Baseerat Online News Portal

منوّرکردارکاحامل منوّرستارہ غروب ہوگیا

سمیع اللہ ملک
ابھی کل ہی کی توبات ہے کہ محترم طارق جمیل کے ہمراہ برادرم محترم سیدمنورحسن سے کس قدرگرمجوشی سے ملاقات ہوئی تھی۔20مارچ کومنوربھائی کے ساتھ نمازجمعہ اداکی اوربعد ازاں اکیڈمی میں ساتھ لے گئے۔دوپہرکے کھانے میں وہی پرانی محبت کااظہار۔پرانی یادوں کے روشن دریچیوں اورجھروکوں سے چھن چھناتی پاکیزہ گفتگوپھرکئی گھنٹوں پرمحیط مستقبل کے پلان پرتعمیراتی ومشاورتی بصیرت افروزبھرپورگفتگو۔۔۔یقین نہیں آرہاتھاکہ میں ان کی عیادت کیلئے حاضرہوا ہوں یااللہ کی اس دھرتی پراپنے فرائض کی بجاآوری کیلئے کوئی نیااورٹھوس پروگرام مرتب کرنے کیلئے حاضرہواہوں۔
پچھلے کئی دنوں سے ان کی شدیدعلالت کی بنا پرہسپتال کے خصوصی نگہداشت میں داخل ہونے پرایک عجیب سی کیفیت سے گزررہاتھاکہ کل شام سیدمنورحسن صاحب کی صحت دریافت کرنے کیلئے فون کیاتوپتہ چلاکہ دم واپسی ہے۔ پریشانی میں ساری رات سونہ سکاتوآج صبح اطلاع ملی کہ وہ رحمتِ حق سے جاملے ہیں(ِانا لِلہِ وِانا اِلیہِ راجِعون)توخانہ دل میں محبتوں کی کئی دیواروں کے گرنے کاشورایسااٹھا کہ پچھلی پانچ دہائیوں کی محبت وشفقت کی بارش نے مجھے شرابور کردیا۔خالص حق و توحیدکا گلدستہ دامن میں لئے اپنے خالق کے ہاں پہنچ گئے۔پیچھے پلٹ کردیکھتاہوں توکتنے ہی روشن ستارے ہیں جواپنی منزل میں ڈوب کرفناہوگئے کہ یہی میرے رب کاقانون ہے۔اپنااپناکام کیا،مالک نے آوازدی اوروصل کی آرزومیں خاموشی سے سرہانے کھڑے موت کے فرشتے کے ساتھ مسکراتے ہوئے چل دیئے۔وہ جانتے ہیں کہ ہرروزکئی شہابِ ثاقب ٹوٹ کراپنی ہستی کھو دیتے ہیں لیکن میرے رب کاآسمان پھربھی ستاروں سے منورہے!وہ اس بات سے باخبرتھے کہ ہرسال کے بدلتے موسم اور بہاراورخزاں بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہرشئے کوفنا ہے،لافانی توصرف میراپروردگارہے!
