Baseerat Online News Portal

مولانا محمود عالم: سچے صوفی اور غریب نواز

 

ڈاکٹر خالد مبشر
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

نام: محمد محمود عالم
والد: تحمید حسین مرحوم
والدہ:زینب خاتون
پتہ:بیگنا، ٹیڑاگاچھ، کشن گنج، بہار
تاریخ پیدائش: یکم اکتوبر 1944ء
ابتدائی تعلیم:مدرسہ اسلامیہ غوثیہ صوفیہ بیگنا
تعلیمی لیاقت:فاضل (فارسی)از شمش الہدیٰ پٹنہ
پیشہ:درس وتدریس (پرنسپل مدرسہ اسلامیہ غوثیہ صوفیہ بیگنا تا حیات)
شادی : پھوپھی زاد بہن رابعہ خاتون بنت رقیب الدین (جھالا)
اولاد:ایک بیٹا اور دو بیٹیاں( علی اعظم ربانی، فاخرہ تمنا، نصرت اعظمی۔
وفات: 28 جون 1994

28 جون 1994ءکی صبح تھی. میں بڑی خالہ کے گھر بیرنیاں میں تھا.ناشتے کے دوران گلی سے کسی کی آواز آئی. خالہ ادھر کو گئیں. لیکن اب گلی سے خالہ کے رونے کی آوازیں کانوں سے ٹکرانے لگیں.سبھی گھبرائے ہوئے گلی کی طرف دوڑے تو وہاں قبلہ مبین اختر امنگ صاحب اپنی سائیکل تھامے تھکے ماندے،پسینے سے شرابور اضمحلال کی کیفیت میں کھڑے تھے. ان کی زبان سے بس یہ جملہ سنائی پڑا مولانا محمود عالم صاحب کا انتقال ہوگیا.مجھے اس خبر نے کتنا متاثر کیا تھا، وہ لمحہ اب بھی نہیں بھول سکا.وہ میرے لڑکپن کا ابتدائی دور تھا.کوئی چودہ برس میری عمر تھی. اسی سال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں میرا داخلہ ہوا تھا. اس وقت میں گرمی کی لمبی چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا.بڑے ابا کی اچانک موت نے مجھے ہی نہیں بلکہ پوری برادری کو صدمے میں مبتلا کردیا تھا.سب کی زبان پہ یہی تھا کہ کیوں اتنی جلدی دنیا سے اٹھ گیے؟

آج 26 برس بعد بھی لگتا ہے کہ بڑے ابا میرے سامنے ہیں۔ان کا قد و قامت کیا بتاؤں، بات یہ ہے کہ نہ بہت لمبے تھے، نہ بونے لیکن پتہ نہیں کیا بات تھی کہ اچھے اچھے لمبے تڑنگے لوگوں کے درمیان بھی وہ بہت دراز قامت لگتے تھے۔رنگ پکا خاندانی تھا،یعنی ایک دم کالا۔جسم بھاری بھرکم،چلتے تو لگتا کہ راستے میں بس وہی ہیں،بہت مضبوط جسم تھا۔کبھی بیٹھک میں چوکی پر یوں ہی لیٹے رہتے تو ہم بچے ان کی پیٹھ کے اوپر اچھل کود مچاتے رہتے،لیکن لگتا تھا کہ کوئی پہاڑ ہے جس پہ کوئی اثر ہی نہیں ہوتا، جب ہمارے بڑوں کی نظر پڑتی تو یہ دیکھ کر مسکراتے ہوئے نکل جاتے کہ جس آدمی کا اچھے اچھوں پر اتنا رعب اور دبدبہ ہے، بچے ان کے ساتھ کس طرح بے خوف کھیل کود رہے ہیں ۔چہرے پر بھری بھری سرسید والی داڑھی، کچھ سفید، کچھ سیاہ۔دیکھیے تو ایک ایسا اطمینان اور بے فکری محسوس ہوتی تھی جیسے دنیا کا کوئی غم انھیں کبھی چھو کر بھی نہیں گزرا ہو۔میں نے وقار کا مطلب انھیں کو دیکھ کر سمجھا تھا۔بہت کم بولتے تھے لیکن جب بھی منہ کھولتے بہت ٹھوس بات کہتے تھے،باتوں میں کوئی لگاوٹ اور ملاوٹ نہیں، کوئی رو رعایت نہیں، کوئی نمک مرچ اور گھلاوٹ نہیں، جو کہنا ہوتا بہت صاف کہہ دیتے، لمبا جملہ یا تمہید بھی نہیں باندھتے تھے۔اکثر حق گوئی کی وجہ سے لہجے میں گرمی اور جلال ہوتا بلکہ عام طور پر کڑوی بات کہتے،لیکن کمال یہ کہ کسی کو بھی برا نہیں لگتا،بلکہ ایک الگ قسم کا لطف آتا تھا۔

