Baseerat Online News Portal

مولانا کلیم صدیقی صاحب مدظلہ کی گرفتاری اور سوچنے کی بات

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

مولانا کلیم صدیقی صاحب مدظلہ کی گرفتاری منصوبہ بند طور پر ہوئی ہے، واقعہ یہی ہے کہ جس طرف حکومت پیش قدمی کر رہی ہے، اور جو انداز و طریقے اپنا رہی ہے اس سے سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ان کی منشاء کیا ہے؟ مستقبل میں یہ کس رخ پر چلنا چاہتے ہیں اور ملک کو کونسی ڈگر پر ڈال دینا چاہتے ہیں؟ صدیقی صاحب کا قصور بھی وہ ہے جس کا ہر کوئی مجرم ہے، کل مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام صاحب کا تراشہ گردش کر رہا تھا کہ ” مولانا کلیم صدیقی کی چارج شیٹ میں لکھا گیا ہے کہ وہ اپنی گفتگوؤں ، تقریروں اور تحریروں میں جنت کا لالچ اور جہنّم کا خوف دلایا کرتے تھے ، جو قابلِ تعزیر جرم ہے۔اگر یہ جرم ہے تو ہر مسلمان اس کا اقراری مجرم ہے ، اس لیے کہ جنت اور جہنم پر ایمان اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے. جو شخص اس کا اقرار نہ کرے وہ مسلمان نہیں۔ ” بات صرف اتنی ہے کہ ملک میں اکثریت کو الجھانے اور انہیں سبز باغ دکھانے کیلئے ہمیشہ ایک دشمن کی ضرورت پڑتی ہے، یہ انسانی نفسیات کا مسئلہ ہے کہ اگر ایک شخص کو مثبت اپروچ دی جائے تو وہ جلدی قبول نہیں کرتا؛ لیکن اگر اسے کسی کے مقابل میں نیگیٹو اپروچ ملے تو وہ جلد از جلد قبول کر لیتا ہے، سرکار یہ بات اچھی طرح جانتی ہے، چنانچہ مسلمانوں کو سَدا ایک منفی کردار میں ڈھال کر اکثریت کو رِجھانے کی کوشش ہوتی ہے، یہ ایک اچوک ہتھیار ہے، دہائیوں بلکہ صدیوں سے اس سے کام لیا جارہا ہے، تو وہیں مسلمانوں میں سیاسی شعور اس قدر تنزلی کا شکار ہے کہ وہ اس چال کو سمجھ ہی نہیں پاتے، وہ نرم اور گرم میں تفریق نہیں کر پاتے، عموماً گرمی اور جوش میں اس حد تک چلے جاتے ہیں جہاں سے واپسی مشکل ہوجاتی ہے اور کبھی کبھی سرد مہری یوں سوار ہوجاتی ہے کہ کاٹو تو خون نہ نکلے؛ موجودہ مسئلے میں کچھ ایسا ہی دیکھا جارہا ہے، دو فکریں تو ندی کے دو کنارے معلوم ہوتے ہیں، ایک طبقہ بہت کچھ کرنا چاہتا؛ لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتا اور جو کچھ کر سکتے ہیں اور دبکے ہوئے ہیں، جن کے پاس قوم کا اثاثہ ہے، جو سیاسی گلیاروں کی رونق ہوا کرتے تھے، جو آباء و اجداد کے نام پر اپنی جاں نشینی کا حق رکھتے ہیں؛ مگر الحمد للہ ایک تیسرا محاذ دیکھنے کو مل رہا ہے جو پر امن طور قانونی چارہ جوئی کر رہا ہے، یہ ہونا چاہیے اور یہ طریقہ واقعی میں کارگر ہے؛ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا صرف یہی رویہ کافی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں! بلکہ موجودہ وقت اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ اپنی اجتماعی قوت دکھانے اور حکومت کو یہ بتانے کا بھی ہے کہ ہم زندہ ہیں، ہماری پہچان اور ہمارے دینی اثاثے و سرمائے کی بیخ کنی قابل قبول نہیں ہے، اس میں ملک ہمارا برابری کا حق ہے جسے سیاست کی سولی پر چڑھا دینا قبول نہیں، مولانا کی گرفتاری پر ایک معتدل رائے محترم خورشید انور ندوی کی ایک تحریر ٢٥/ ستمبر ٢٠٢١ ء کو زیر مطالعہ آئی، جسے آپ کے سوشل اکاؤنٹ سے نشر کیا گیا تھا، اس کا عنوان ہے:مولانا کلیم صدیقی صاحب کی گرفتاری. – اگرچہ تمام نکات سے اتفاق نہیں لیکن اس تحریر سے فکر کے نئے زائے وا ہوتے ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے عام کیا جائے۔