لاریب ہرنفس کوموت کاذائقہ چکھناہے۔خالقِ ارض وسماکے اس متعین ضابطے سے کسی کواستثنی نہیں۔وہ ان میں سے ایک تھے جوکبھی کرہ ارض پربوجھ نہیں بنتے۔جن کے روزو شب کی ہرساعت اللہ کی رحمتوں اوربرکتوں کی امین ہوتی ہے۔جن کادلِ بے نیازہردوجہاں سے غنی ہوتاہے۔جن کی زندگی بندہ مومن کی طرح حرص وہوس سے پاک ہوتی ہے، جن کی بیاضِ حیات،داستانِ حرم کی طرح غریب وسادہ ورنگین ہوتی ہے۔جن کی تخلیق کسی اعلی مشن میں گندھی مٹی سے ہوتی ہے۔جن کے مقاصد جلیل اورجن کی امیدیں قلیل ہوتی ہیں۔جومنزلِ جاناں کی طرف قدم بڑھاتے ہیں توپھرزندگی کی آخری سانس تک کبھی پیچھے پلٹ کرنہیں دیکھتے،نہ نخلستانوں کی آسودگی ان کے عزمِ سفرکوموم کرتی ہے،نہ آبلہ پائی وادی پر خارمیں اترنے سے روکتی ہے۔وہ ہمارے ہاں کی بے ننگ ونام سیاست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کے ہنرسے بخوبی واقف تھے۔وہ اس عہدِستم گارمیں نہ صرف قرونِ اولیٰ کی ایک نایاب خوشبو کی مانندتھے بلکہ اس کہکشاں کاسب سے روشن ستارہ بھی تھے۔اپنے عہد کادرویش،اجلے ذہن،اجلی سوچ،سادہ مگراجلے لباس،اجلی گفتگو، اجلے دامن اوراجلے کردارکے حامل،شرافت اورنجابت کی ایک تصویر،صاف دل،صاف گو،فراست فکر،راست کلام،نہ کوئی اونچ نیچ،نہ کوئی سیاسی کرتب،نہ منافقانہ مصلحت کیشی، نہ فریب،نہ دہراپن،کھری بات کہنے والاکھراانسان.۔۔۔۔۔۔۔کامردِمطلوب،پاک دل و پاکباز!سات دہائیوں پرپھیلی اس منفرد زندگی کااحوال کاقلمی احاطہ ممکن ہی نہیں۔
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے توکیاتری بزمِ خیال سے بھی گئے
کئی عشروں تک وہ بے ریاآدمی مقتل میں کھڑارہااورکس شان سے کھڑارہا۔فقرکے ساتھ بادشاہی کی،زندانوں کی وحشت اور جبرکوشرمسارکردیا۔خوف کبھی اس کی کھال میں داخل نہ ہوسکا۔حق گوشہسوارمیدانِ جنگ سے رخصت ہواتو میدانوں نے شائداسے حسرت سے دیکھااوراپنی محرومی کاماتم کیاہوگا۔ہمیشہ کی ٹھہری ہوئی آوازمیں،ہمیشہ کی بے نیازی میں کہ اس کا منبع زمین نہیں آسمان تھا۔ہروقت ہاتھ پرنقدِجاں سجائے ہوئے،دونوں ہاتھوں سے ہیروں کی چمک سے ماحول کوبھردینے کی خداداصلاحیت،وفاداری ایسی کہ بشرطِ استواری اوراصل ایمان کی گراں قدرنشانی۔سپہ سالارمٹی اوڑھ کرسوگئے لیکن سپاہی نے ایمانی اسلحے کازیورتن سے جدانہیں کیا۔جماعت کی امارت کامنصب ملاتودجالی قوتوں کے روبروحق وصداقت کا ایسا علم بلندکیاکہ خوف وڈران کے سائے سے کانپنے لگے،اپنوں نے بھی ہاتھ”ہولا”رکھنے کامشورہ دیالیکن کیامجال کہ بال برابر بھی مصلحت سے کام لیاہو۔ دنیاکے ہرخوف سے دل خالی اورجان دینے کیلئے ہروقت تیار!