مدرسے کے پرنسپل تھے۔اس وقت مدرسہ اسلامیہ غوثیہ صوفیہ بیگنا کی ایک الگ ہی شان تھی۔پرنسپل ایسے کہ کیا مجال کبھی موسلہ دھار بارش،کڑاکے کی سردی،شادی بیاہ،موت حیات یا کسی بھی حالت میں بالکل وقت کی پابندی کے ساتھ مدرسہ نہ پہنچے ہوں۔جو اساتذہ اس میں کوتاہی برتتے،ان سے سخت برہم ہوجاتے تھے۔ایک بار مرحوم مولانا کلیم الدین صاحب نے ان سے ڈرتے ڈرتے وقت سے پہلے ہی چھٹی مانگی کہ کھیت میں روپا روپنی کا کام چل رہا ہے،پرنسپل صاحب نے ڈانٹ کر کہا حرام کھا کھا کے بکھوا گیا ہے.لیکن پرنسپل صاحب کی محبت ایسی بیٹھی تھی کہ مولانا کلیم الدین صاحب بجائے غصہ ہونے کے زور زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے نکل گئے۔مدرسےمیں ایک لمحہ بھی خالی نہیں بیٹھتے تھے، یا تو دفتری کاموں میں مصروف رہتے یا بچوں کو پڑھانے میں لگے رہتے۔بچوں سے ان کا عجیب لگاؤ تھا۔بچے ان سے ڈرتے بھی تھے اور محبت بھری شوخی بھی کرتے تھے۔وہ ہمیں زیادہ تر زور زور سے متن پڑھنے کے لیے کہتے یا املا کرواتے تھے یا جوڑ، گھاٹا، ضرب اور تقسیم کرواتے۔پہاڑے میں گیارہ گیارہانگ سے لے کر بیس بیسانگ تک رٹوایا کرتے تھے۔انھیں ہم نے کبھی مدرسے میں کسی کے ساتھ دیر تک گپ شپ کرتے نہیں دیکھا۔ٹفن کے وقت سبھی اساتذہ اور اسٹاف جنتا ہاٹ چائے پینے چلے جاتے تھے، لیکن پرنسپل صاحب کبھی نہیں جاتے تھے۔بلکہ میں نے انھیں جنتا ہاٹ میں دیکھا ہی نہیں ۔صرف ایک بار کرانتی کی ایک میٹنگ میں جنتا ہاٹ میں نظر پڑی تھی۔وہ زیادہ تر سودا سلف کے لیے بشن پور بازار جایا کرتے تھے۔ہمیشہ پیدل چلتے تھے۔سائیکل کی سواری بھی نہیں کرتے تھے۔

مدرسے کے علاوہ ان کو اکثر پڑوس کی غریب بستیوں میں دیکھا جاتا تھا۔اس وقت بہت زیادہ غریبی اور مفلسی تھی۔کچھ مفلس بستیوں کا یہ حال تھا کہ ان میں کوئی گھر ایسا نہیں تھا جہاں لوگوں کو تین وقت کی روٹی پیٹ بھر کھانے کو مل جائے، تن ڈھکنے کو ان کے مردوں تو کیا عورتوں کے پاس بھی کپڑے نہیں ہوتے تھے، بچے لنگوٹ پہنے گھومتے رہتے،ان کی عورتیں امیروں کے گھروں میں کام کیا کرتیں اور ان کے مرد اور بچے کھیتوں میں مزدوری کرتےاور جانوروں کی دیکھ بھال کرتے۔اس وقت مولانا محمود صاحب ان بستیوں کے مسیحا تھے۔جس دن مولانا کا انتقال ہوا،غریب لوگ کہہ رہے تھے کہ آج ہماری ہماری بستی کا باپ دنیا سے چلا گیا.