مولانا رقمطراز ہیں: "یہ واقعہ ایک پڑاؤ بھی نہیں کہا جاسکتا.. یہ تکلیف دہ ہے لیکن متوقع تھا.. اتنا گنجلک بھی نہیں کہ اس کے پیچھے بڑی گتھیاں ہوں جنھیں سلجھانے کے لئے بڑی سیاسی بصیرت درکار ہو.. ٢٠٢٢ء تک ایسے بہت سارے واقعات ہوں گے اور ایک زنجیری تسلسل کے ساتھ ہوں گے.. طالبان کا ایشو زور شور سے ضرور اٹھا لیکن اس کی ہر پرت پر ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں کی رسوائی لکھی تھی.. خواہی نخواہی اس کو ترک کرنا پڑا.. اسی میں بھلائی تھی.. پھر جیتنے والے جیت ہی جاتے ہیں.. ان کو کوسنے سے کچھ نہیں ملتا.. پھر وہ ایشو ہمارا الیکشنی مددگار نہیں بن سکتا تھا.. موجودہ حالات میں مہنت نریندر گری کی موت اور اس کا معمہ ایک بڑا نقصان دہ اور پریشان کن ایشو بن رہا تھا اس پر خاک ڈالنے یا مباحثاتی انکاؤنٹر کے لئے ایک دوسرا ایشو وقت کی ضرورت تھا جو ایجاد کیا گیا.. مہنت کی موت سے زیادہ ان کے کوائف چونکانے والے ہیں.. وہ اکھل بھارتی اکھاڑا پریشد کے چیرمین تھے اور ان کی زندگی وجے مالیہ سے بھی زیادہ پرتعیش تھی.. لگژری گاڑیوں کا ایک پورا فلیٹ ان کی سیوا میں رہتا جس کا تصور ارب پتی لوگ بھی نہیں کرسکتے.. مشکوک کاروباریوں سے ان کے خفیہ روابط نہایت گہرے اور بڑے وسیع پیمانے پر تھے.. یہ تفصیلات ابھی آنا شروع ہی ہوئی تھیں کہ مولانا کلیم صاحب کی گرفتاری کا شوشہ چھوڑا گیا.. عمر گوتم کی گرفتاری دوماہ سے زیادہ پہلے ہوئی تھی اگر ان کی اطلاع پر گرفتاری ہونی تھی تو بہت پہلے ہوجاتی.. اب کیوں.. تحقیقاتی ایجنسیاں اتنا وقت ضائع نہیں کرتیں اور یوپی اے ٹی اس تو مسلمانوں کی گرفتاری میں بالکل نہیں کرتی.. وہ گرفتار کرکے فرد جرم مرتب کرتی ہے.. مجھے بہت اطمینان ہے کہ مسلمان اس واقعہ کو اپنے لئے زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنارہے ہیں اور خالص قانونی اور فنی نقطہ نظر سے اس کو دیکھ رہے ہیں.. کیس کی سنجیدگی اور الزامات کے پھسپھسے پن کا یہ حال ہے کہ پولیس کسٹڈی تک نہیں لے سکی.. جو اس طرح کے کیسز آسانی سے مل جایا کرتی ہے.. اس مسئلے کو مسلمان جتنی آسانی اور عمومیت سے لیں گے اتنا ہی سیاسی ضرر کم پہونچے گا اور دسیسہ کاروں کو فائدہ ارتکاز کم پہونچے گا.. اسکرپٹ تیار کرنے والوں کی بڑی خواہش ہے کہ مسلمان اس معاملے میں محاذ آرا ہوں، جو بڑی نادانی ہوگی..آپ عجلت اور فوری ردعمل میں بہت کچھ کھو سکتے ہیں لیکن تحمل اور تدبیر سے بہت کچھ پاسکتے ہیں.. مغربی بنگال سے مسلمان یوپی کے مسلمانوں سے کسی چیز میں بہت فائق نہیں لیکن ووٹ کے بہتر اور نتیجہ خیز استعمال میں پچھلے الیکشن میں کیرل کے مسلمانوں سے بھی بہتر سوجھ بوجھ والے ثابت ہوئے ہیں.. مسلمان غیر ضروری ردعمل کے بجائے آگے کی الکشنی تدبیر پر توجہ مرکوز رکھیں اور اس گرفتاری کو عام بات باور کریں.. مولانا آج نہیں تو کل باعزت گھر لوٹیں گے.. اپنوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں اور ابنائے وطن میں ہزاروں لوگ ان کے چاہنے والے ہیں.. وہ ایک نرم مزاج، امن پسند اور خلیق داعی ہیں.. زیادہ ضروری اس ڈرامہ کے پیچھے عیار سیاست کی جال کاٹنا ہے اس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اس واقعہ کو اس کے قانونی حجم سے باہرنکلنے نہ دیا جائے …یہ مقدمہ نچلی عدالت میں ہی اپنی موت مرجاۂے گا ان شاء اللہ.. کیا کریں مسلمانوں کا کوئی میڈیا نہیں ورنہ پچھلے چند سالوں میں تیس کے لگ بھگ بڑے سنتوں مہنتوں کی موت کا ایشو ایک بڑی جرنیلی کہانی بن سکتی ہے.. ایودھیا کے زمینوں کی سرکاری تحویل اور فروخت باز فروخت اور خرید کا ایک بڑا اسکینڈل موجود ہے.. آگے میگا مندر سے میگا خبریں جڑیں گی.. مسلمان صرف تماشہ دیکھیں.. اور خود کو فاصلے پر رکھیں.. لوگ بھی مسلمان قائدین اور مسلم تنظیموں کے بارے میں سخت لب ولہجہ میں بات نہ کریں.. گرفتاری کے اس مذموم واقعہ کو قانون کی راہداری میں دفن کردیں اور بس…”

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.