حاصلِ عمرِنثارے رہِ یارے کردم
شادمِ اززندگی خویش کہ کارے کردم
(حیات کی ساری پونجی میں نے راہِ یارکی نذرگزاری،اپنی زندگی سے میں شادہوں کہ کچھ کرگزرا)۔ہم خیال،ہم مزاج ایمانی دوستوں سے دائمی وفاکارشتہ اورایسی وفابلندمقاصد کیلئے مستقل ایثارسے جنم لیتی ہے۔یک جان دوقالب:
آکھونی مینوں دھیدورانجھا،ہیرنہ آکھوکوئی
رانجھارانجھاکوکدی،میں آپے رانجھاہوئی
(و!مجھے رانجھاکہو،ہیرنہ کہو،قلب ودماغ کی گہرائیوں سے اتنی باررانجھے کوپکاراہے کہ خودرانجھاہوگئی ہوں)۔ ہمارے اس بے ثبات اوربے وفاعہدمیں،حاسدوں کے نرغے میں گھراایک شاعرافتخارعارف کیاخوب یادآیا:
زندگی نذرگزاری توملی چادرِخاک
اس سے کم پرتویہ عزت نہیں ملنے والی
بے پناہ مرتب،بے حد ریاضت کیش،کمال یکسو،مکمل طورپربے ریا،صداقت شعار،وفاکیش۔اگردنیاداربنتاتوویساہی کامیاب ہوتا جیسے آج کے عزت دارمالدارسیاستدان،وہ محلات میں جیتااورنعمتوں کے ہجوم میں زندگی گزارتا،مگراس نے یہ سب کچھ تیاگ دیا،ایک ساعت میں تیاگ دیابلکہ اس کی طرف نظراٹھاکربھی نہیں دیکھااوریہی ایک لمحہ اس کی پوری زندگی پرپھیل گیا۔توحیدکی ایک بوندنے اس قدرسیراب کیاکہ زندگی بھرکسی چیزکی تمنانہ رہی۔اپنے رب کی حکمتوں سے معمورکتاب قرآنِ حکیم اور صاحبِ کتاب نبی آخر ﷺ کی سیرت کوساری زندگی اپنانصب العین بناکراللہ کے بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں واپس لانے کیلئے زندگی گزاردی کہ کس طرح ارضِ پاک پراللہ کانظام نافذہوجائے۔عرب وعجم اور یورپ وامریکامیں بھی اپنی اسی گرجداراورمدلل آوازکے ساتھ بلاکسی خوف یہ پیغام پہنچاتے رہے۔لاکھوں کامجمع حاضر، سامعین کی سانس گم،نگاہ گم، خیال گم،گویاان سب کی ہستی کہیں گم اورخودبھی اس حقانیت کے پیغام میں کہیں گم!ایک گرجدارآواز،منادی ہورہی ہے کہ آفلاح کاراستہ وہی ہے جومحمدعربی ﷺنے چودہ صدیاں پہلے فرمایاتھا،اب بھی ہماری مشکلات کا حل انہی فرمان میں ہے،محبت اورحق کے اس پیغام میں ایسی آگ ہوتی تھی جوکئی دلوں پرچھائی ہوئی ظلمتوں کوراکھ کردیتی تھی۔ پھر وہی افتخارعارف!
عمربھرٹھوکریںکھاتانہ پھروں شہربہ شہر ایک شہرمیں ایک ہی درپررکھا
وہ غنی،جس نے زندگی لٹادی اورکبھی فخرنہ کیا،فخرکیامعنی،تذکرہ ہی نہیں کیا،اپناتونام ہی نہیں…….سب قول ادھورے ہوتے ہیں،صرف اللہ کی کتاب سچی ہے اوراس میں یہ لکھا ہے:سبھی رائیگاں،سبھی برباد،صرف اہلِ خلوص کامراں۔خدا کی بارگاہ میں خلوص کے سواسبھی سکے مستردہیں۔ان کے طریقہ کارسے اختلاف ہوسکتاہے لیکن ان کی ذات قول وفعل کے تضاد ات کی آلائشوں سے بالکل پاک تھی۔
