Baseerat Online News Portal

میاں بیوی کی زندگی

 

 آمنہ جبیں ( بہاولنگر)

آج ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں شادی ایک شوق ایک ضرورت ایک کام اور ایک خواہش کا پھندہ بن چکا ہے ۔ جسے کبھی بھی لوگ صرف کام سمجھ کر نمٹانے بیٹھ جاتے ہیں۔ بچے بچیاں اسے چند روز کی بہار سمجھ کر نفس کی قید میں آئے رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں ۔بہت سے بچیاں ایسی ہیں جو زندگی کے حالات اور واقعات سے بے خبر ہنستی کھیلتی ہوئی نازک مزاج لیے اداؤں کی چوکھٹ پہ مچلتی ہوئیں اس رشتے کے بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔ جس کی انہیں کوئی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی ۔ دوسری طرف بہت سے نوجوان بچے جوانی کے جوش میں شادی جیسے مقدس رشتہ میں بندھنے کی بہت جلدی کرتے ہیں۔ لیکن یہاں افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم نے رشتے میں آنے سے پہلے ایک دوسرے کے حقوق کو نہیں سمجھا ہوتا .

 

دیکھیے شادی ایک ایگریمنٹ ہے زندگی بھر کے لیے ایک وعدہ ہے زندگی بھر کے لیے ۔آپ اس ایگریمنٹ کو پڑھے بغیر اس کے اصول و ضوابط سمجھے بغیر کیسے اس پہ دستخط کر سکتے ہیں۔ آپ جب بھی اپنے کاروباری کام میں بھی کسی معاہدے پہ دستخط کرتے ہیں تو اس کے ہر اصول کو پڑھ کر اگر وہ آپ کے لیے مناسب ہو تو ہی اس پہ دستخط کرتے ہیں۔ تو یہ ایگریمنٹ جو زندگی بھر کا ہے دو لوگوں کے درمیان اس کو بغیر پڑھے جانچے ہم کیسے اس ایگریمنٹ پہ دستخط کر سکتے ہیں۔ کیونکہ جس ایگریمنٹ پہ دستخط کیے جائیں اس کے اصول و ضوابط پھر آپ کو پورے کرنے ہوتے ہیں ۔ چاہے آپ چاہے یا نہ چاہیں کیونکہ یہ اس وعدے کے اس ایگریمنٹ کے اصول و ضوابط اور قوانین ہیں جن سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔ اگر آپ نے ان قواعد کو پہلے سے پڑھا ہو گا تو آپ ان کو بغیر کسی تلخی اور مشکل کے پورا کر سکتے ہیں ۔کیونکہ

 

( جب ہمیں سبق یاد ہو اور ہم نے کورس کی پوری کتاب پڑھی ہو تو ہم پر اعتماد ہوتے ہیں ۔ کہ ہم ہر سوال حل کر لیں گے ۔ کیونکہ آپ نے اپنے سلیبس کا سب کچھ یاد کر رکھا ہوتا ہے۔ اگر اتفاق سے کوئی سوال آپ کے سلیبس سے منافی بھی آ جائے تو آپ کا جو خود پہ اعتماد تھا اس سے آپ اسے بھی حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ لکھ ہی دیں گے ) یہی پر اعتمادی ہمیں اس رشتے کی کتاب کو پڑھ کر اپنے اندر لانی ہے۔ اور یہ کتاب ایک ایسی کتاب ہے جسے صرف مرد کو نہیں یا صرف عورت کو نہیں بلکہ عورت اور مرد دونوں کو پڑھنی ہے سمجھنی ہے ۔ اپنے حقوق ،فرائض، مطالبات کا حق ، سارے ضوابط دونوں فریقین کو پڑھنے ہیں کیونکہ شادی کا یہ ایگریمنٹ انہی دو لوگوں کے درمیان ہونے جا رہا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جو لڑکی یا لڑکا شادی کے بندھن میں بندھنے جا رہے ہیں ۔ وہ ان قواعد کو بلکل نہیں پڑھتے ۔اور پھر شادی کے بعد ان کے درمیان ہونے والی ناچاکیوں پر باہر سے مشورے دیے جاتے ہیں بتایا جاتا ہے اور یاد دلایا جاتا ہے ۔ کہ یہ تمہاری بیوی ہے اس کا یہ حق ہے تم پہ ایسا نہ کیا کرو اس کے ساتھ۔ اور پھر عورت کو بھی مرد کے حقوق وفرائض سے تبی آگاہی ملتی ہے جب آپس کی لڑائیاں زور پکڑ کر دوسروں تک پہنچ جاتی ہیں ۔ تب کوئی انہیں ایک دوسرے کے حقوق کی نصیحت کرتا ہے ۔ تو کوئی ان کے حال پہ ہنستا ہے۔