پڑوس کی غریب بستیوں میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو نام وہی رکھتے تھے۔پوری بستی کا میلاد فاتحہ وہی کرتے تھے۔کوئی بیمار ہوتا تو تیل پانی دم کرتے۔کسی کے لڑکے لڑکی کا رشتہ ان کے مشورے اور موجودگی کے بغیر طے ہو ہی نہیں سکتا تھا، پوری بستی کے لوگ ان کو اپنا گارجین سمجھتے تھے۔منسوب اور شادی کے دنوں میں تو وہ ہفتوں اسی بستی میں پڑے رہتے۔انھیں کی نگرانی میں برات اور بھوج کا کام انجام پاتا تھا۔طبیعت میں درویشی، فقیری اور قلندری ایسی کہ کبھی بھی ان غریبوں کو احساس نہیں ہوتا کہ یہ امیر آدمی ہیں اور ہمارے گھر ان کو کھانا پینا پسند نہیں ہے۔وہ ان کے گھر کبھی مٹی اور کبھی چٹائی پر لیٹ جاتے۔اس کے ساتھ بیڑی پیتے۔ایسا لگتا کہ انھیں غریبوں سے خاص لگاؤ تھا، وہ انھیں کے ساتھ زیادہ اٹھنا بیٹھنا کرتے تھے۔امیروں کے درمیان ان کو گھٹن محسوس ہوتی تھی۔جب کہ وہ پرانے زمین دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور غریبوں کے ساتھ زمین داروں کی شان و شوکت اور اکڑفوں کا رویہ مشہور تھا۔اس وقت ہماری برادری کو غریب بستیوں کے لوگ سرکاری آنگن کہا کرتے تھے اور وہ ہمارے گھر آنگن میں آتے ہوئے بہت جھجکتے تھے۔انھیں ہمارے آس پاس بیٹھنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔لیکن مولانا محمود عالم صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے یہ جھوٹی شان و شوکت ختم کردی۔پہلےیہ ہوتا تھا کہ غریب گاؤں کے لوگوں کو شادیوں میں صرف کام کرنے کے لیے کہہ دیا جاتا تھا اور اکثر وہ لوگ بھوج کا بچا کھچا کھانا کھایا کرتے تھے۔انھیں دعوت دینا اپنی حیثیت کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔پہلی بار انھوں نے ہی اس غلط روایت کو توڑا اور اپنی بڑی بیٹی کی شادی میں پڑوس کے تمام غریب، مفلس لوگوں کو باضابطہ رقعہ دیا۔ان کے اس عمل پر برادری کے لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں تو مولانا محمود عالم صاحب سخت جلال میں آگیے اور برہم ہوکر کہا کہ حرام ہے وہ ولیمہ یا ضیافت جس سے غریبوں کو محروم رکھا جائے۔
آس پاس کے بے سہارا ٹولوں اور محلوں میں کسی کی موت ہوجاتی تو مولانا محمود صاحب وہاں بھی شروع سے آخر تک مستعد رہتے۔غسل، کفن،بانس بتی، قبر، جنازہ اور اس کے بعد دور سے آئے ہوئے لوگوں کا کھانا پینا ہر چیز میں مولانا شامل رہتے۔

حکیم تجمل حسین صاحب کے بعد تاحیات مولانا محمود عالم صاحب ہی عید گاہ کے امام رہے۔پہلے پورے بیگنا پنچایت میں جمعہ کی نماز صرف اسٹیٹ والی مسجد میں ہوتی تھی، وہاں بھی طویل عرصے تک مولانا محمود عالم صاحب نے جمعے کی امامت کی۔لیکن طبیعت کے نہایت حساس تھے۔متولی صاحب نے ایک بار کچھ کہہ دیا، اس کے بعد انھوں نے امامت سے ہمیشہ کے لیے معذرت کرلی۔

زندگی میں کوئی تصنع، دکھاوا اور بناوٹی پن نہیں تھا۔نماز پڑھاتے تو تلاوت میں بھی فطری سوز وگداز ہوتا تھا، کوئی تکلف اور غیر ضروری طور پر گاڑھا ع ش ق کا مخرج نہیں نکالتے تھے۔ویسے ہی ان کی دعاؤں میں بھی ایک درد مندی اور خلوص کی کیفیت ہوتی تھی۔ورنہ آج کل کچھ حافظ وقاری حضرات کی قرات اور دعا سنیے تو ایک عجیب رنگ و روغن محسوس ہوتا ہے۔آواز کی ملمع کاری سے طبیعت بیزار ہوجاتی ہے۔روح ودل کے بجائے ان کی قرات حلق سے نکلتی ہے۔

