰۵ میں سہراب الدین شیخ کاانکاؤنٹرہواتھا، ۳۱؍اکتوبر۲۰۱۶کوبھوپال انکاؤنٹرکاواقعہ پیش آیا، جس میں سیمی سے تعلق رکھنے والے ۹؍ لوگوں کومارگرایاگیا، دسمبر۲۰۱۹ میں ڈاکٹردیشاریڈی کے ساتھ عصمت دری کرکے اسے جلاکرماردیاگیا، اس کیس میں چار ملزمین کوگرفتارکیاگیااورچاروں کاانکاؤنٹرکردیاگیا، ۲۰۰۲سے لے کر۲۰۰۶تک صرف گجرات میں سترہ انکاؤنٹرہوئے، جن میں سے کچھ کو توباقاعدہ فرضی بھی قراردیاگیاہے، ان انکاؤنٹرس کی تاریخ بتانامقصودنہیں ہے؛ بل کہ بتانے کامقصد یہ ہے کہ یہ سب وہ انکاؤنٹرس ہیں، جو مشکوک رہے ہیں اورجن پرسوالات بھی اٹھائے گئے ہیں؛ لیکن ان سوالوں کاجواب دینے والاکوئی بھی موجودنہیں۔
انکاؤنٹرکی اجازت ایک ضرورت کے لئے دی گئی ہے؛ لیکن اب اس ضرورت کے معنی اورمفہوم کوبدل دیاگیاہے، اب بھاگتے مجرم اورمقابلہ پرڈٹے مجرم کے بجائے بے قصوراورنہتوں کاانکاؤنٹرکیاجاتاہے اورزمانہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس مفہوم میں مزیداضافہ ہوگیاہے اوراب انکاؤنٹرکامقصدبڑے مجرم کوچھپانے کے لئے کیاجاتاہے، بس اس کواس طرح سمجھاجاسکتاہے کہ جیسے ہم بنسی لے کرندی تالاب میں جاتے ہیں اورکانٹے میں چھوٹی مچھلی کوپھنساکرپانی میں ڈال دیتے ہیں؛ تا کہ بڑی مچھلی کاہم شکارکرسکیں، اب انکاؤنٹروں میں یہی ہوتاہے، ٹٹ پونجئے قسم کے لوگوں کوچارہ بنادیاجاتاہے اوران کاانکاؤنٹرکرکے بڑے مرغوں کوبچالیاجاتاہے، کچھ لوگ طبعی خبث کی بناپربھی بعض ملزمین کاانکاؤنٹرکردیتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ خودکوبچانے کے لئے دوسروں کوبلی کابکرابنادیتے ہیں، مذکورہ انکاؤنٹرس کی تاریخ میں یہ تمام چیزیں نظر آجائیں گی۔
کانپورمیں۸؍ پولیس والوں کوبھون دیاگیا، جس کامجرم ہسٹری شیٹروکاس دوبے کو قرار دیاگیا، ابتداء یہ فراربتلایاگیا، پھرمدھیہ پردیش کے اجین میں مہاکال مندرسے گرفتارکیاگیا، پھرواپس لانے کے دوران اس کاانکاؤنٹرکردیاگیا، اگراس واقعہ پرباریکی کے ساتھ نظرڈالیں تویہ کسی ہندی فلم کا سین یاکسی اسٹیج کاعمدہ ڈرامہ نظرآتاہے، آٹھ آٹھ پولیس والوں کی موت، پھربھی مجرم فرارہونے میں کامیاب، وہ بھی سیدھے مدھیہ پردیش، پھروہاں سے گرفتاری؛ لیکن یہ گرفتاری بھی کس انداز میں ہوئی، سی سی کیمروں کی آنکھوں اورپریس والوں کے کیمروں نے بالکل صاف کردیاہے کہ جودکھایاجارہاہے، وہ ہے نہیں اورجوہے ، اسے دکھلایانہیں جارہاہے۔
پھرگرفتاری کے بعدجب اسے کانپورلایاجارہاتھا، اس وقت اس کے ساتھ چار گاڑیوں کاقافلہ تھا، پیچھے کچھ پریس والے بھی تھے، جن میں آج تک کی بھی گاڑی تھی، شاہ جہاں پورسے تیس کیلومیٹرآگے ایک ٹول پلازہ سے جب گاڑیوں کایہ قافلہ آگے نکلتاہے توکچھ دورجانے کے بعداچانک پریس کی گاڑی کے سامنے ایک ایس ڈی ایف والوں کی گاڑی اوورٹیک کرتے ہوئے آجاتی ہے اور آگے چل کرسڑک کے کنارے گاڑی رک جاتی ہے، کچھ جوان اترتے ہیں اورپریس کی گاڑی کی جابھی کھینچ لیتے ہیں اور آگے چل پڑتے ہیں اور۶۱؍کیلومیٹرآگے راج گڑھ کے ٹول پلازہ پرآج تک کی