 

یہ ضروری ہے ان ماں باپ کے لیے ان دو بالغ مرد اور عورت کے لیے جو شادی کرنے جا رہے ہیں کہ پہلے ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض کو پڑھیں سمجھیں ان کو اپنانے کی ہامی بھریں پھر جا کر اس شادی کے ایگریمنٹ پہ سائن کریں۔ کیونکہ یہ نفس کی لطافت یہ شادی کا شوق ایک وقت بعد پورا ہو جاتا ہے پھر وہاں آپ کو ڈگمگانے سے بچنے کے لیے ان اصولوں کو ضرورت پڑھتی ہے۔

 

نکاح میں قبول ہے سے کیا مراد ہے؟

جب دو انسان اپنی زبان سے تین دفعہ قبول ہے کہتے ہیں تو مطلب وہ ایک دوسرے کے لیے اس بات کا اقرار کر رہے ہیں ۔ کہ یہ جیسا ہے مجھے قبول ہے ۔ اس کی اچھائیوں اور برائیوں سمیت میں نے اسے قبول کیا یہ ہے قبول ہے کا مطلب لیکن ہم اسے صرف زبان کا ایک اقرار اور شادی کے لیے ضروری الفاظ سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم نے قبول کیا کیا ہے آپ اس بندھن میں صرف ایک انسان کو جسمانی طور پر قبول نہیں کرتے آپ اسے اس کے اندر سمیت اس کے باطن سمیت اسے قبول کر رہے ہوتے ہیں۔ کہ مجھے یہ جیسا ہے قبول ہے۔ ہم قبول تو کر لیتے ہیں ۔ لیکن جب ایک دوسرے کی عادتوں ،رویوں، اور جذبات ، احساسات، ترجیحات ، ہمارے سامنے عیاں ہوتی ہے ۔ تو ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پاتے ان کے رویوں ان کی عادتوں کا جب کہ ہم نے اقرار کیا ہے کہ یہ شخص میں نے جیسا ہے قبول کیا اور پھر شادی سے پہلے آپ ایک دوسرے کو اتنا اچھے سے تو نہیں جانتے ہوتے نہ کچھ عادتوں کا پتہ ہوتا ہے ۔ لیکن ایک دوسرے کو مکمل تو نہیں جانتے ہوتے

کیونکہ میں کہتی ہوں کہ

( کسی انسان کو مکمل جاننے کے لیے یہ زندگی بھی نہ کافی ہے)

اس لیے میاں بیوی کے لیے ضروری ہے ۔ کہ وہ ایک دوسرے کے رویوں کو سمجھے جو ان کے لیے نئے ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی میں آنے والا ہر دن انہیں ایک دوسرے کے متعلق حیران کن بات سے آگاہ کر سکتا ہے۔ لیکن اس پہ بے جا جھگڑا اور تکرار کی بجائے آپ کو وہیں پہ اس نئے رویے کو سمجھنا ہے نئی عادت کو قبول کرنا ہے سمجھنا ہے ۔ مثال کے طور پر

اگر ایک شخص کی بیوی کسی دن اونچی آواز سے بولی ہے تو یہ اس کا رویہ آپ کو قبول کر

کے اس کی وجہ تلاش کرنی ہے اور پھر اسے حل کرنا ہے نہ کہ آپ کو بھی غصے میں ویسا ہی رویہ دکھانا ہے۔ دیکھئے ایک عورت اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی دوسرے گھر میں جاتی ہے۔ اتنے لوگوں کے درمیان اور اسے ان سب کو الگ الگ سمجھنا ہے اس عورت کو سںب کے مزاج سے واقفیت کرنی ہے۔ صرف شوہر کے مزاج سے نہیں ۔جبکہ دوسری طرف شوہر اور اس کے گھر والوں کو صرف ایک عورت کے مزاج ترجیحات اور عادتوں کو سمھناہے۔

 

لیکن افسوس آج عورت ہی صبر کی دیوار بنی ہوئی ہے ۔ اسے ہی قربانیوں کی دہلیز پہ کھڑا کیا ہوا ہے۔ دکھ کے ساتھ یہ بات کہ رہی ہوں کہ ۔

