Baseerat Online News Portal

موت  سےزیادہ  ووٹ قیمتی دیکھ کبیرہ رویا

 

ڈاکٹر سلیم خان

اتر پردیش کی حالتِ زار دیکھ کر بے ساختہ  کبیر داس کا دوہا اور اس پر لکھی سعادت حسن منٹو کی کہانی یاد آتی ہے۔ 2018 ء میں  سنت کبیر کی وفات کے پانچ سوسالہ تقریب میں شرکت کرکے وزیر اعظم نے فرمایا تھا :’’ نمسکار! صاحب بندگی! آج ہم اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھ رہے ہیں کہ عظیم صوفی،  سنت کبیر داس جی کی یاد میں ہورہی تقریب میں اس مقدس سرزمین کو چھو رہے ہیں‘‘۔ اس کے بعد اپنے علم و فضل کا مظاہرہ کرتے ہوئے  کہا تھا کہ ’’ ایسا کہتے ہیں کہ سنت کبیر، گرو نانک دیو اور بابا گورکھ ناتھ جی نے ایک ساتھ بیٹھ کر روحانی باتیں کی تھیں‘‘۔  ویکی پیڈیا  کے مطابق سنت کبیر کا انتقال   1440ء  میں ہوا  اور گرونانک کی پیدائش 1469ء میں ہوئی ۔  ایسے میں ان کا آپس میں بات چیت کرنا عجیب تو ہے لیکن گیارہویں صدی کے بابا گورکھ ناتھ کو اس گفتگو میں شامل کرکے وزیر اعظم نے قہر برسا دیا ۔ خیر اس موقع پر جو دوہے وزیر اعظم نے سنائے ان میں سے ایک یہ بھی تھا ؎

مانگن مرن سمان ہے، مت کوئی مانگو بھیک                                       مانگن سے مرنا بھلا، یہ ست گرو کی سیکھ

اردو کے مایہ ناز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اس سے متاثر ہوکر اپنے ایک افسانے میں لکھا :’’ نگر نگر ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جو آدمی بھیک مانگے گا اس کو گرفتار کرلیا جائے۔ گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ لوگ خوشیاں منانے لگے کہ ایک بہت پرانی لعنت دور ہوگئی۔کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لوگوں نے پوچھا، ’’اے جولاہے تو کیوں روتا ہے؟‘‘ کبیر نے رو کر کہا، ’’کپڑا دوچیزوں سے بنتا ہے۔ تانے اور پیٹے سے۔ گرفتاریوں کا تانا تو شروع ہوگیا پر پیٹ بھرنے کا پیٹا کہاں ہے؟‘‘  کبیر کے اتر پردیش کا یہی رونا ہے کہ اگر آج کوئی آکسیجن کی شکایت کرے تو اسے این ایس اے کے تحت گرفتار کرکے اس کی جائیداد ضبط کرلی جائے۔  یہ تو سرکار ی بدنامی کوچھپانے کا تانا ہے مگر عوام بین  کر  رہی ہے کہ آکسیجن کہاں ہے؟  دوائی کہاں ہے؟ اسپتال میں بستر اور مرگھٹ میں اگنی دونوں کی   قطار دن بہ دن طویل ہوتی جارہی اور یوگی سرکار پنچایت کے الیکشن میں مست ہے ۔  اس طرح گویا یوگی راج میں کبیر کے الفاظ نے ایک نیا معنیٰ اختیار کرلیا  ۔’مانگن مرن سمان ‘ہوگیا اور لوگ پکار اٹھے ’ مانگن سے مرنا بھلا، یہ یوگی جی  کی سیکھ‘۔