دوسری ٹیم کے سپردپچھلی گاڑی کی جابھی کردیتے ہیں، درمیان میں دوبے کولانے والی وہ گاڑیاں بھی بدل جاتی ہیں جو مدھیہ پردیش سے نکلی تھیں، شروع میں چاروں گاڑیاں سفید تھیں، جب کہ اس میں تبدیلی آگئی اورکالی رنگ کی بھی ایک گاڑی کااضافہ ہوااورگاڑیاں چار کے بجائے تین رہ گئیں، صبح ساڑھے چھ بجے کے قریب کانپورٹول پلازہ سے گاڑیاں نکلتی ہیں؛ لیکن وہاں آگے چیکنگ کے نام پردوسری گاڑیوں روک لیاجاتاہے اورپولیس کی گاڑیاں آگے بڑھ جاتی ہیں، پھرجب تقریباً پندرہ منٹ کے بعدپریس کی گاڑی وہاں پہنچتی ہے، جہاں دوبے کاانکاؤنٹرہوچکاتھا اورایک گاڑی پلٹی پڑی تھی، صرف پندرہ منٹ کا فاصلہ اورہوگیادوبے کاانکاؤنٹر، پھریہ انکاؤنٹراس الزام کے ساتھ ہے کہ گاڑی کے ایکسی ڈینٹ ہوتے ہی دوبے ایک پولیس والے کاہتھیارلے کربھاگنے لگا، جس کے نتیجہ میں انکاؤنٹرکردیاگیا۔
دوبے کے اس کاؤنٹرسے پہلے بھی یہ سوال ہوتارہاہے کہ سزادینے اورنہ دینے کاکام عدالت کوہے، پولیس کاکام ملزم کوعدالت میں پیش کرنے کاہے، یوں بھی انکاؤنٹرکو قانونی طورپراس ملک میں فوجداری انصاف کے نظام کے تحت تسلیم نہیں کیاگیاہے اوراسے حکومت کے زیرانتظام دہشت گردی کے زمرے میں شماربھی سمجھاگیاہے؛لیکن یوگی حکومت میں انکاؤنٹرکوکچھ زیادہ ہی اہمیت رہی ہے اوراس سلسلہ میں گزشتہ سالوں میں یوپی میں ہوئے انکاؤنٹرس پرپورے ملک میں چرچاہواہے، اس تعلق سے یوگی جی نے ایک پریس کانفرس کوبھی مخاطب کیاتھا اوراس میں انکاؤنٹرکودرست قراردینے کے لئے ڈھٹائی کے ساتھ انھوں نے صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں کہاتھا کہ : مجرم کی آرتی تونہیں اتاری جائے گی، یہ بات بالکل درست ہے اورجس طرح یہ بات درست ہے، اسی طرح یہ بات بھی سچ ہے کہ مجرم کاانکاؤنٹربھی نہیں کیاجائے گا؛ کیوں کہ اگراس کی اجازت وسیع پیمانہ پر دے دی جائے توپھرنظام کے درہم برہم ہونے کے کافی امکانات ہیں۔
انسان ہونے کی حیثیت سے اس کے اندرانتقام کاجذبہ بھی کارفرماہوتاہے اوراس جذبہ کے اندرابال اس وقت پیداہوجاتاہے، جب وہ کسی عہدہ اورکرسی پر ہو،پھراس ملک میں توکئی جذبے ایسے ہیں، جوانتقام کے اس جذبے میں ابال پیداکرنے کے لئے کافی ہیں، جس کااندازہ ملک کے تمام اہل بصیرت کوہے، تواگرانکاؤنٹرکوقانونی درجہ دے دیاجائے توپھرانتقامی جذبہ کے تحت کوئی دن ایسانہیں ہوگا، جس میں کسی نہ کسی کے انکاؤنٹرکی خبرنہ ملے، اس لئے مجرم خواہ کتناہی بڑاکیوں نہ ہو، انکاؤنٹرکی اجازت نہیں ہونی چاہئے، اس کے لئے کورٹ ، کچہری اورسپریم کورٹ ہے، وہ فیصلہ کریں گے کہ مجرم کوکون سی سزادی جائے اورکون سی نہیں،اگرپولیس والے ہرمجرم کااسی طرح انکاؤنٹرکرتے رہے توپھرعدالتیں کس کام کی؟