جب ایک پورا گھرانہ مل کر عورت کو نہیں سمجھ پایا تو ایک عورت سارے گھر کو کیسے سمجھ سکتی ہے

عورت کو شوہر کے گھر میں ہر وقت ہر لمحہ پیار محبت احساس جذبات کی خوبصورتی کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ہمارے معاشرے میں یہ چیز بہت پھیل گئی ہے کہ شوہر ماں باپ کی خاطر بیوی کو اور کہیں بیوی کی خاطر ماں باپ کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔جبکہ یہ ایک ترازو ہے ۔ آپ کو دونوں پلڑوں کو ان کے حساب سے وزن میں رکھنا ہے۔ پھر جب کوئی ایسی عورت ہو جسے اپنے ساس سسر نندوں سے کوئی گلہ ہو تو کچھ شوہر بیوی کی سنے بغیر اسے نظر انداز کر کے اپنے ماں باپ کا ساتھ دیتا ہے یہ سوچ کر کہ ان کے ساتھ میں برسوں سے رہ رہا ہوں یہ ایسے نہیں میری بیوی ہی غلط ہے

لیکن خدارہ! یہاں سوچیے کہ برسوں سے آپ ان کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ وہ عورت آپ کے گھر والوں کے ساتھ نہیں رہ رہی اس لیے نہ ماں باپ کا نہ بیوی کا ہمیشہ حقیقت کا سچ کا ساتھ دیں۔ چاہے جو بھی حالات ہوں حق پہ ڈٹے رہیں دونوں کی بات کو سن کر پھر اس کے مطابق کوئی رد عمل کیجئے ۔ کیونکہ اکثر آنکھوں دیکھا بھی سچ نہیں ہوتا ۔

 

وہ میاں بیوی بہت خسارے میں رہتے ہیں جو سب کے سامنے ایک دوسرے کی غلطیوں کو ظاہر کرتے ہیں ۔ یاد رکھیں میاں بیوی کی خوشگوار زندگی کا راز پرائویسی ہے یعنی اپنے معملات اپنے کمرے تک محدود رکھنا۔ طیش میں آ کر انہیں سارے گھر والوں کے سامنے کھول کر نہ بیٹھ جانا ۔ جب تک آپ دونوں ایک دوسرے کو نہیں سنیں گے ایک دوسرے کو وقت نہیں دیں گے یہ مسائل نہیں سلجھ سکتے۔ اور پھر کتنی عجیب بات ہے نہ کہ وہی میاں بیوی ایک دوسرے کی تذلیل کر کے کبھی اپنے سامنے تو کبھی خاندان کے سامنے اکھٹے بیٹھ کر پیار بھری باتیں کر رہے ہوں ۔ اصل پیار باتوں کا نہیں رویوں کا ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے کے جزبات احساسات کی بے حرمتی کرنا کوئی پیار یا مہکتا بندھن نہیں ہوتا۔

 

جہاں پہ مرد عورت کو نہیں سمجھ پاتا وہاں کچھ عورتیں بھی اسی سفر کی راہی ہیں ۔ بیوی کے لیے سب سے پہلی بات ہے ۔کہ وہ اپنے شوہر کی آمدن میں خوش رہے اسلام کے مطابق اگر مقرر ضرورت کی ساری اشیا آپ کو دی جا رہی ہیں۔ تو اپنے شوہر کو زیادہ کمانے پہ مت اکسائے اس کے دن رات کی نیند اپنی عیش و عشرت کے لیے برباد نہ کرے بلکہ کہ اس کی آمدن پہ خوش ہو کر راضی ہو کر اسے سراہے ۔ تاکہ وہ بغیر کسی ذہنی دباؤ کے گھر کا خرچ سکون کے ساتھ کما کر لا سکے ۔ اس کے جذبات اس کے احساسات کا خیال عورت کو بھی رکھنا ہے۔ کیونکہ مانا کہ عورت حساس ہے مگر مرد کے بھی جزبات ہوتے ہیں۔ اسے بھی تلخ رویے تکلیف دیتے ہیں

 