اتر پردیش میں  حالیہ پنچایت کے انتخابی تیاریوں میں  سات سو سے زیادہ  بیسک اساتذہ کی موت کا الزام ان کی تنظیم کے صدر نے لگایا ہے۔ ان لوگوں نے اپنے گھر کے کتنے لوگوں کو کورونا سے متاثر کیا ہوگا اس کی تو گنتی مشکل ہے۔ اس بات کی گہا ر لگائی گئی تھی کہ کم ازکم رائے شماری کو ملتوی کیا جائے لیکن   یوگی  کی حکومت کے کان پر  اس  سے بھی  جوں نہیں رینگی  اور اس نے رائے شماری کرکے نتائج کا اعلان بھی کروا دیا ۔  اس سنگین صورتحال پر    عدالت نے  ازخود نوٹس لیتے ہوئے  الیکشن کمیشن کو انتخابات کے آخری مرحلے میں کوویڈ پروٹوکول کی پیروی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ  ناکامی کی صورت میں  عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔عدالت نے پولیس کو بھی  انتخابی ڈیوٹی پر لوگوں  بچانے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ وزیر اعلیٰ کے کھوکھلے  بیان کی قلعی کھولتے ہوئےعدالت نے کہا ’’اگر ہماری سات دہائیوں کی آزادی کے بعد بھی ہم اپنے شہریوں کو آکسیجن فراہم نہیں کرسکتے ہیں تو یہ شرم کی بات ہے۔‘‘ یہ صورتحال  عدالت کے لیے تو قابلِ ندامت ہے لیکن بے حس  سرکار کو اس کا کوئی قلق نہیں ہے۔ جسٹس ورما نے کہا ’’میں ایک بار پھر درخواست کرتا ہوں کہ اگر معاملات قابو میں نہیں آتے ہیں تو پھر دو ہفتے کا لاک ڈاؤن نافذ کریں۔‘‘

وطن عزیز میں انتخابی جنون کسی ایک خطے  یا سیاسی جماعت تک محدود نہیں ہے۔ الہ باد ہائی کورٹ نے  جس وقت الیکشن کمیشن اور صوبائی   حکومت کو نوٹس دیا اسی  دوران   تلنگانہ ہائی کورٹ نے بھی  اپنی ریاست میں ان دنوں کے تئیں  ناراضگی کا اظہار کیا ۔ عدالت نے کورونا کے تناظر میں  ریاست کے اندر  جاری منی میونسپل الیکشن  کے انتظامات پر سخت   پھٹکار لگائی ۔ ہائی کورٹ نے پوچھا  کہ کیا ریاستی الیکشن کمیشن کو انتخابات ملتوی کرنے کا اختیار نہیں ہے؟ مغربی بنگال میں   یہ بات پوری طرح اظہر من الشمس ہوچکی ہے کہ الیکشن کمیشن کو سرکار کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اسے استعمال کرنے کی جرأت کا شدید فقدان ہے۔ عدالت نے ریاستی الیکشن کمیشن سے دریافت کیا کہ کورونا کے مشکل حالات میں انتخابات کیوں کروائے جا رہے ہیں؟  لوگوں کی زندگی قیمتی ہے یا الیکشن؟ اگر جنگ شروع ہوجائے یا آسمان گر پڑے تب  بھی کیا انتخابات ہونے چاہئیں ؟ کیا الیکشن کمیشن کے عہدیدار زمینی حقائق سے واقف نہیں ہیں؟ حکام زمین پر رہتے ہیں یا آسمان میں؟ ہائی کورٹ نے یہ چونکانے والا  سوال بھی  کیا کہ چند بلدیات کی معیاد بھی مکمل نہیں ہوئی   ہےایسے میں وہاں  قبل از وقت انتخابات کیوں کروائے جا رہے ہیں؟

عدالت کے ذریعہ سوالات کی اس غیر متوقع   بوچھار سے گھبرا کر  الیکشن کمیشن کے عہدیداروں نے اصل راز اگل دیا۔ انہوں نے  بتایا کہ انتخابات ریاستی حکومت کی رائے کے مطابق ہو رہے ہیں۔عدالت نے برہمی ظاہر کرتے ہوئے سوال کیا کہ کورونا کے دوسرے مرحلے کے آغاز پر نوٹیفکیشن کیوں دیا گیا ؟ انتخابی مہم کے لئے وقت کم کیوں نہیں کیا گیا؟ عدالت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی وضاحت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے  سرکاری حکام کو سماعت میں شریک ہونے کی ہدایت دے دی۔ سچ تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن  فی الحال  اعلیٰ افسران کے لیے سرکار کی تابعداری کرکے سبکدوشی کی زندگی عیش و عشرت میں گزارنے کا ایک ذریعہ  بن گیا ہے ۔ حالیہ سبکدوش الیکشن کمشنر سنیل اروڑہ کےگوا جیسے چھوٹے صوبے کی گورنری پر تعیناتی کی خبریں ذرائع ابلاغ میں گردش کررہی ہیں بلکہ  سابق آئی جی جیولیو ریبیرو نے اس کی تصدیق بھی کردی ہے۔