ان کے اندر اچھی تعلیم کا جذبہ کیسا تھا کہ اس وقت انھوں نے اپنے بڑے بیٹے علی اعظم ربانی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے پٹنہ بھیجا،جب کہ اس دور میں ہمارے علاقے میں پٹنہ بھیجنا بہت بڑی بات تھی۔اس وقت اتنا رجحان نہیں تھا۔

طبیعت میں بے پناہ سادگی تھی۔سچے صوفی تھے۔نہ کبھی کسی سے لڑتے جھگڑتے، نہ کسی سے کوئی شکایت کرتے، نہ کسی کی غیبت کی، نہ کسی کو دھوکہ دیا، نہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی۔صبر وتحمل کے چٹان تھے۔میں نے صرف ایک بار ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھا تھا، جب ان کے چچا (میرے نانا) حکیم تجمل حسین صاحب کا انتقال ہوگیا تھا۔مولانا محمود عالم صاحب لڑکپن میں ہی باپ کے سائے سے محروم ہوگئے تھے۔بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔لہٰذا ساری ذمہ داری انھیں کے سر پہ آگئی تھی۔کچھ اس وجہ سے بھی ان کے اندر خود اعتمادی، قوت برداشت، عزم و حوصلہ اور صبر وتوکل کی اعلیٰ صفات پیدا ہوگئی تھیں۔

مولانا محمود عالم کبھی کسی کی دل شکنی نہیں کرتے تھے، بلکہ ہر ممکن دل رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ایک بار جب میں مدرسے میں ابتدائی درجات میں پڑھتا تھا، ان سے کہا کہ مدرسے کا ایک بڑا جلسہ کیجیے۔انھوں نے یہ سن کر انکار نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ جب تم لوگ فوقانیہ میں آجاؤگے تب کریں گے خوب شان دار جلسہ۔اسی طرح جب ان کی بڑی بیٹی تمنا باجی کی شادی ہوگئی تو رسم کے مطابق ان کو لینے کے لیے بہت سی بیل گاڑیوں میں برادری کے لوگ جانے لگے۔میں اس وقت چھوٹا تھا اور بستر پہ پیشاب کردیا کرتا تھا۔میں نے بھی شوق میں ضد باندھ لی اور رونے لگا کہ میں بھی جاؤں گا۔میری ماں نےسختی برتی کہ نہیں تم وہاں بستر پر پیشاب کردوگے، تم مت جاؤ۔لیکن میں جانے کے لئے بضد ہوگیا۔اس پہ بڑے ابا مولانا محمود عالم صاحب نے مجھ سےکہا کہ سنو بیٹا! ابھی اتنے سارے لوگ مہمانی جارہے ہیں کہ کسی کی خاطر مدارات نہیں ہوگی۔تم ابھی مت جاؤ۔بعد میں تم میرے ساتھ چلنا۔ہم دونوں جائیں گے تو ہماری خوب آؤ بھگت ہوگی۔بڑے ابا کی اتنی مضبوط دلیلوں کے بعد مجھے اطمینان ہوگیا اور میں نے جانے کی ضد چھوڑ دی۔اب سوچتا ہوں کہ اتنی نازک صورت حال کو بڑے ابا نے کتنی آسانی سے نپٹادیا۔میرا دل بھی نہیں ٹوٹا، وہاں جاکر بستر پہ پیشاب کردینے کا مسئلہ بھی پیش نہیں آیا۔وہ نفسیات اور معاملے کو سمجھتے بھی تھے اور اس کا بہترین ڈھنگ سے حل بھی کرنا جانتے تھے۔

بہت ہی وضع دار تھے۔برادری میں تمام بھائیوں میں بڑے تھے اور بڑا ہونے کا حق بھی ادا کرتے تھے۔اسی طرح ان کے تمام چھوٹوں کو ہمیشہ ان کی بہت عزت، ادب و لحاظ اور احترام کرتے ہوئے دیکھا۔

افسوس اب ہماری برادری میں وہ تہذیب و شائستگی ،بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پہ شفقت کی بے مثال روایت اور اعلیٰ قدر مٹتی جارہی ہے۔پہلے کچی گلیوں اور سڑکوں پہ کیچڑ تھی لیکن دلوں میں صفائی تھی۔آج پکی گلیوں اور سڑکوں میں صفائی ہے لیکن دلوں میں کیچڑ ہوگئی ہے۔

Comments are closed.