دوبے بڑامجرم تھا، اس نے بڑاجرم بھی کیا، ۹؍ پولیس والوں ماردیا، یقینایہ جرم عظیم ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ دوبے جیسے لوگ معاشرے میں پیداکیوں ہوتے ہیں؟ کیسے یہ ہسٹری شیٹربن جاتے ہیں؟ ظاہرہے کہ ان کے اندریہ صفت پیدائشی تونہیں ہوتی، توپھران کوہسٹری شیٹربنانے میں کن کاہاتھ ہوتاہے؟اس پرسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے،اگراس سوال کاجواب ڈھونڈھ لیاجائے توپھرمعاشرہ ان جیسے افرادسے پاک ہوسکتاہے؛ لیکن اس ملک کابڑامسئلہ یہ ہے کہ سوال کاجواب تلاش کون کرے؟ اوپرسے لے کرنیچے تک اکثرکے ہاتھ رنگین ہیں، اوریہی رنگین ہاتھ ہی ان جیسے افرادکوپالتے ہیں، ان کوغذافراہم کرتے ہیں اوران سے جرم کرواتے ہیں، پھرجب خدشہ ہوتاہے خودکے بھانڈاپھوٹنے کا توشارپ شوٹرسے ختم کروادیتے ہیں، کبھی دشمنوں کے ڈیرے میں چھوڑآتے ہیں اورکبھی انکاؤنٹرکروادیتے ہیں، یہ وہ سچ ہے، جس کامشاہدہ ملک کاہرباشندہ کررہاہے؛ لیکن حقیقت زبان تک نہیں آرہی ہے کہ کہیں ان کاحشربھی ………۔
ڈاکٹرریڈی کے قاتلوں کے ساتھ بھی یہی ہوا، دوبے کے ساتھ ایساہی کھیل کھیلاگیااوراس سے پہلے نہ جانے کتنے انکاؤنٹرس ایسے پیش آئے، پولیس کولوگ محافظ کی حیثیت سے دیکھتے رہے ہیں؛ لیکن اب ان محافظین پرسے اعتباراٹھتاجارہاہے؛ کیوں کہ یہ لوگ بھی اسی طرح اپنی ذمہ داری کوبھول چکے ہیں، جس طرح یہاں کی میڈیابھول گئی ہے، میڈیاکاکام سچ کو لوگوں کے سامنے لاناہے؛ لیکن وہ جھوٹ کوسچ اورسچ کوجھوٹ بنانے میں لگی ہوئی ہے، اسی طرح اس کاکام لوگوں تک خبریں پہنچانا ہے؛ لیکن وہ لوگوں کے سامنے فیصلہ سنانے والی عدالت بن جاتی ہے، جس سے لوگوں کا ذہن بھی متاثرہوجاتاہے، بالکل اسی طرح ہماری محافظ پولیس کابھی حال ہوچکاہے، کہیں اس کاروپ جلاد کی شکل میں نظرآتاہے توکہیں رشوت خورافسرکے روپ میں، کہیں وہ اپنے آپ کوعدالت کے جج کے پوشاک میں پیش کرتی ہے توکہیں کسی اورہی لباس میں، پولیس کاکام مجرم کوتلاش کرکے گرفتارکرناہے توبے قصورکومجرم بنا کر عدالت کے روبروحاضرکردیتی ہے اوراب توبس اللہ ہی کی پناہ ہے! وہ بڑوں کے جرم کوچھپانے کے لئے جھوٹے مجرمین کومارگراتے ہیں، ظاہرہے کہ عوام کااعتبارایسی صورت میں اگران سے نہیں اٹھے گاتوپھرکیاہوگا؟
دوبے کے انکاؤنٹرسے بہت سارے سوالات پیداہوئے ہیں اورجس ڈرامائی انداز میں اس کاانکاؤنٹرہواہے، اس سے سوالات کاپیداہونایقینی بات بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس انکاؤنٹرکے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائرکیاگیاہے کہ آج بھی لوگ بندآنکھوں والی انصاف کی دیوی پراسی طرح اعتمادکرتے ہیں، جس طرح پہلے کیاکرتے تھے، یہ اوربات ہے کہ بسااوقات اس انصاف کی دیوی کے دربارسے ایسے فیصلے آجاتے ہیں، جن کی وجہ سے اس پرسے اعتماد متزلزل ہوجاتاہے؛ لیکن پھربھی بہرحال اس پراعتماد توہے، اب دیکھنایہ ہے کہ اس دربارسے فیصلہ کیاآتاہے؟بندآنکھوں والی انصاف کی دیوی انکاؤنٹرکے مقصدسے پردہ ہٹاپاتی ہے یاپردہ کے پیچھے کے رازکورازسربستہ بنا کراس مقدمہ کوسردخانے میں ڈالے جانے کاحکم دیتی ہے؟ یہ تووقت ہی بتائے گا؛ کیوں کہ انصاف کی دیوی کے سامنے ثبوت اورگواہوں کی چلتی ہے اورثبوت وگواہ سفید؛ لیکن رنگین لوگوں کے اشارے پر!بس …منتظر ہے نگاہ!

Comments are closed.