 اس  افسوسناک صورتحال میں سن 2009 کے الیکشن  کمشنر  نوین چاولا کی یاد آتی ہے۔ انہوں نے  صدر مملکت کے نام اپنے  مکتوب میں الیکش کمیشن کی اہمیت اور خودمختاری پر  طویل  بحث کے بعد لکھا تھا ’’  لہذا میں کسی بھی آفس میں چیف الیکشن کمشنر یا کمشنر  کی تقرری کی ممانعت کے لئے حکومت کو مشورہ دینے کی  تجویز پیش کرتا ہوں  ۔ انہوں صدر جمہوریہ کے توسط سے   الیکشن کمیشن (الیکشن کمشنرز کی خدمت کی شرائط اور کاروبار سے متعلق کاروبار) ایکٹ 1991 میں ترمیم کرنے کی سفاعش کی تھی  تاکہ بذریعہ  قانون صدر الیکشن کمشنر کو حکومت  ہند یا کسی ریاستی حکومت کے منافع بخش دفتر میں تعینات نہ کرسکے۔  سی ای سی اور ای سی کو عہدہ چھوڑنے کے بعد 10 سال کی مدت تک انہیں  کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی ممانعت ہو۔ اس سلسلے میں انہوں نے  ٹی این کے سپریم کورٹ  میں حلف نامہ  کا حوالہ بھی دیا ۔ اس میں  بیرونی دباؤ سے آزاد رکھنے کی خاطرآئین کے آرٹیکل 324 (1) کے تحت الیکشن کمیشن  کو مستقل ادارہ  بنانے کی صلاح دی  گئی تھی ۔

فی زمانہ  اگلے وقتوں  کی  یہ باتیں ایک خواب سا لگتی ہیں کیونکہ بدعنوانی کی دیمک مقننہ کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کو بھی پوری طرح چاٹ چکی ہے۔ یہ  مودی یگ کاکمال ہے ۷ سال  میں ا س پورے نظام کو سڑا دیا اور  نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ  مدراس ہائی کورٹ   الیکشن کمیشن  پر قتل کا مقدمہ چلانے کی دھمکی دینےپر مجبور ہوگیا   ہے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ سرکار اپنی جان بچانے کے لیے اپنے آگے دم ہلانے والے  کمیشن کو بلی کا بکرا بنا دے ۔  تلنگانہ ہائی کورٹ نے ریاستی   حکومت سے  ناراض ہوکر یہ  سوال تو  کردیا کہ کورونا جیسے سنگین معاملے میں  حکومت ’’ آخری منٹ میں فیصلے کیوں کرتی ہے ؟ کنٹرول کرنے کے اقدامات کو راز میں کیوں  رکھا جا رہا ہے؟ کم از کم ایک دن پہلے فیصلہ لینے میں کیا نقصان ہے؟  لیکن کیا ایسے تلخ سوالات مرکزی حکومت سے کیے جائیں گے ؟ شاید نہیں اس لیے کون سا جج ایوان بالا کی رکنیت پاکر عیش کرنا نہیں چاہتا ؟ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی ایک مثال  قائم کر ہی چکے ہیں۔  ایسے لوگوں کے بارے میں کبیر نے کہا تھا صاف شفاف لباس زیب تن کرنےوالا خدا ناشناس  سیدھا نرک میں جائے گا؎

اُجول پہرے کپڑا ۔ پان سپاری کھائے                                           ایک ہی ہری کے نام بن، باندھا یم پور جائے

Comments are closed.