اکثر لوگوں کو میں نے کہتے سنا ہے کہ عورت کو اگلے گھر میں جا کر صبر ,برداشت ,تحمل زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ تو یہاں پہ یہ نظریہ بلکل غلط ہے۔ کیونکہ اسلام نے سب کو حقوق دیے ہیں شوہر کو بھی بیوی کو بھی اور برداشت اور صبر کا گھونٹ دونوں کے لیے ہے ۔صرف صبر عورت کے لیے نہیں۔ اگر صرف عورت کے لیے ہے تو مطلب وہ اپنے حق کو پس پشت ڈال کر چپ سادھ لے۔تو اس سے یہ ازدواجی زندگی ڈگمگا اٹھے گی۔ میاں بیوی دونوں کو ہی سمجھوتے کرنے ہیں ۔ ایک دوسرے کی بات سمجھنی ہے ۔ علیحدگی میں ایک دوسرے کی برائیوں کا یا کوتاہیوں کا بتانا ہے ۔کیونکہ اسے ٹھیک کرنے والے آپ ہی ہیں سارا محلہ یا سارا گھر نہیں۔ اور پھر بعض رویے تو لاشعوری بھی ہوتے ہیں ۔ جو حالات واقعات آپ کے اندر کا کوئی غم کوئی پریشانی آپ کو اس رویے کے اظہار پہ مجبور کر دیتا ہے۔ اس مسلئے کو حل کرنے کے لیےمیاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے لیے وقت نکالنا ہے۔ ایک دوسرے کی بات سننی ہے ۔ دل کا حال معلوم کرنا ہے ۔ نہ کہ میاں روزی کمانے میں مصروف رہے تو عورت گھر کے کاموں میں مگن زندگی سے دور رہے۔ یہاں پہ سب سے اہم بات بتاتی چلوں کہ کسی ایک فرد کے برے رویے یا آپس میں لڑائی جھگڑے کو فوراً سلجھانے نہ بیٹھ جائیں ۔ کچھ دیر کے لیے خاموش اور ایک دوسرے سے دور ہو جائیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں غلطی کوتاہی کو عمر بھر کی سزا قرار دے کر راستے جدا کر لیں بلکہ میرا مطلب ہے۔ کچھ سپیس دیں کچھ وقت دیں۔ جب ذہن پر سکون ہو جائے تب اس معاملے پہ بات کیجئے اور اسے حل کیجئے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ایک دوسرے کی تعریف کرتے رہیے تا کہ محبت کا پھول مہکتا رہے۔ سب سے ضروری بات یہ بھی ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ ایسا مقدس رشتہ ہے ۔ جس میں انائیں نہیں ہوتیں اس لیے اگر جھگڑ پڑیں ہیں تو انا کو سایڈ پہ رکھ کر صلح کی پہل کیجئے میں یہاں پہ اپنا ایک قول لکھوں گی

( رشتوں کو بچانے کے لیے انائیں قربان کرنی پڑتی ہیں نہ کہ اناوں کی خاطر رشتے قربان کیے جاتے ہیں)

اور پھر میاں بیوی میں کیسی اناجو ہیں ہی ایک دوسرے کے لیے ان میں کیسی انا اگر ایک دفعہ مرد نے منایا ہے ۔ تو اگلی دفعہ عورت کا انتظار نہ کرے یہ معافی مانگے گی پھر آپ ہی مانگ لیجئے مگر اس رشتے کی خوبصورتی برقرار رکھیے اور میرے خیال میں میاں بیوی کے رشتے میں معافی ایک لازمی جز ہے جو ضرور مانگنی چاہیے ایک دوسرے کی کوتاہیوں کو درگزر کرنا چاہیے

 

آخر میں میں اس بات سے اپنے عنوان کا اختتام کروں گی۔ کہ میاں بیوی دونوں ایک ہی شاخ کے دو پھول ہیں یہ ایک ہی گاڑھی کے دو پہیے ہیں دونوں کو ہی اپنا اچھا مثبت کردار ادا کرنا ہے ۔ اور سب سے بڑی بات اس رشتہ ازدواج میں بندھنے سے پہلے اسلام کے مطابق ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض کو پڑھنا ہے جب دل و دماغ مطمئن ہو کہ میں یہ اصول و ضوابط پورے کر سکتا ہوں یا کر سکتی ہوں۔ تب ہی اس رشتے میں قدم رکھیے ورنہ یہ رشتہ کبھی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائے گا ۔ اور زندگی کے سفر میں شکوں، شکایتوں ، رویوں ، عادتوں کی ناپسندیدگی پہ بھٹکتا رہے گا۔۔۔

 

شکریہ

Comments are closed.