ساری عمرخدمت اسلام اور تبلیغ اسلام اوراللہ کی اس دھرتی پراللہ کے نظام کے نفاذکے کاموں میں مصروف رہے۔آپ نے اپنی تحریکی زندگی کاسفراسلامی جمیعت طلبہ پھرجماعت اسلامی سے کیا بعدازاں امیرجماعت کی حیثیت سے آپ نے نہ صرف ایشیائی ممالک میں بلکہ عرب ممالک میں بھی نفاذاسلام کی تحریک کی احیاکے ساتھ ساتھ مروجہ بے دین سیاسی نظام جومسلم ممالک میں بھی رائج ہے کی سختی کے ساتھ تردیدوتنقیدکرکے اسلام کے نظام سیاست کے احیاکی تبلیغ میں مصروف رہے۔صحت کی پرواہ کئے بغیرہرآن فعال اور متحرک،گویارگوں میں خون کی بجائے کوئی بجلی دوڑرہی ہے۔نظام اسلام کے نفاذ،حق وصداقت،حق گوئی وبیباکی کے اپنی عملی زندگی کے بے شمار عنوانات پرایک ضخیم ذخیرہ ورثے میں چھوڑگئے ہیں جوان کے کام اورنام کوزندہ رکھے گا۔
جماعتی اورمسلکی عصبیتوں سے بے نیازہوکرسچی اورکھری سیاست کی عملی تشریح کیلئےآپ نے دین کی بنیادی تعلیمیات کی بنیادپرلوگوں میں دینی بیداری پیداکرکے یہ پیغام دیاکہ انسان کی دنیاکی تمام معاشی ضروریات وآخرت کی نجات کاوسیلہ صرف نفاذاسلام میں ہے جس کی بنیادپرربِ کائنات نے رمضان المبارک کی سب سے مبارک شب کویہ معجزاتی ریاست کو وجودبخشا۔آپ نہ صرف عام مسلمانوں کیلے بلکہ علماوقت کی ایک اکژیت جوسیکولرسیاسی فکرسے وابستہ ہوگئے تھے ان کیلے بھی اللہ کی برہان بنے رہے!ہمیشہ اس فکراور دردکابرملااظہارفرماتے رہے کہ یارب !یہ کیسی قوم ہے جوخود اپنے ہاتھوں سے اپنی قسمت بگاڑنے پرتلی ہوئی ہے۔قوم نہیں،یہ ایک ہجوم ہے۔ابھی قوم اسے بنناہے۔ابھی اسے معلوم نہیں کہ مرعوبیت شناخت کوتباہ کردیتی ہے،قوموں کوابھرنے نہیں دیتی۔سیدمنورحسن صاحب کی دینی،فکری،سیاسی اورسماجی خدمت کوہمیشہ یادرکھاجائے گا،رہا مرنے والا ،تو وہ مرادپاگیا۔
ہر موت اپنے لواحقین کیلے یہ پیغام چھوڑ جاتی ہے کہ جلد یا بدیرآپ نے بھی مجھے وہاں آکر ملنا ہے۔جہا ں ہم سب بے بس اپنے مولا کی مغفرت کے منتظرہوں گے۔سید منور حسن صاحب دنیا سے داربقاء کی طرف تشریف لے گئے ہیں اس عارضی زندگی کی بہاروں اورگلوں کی خوشبوسے منہ موڑکردا یمی بہار،سداخوشبوں ومہک کے گلستانوں میں براجمان ہو گئے ہیں۔اپنے ہرتعلق رکھنے والوں کوچھوڑکراپنے مولاکے ساتھ مضبوط تعلق ورشتہ جوڑچکے ہیں۔پھرموت توکوئی نئی چیزنہیں،موت تو ہرایک کوآنی ہے۔موت کے قانون سے نہ توکوئی نبی مستثنی ہے نہ کوئی ولی۔جوبھی آیاہے اپناوقت پوراکرکے اس دنیاسے رخصت ہوجاتاہے۔موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ہم سب اس کی امانت ہیں،پھرکس کی مجال جواس میں خیانت کر سکے۔
اے اطمینان پانے والی روح ،اپنے پروردگارکی طرف لوٹ چل۔تواس سے راضی وہ تجھ سے راضی ،تو میرے(ممتاز) بندوں میں شامل ہوجااورمیری بہشت میں داخل ہوجا!

Comments are closed.