Baseerat Online News Portal

میری مفلسی میرا جرم ہے نوراللہ نور

میری مفلسی میرا جرم ہے

نوراللہ نور

اگر آپ تاریخ کے پنوں کی ورق گردانی کریں اور اقوام و ملل کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ اس چیز سے ضرور واقف ہو جایں گے کہ ہر دور میں زعماء قوم اور روساء ملت کی قوم و ملت پر جاگیر داری رہی ہے ادارے سے لیکر عبادت گاہیں ان کی زیر تسلط و تسلب تھی اور وہاں کے فقراء ان کے مشق ستم بنے رہے ہر دور میں جاہ و ثروت والوں نے اپنی ہی نوع کے بے کس انسان کے ساتھ وحشیانہ سلوک رورا رکھا اپنی جاہ و حشم کے زعم میں انسانی رواداری اخوت و ملنساری کو اپنے پاؤں تلے روندا ہے اور خدا کی اس بے زباں اور کمزور مخلوق کو کبھی سکون کی نیند نہیں لینے دی مگر افسوس ہے اس خلق خدا پر کہ اتنی اذیت پر بھی زبان پر بندش لگایے ہوئی ہے اطوار و ادوار سرعت سے رواں دواں مگر ان مفلسوں کی وہیں کی وہیں ہے کوی ان کو خانہ بدوش اور اور گنوار کہ کر زدوکوب کرتا ہے کہیں ان کو مویشیوں سے بھی ابتر اور ذلیل گردانتے ہیں اور ہمارے ہندوستان میں دلت پچھڑا کہ کر ان کے حقوق بر سوں سے مسلوب ہو رہے ہیں اور کچھ کو آدیواسی کا نام لیکر انسان ہی شمار کے اعداد وشمار میں ہی نہیں لاتے نہیں ۔۔

آخر ان مظلوموں اور ناتواوں کے ساتھ ایسا سلوک کب تک روا رہے گا ان کے ساتھ روا برتاو اس بات کی طرف مشیر ہے کہ اگر انسانی گروہ میں شمولیت کے خواہاں ہیں اور انسانیت کے حقوق کے متمنی ہیں اور سماج میں توقیر و تعریف مطلوب ہے تو دو کام کرنے ہونگے یا تو آپ مال و ثروت میں ان جاہل اور ناگوار سماج کے مساوی ہوں یا پھر جاگیر داروں کے خصیہ برداری کرو اور ان کے دم چھلے کے طور پر اپنا استعمال کرواتے رہو ورنہ نہ تو آپ کو عزت ملے گی نہ ہی سماج میں عزت سے رہنے کا حق روزانہ آپ کا استحصال و استعمال ہوگا اور تشدد و بربریت آپ کے ساتھ روا رکھی جائے گی اگر آپ خود پر منحصر اپنی اہل و عیال کی کفالت کر رہے ہیں اور ایمانداری سے زںدگی کے چاہ میں ہیں تو یہ سماج کے درندے آپ کو نوچ کھا جایں گے کیونکہ مفلسی ان رذیل و ذلیل کے نزدیک ایک جرم سے کچھ کم نہیں ۔۔
یوں تو ان کے زعیمانہ اور بدبختانہ حرکتوں سے روز ایک نہ ایک نہ ایک جان بھینٹ چڑھتی ہے مگر وہ یہاں کی دوغلی میڈیا کی خصیہ برداری اور چاپلوسی کی وجہ سے اور ادارے جات میں بیٹھے رشوت پر پلنے والے افسران کی وجہ سے معاملہ سرد پڑ جاتا ہے مگر ظلم کبھی نہ کبھی عیاں ہو ہی جاتاہے اس کی نظیر ایک گزشتہ دوتین دن قبل یوپی میں ایک دلدوز واقعہ کا رونما ہونا ہے جہاں ایک دلت خاندان ان کی اوچھی سوچ اور غیر انسانی عمل سے اپنے پیچھے اپنے معصوم بچوں کو بلکتا لقمہ اجل ہوگیے ان کا گناہ صرف اتنا تھا وہ ایک دلت تھا ؛اس کی مجبوری بس یہ تھی کہ اس کے پاس اس سماج میں جینے کے لیے سیم و زر کے خزانے نہیں تھے ؛ اس کا گناہ یہی تھا کہ ایک سرکاری افسر کے کی زمین پر کاشتکاری کی تھی یہ تو ایک واقعہ تھا جس کو کیمرے نے قید کرلیا مگر وہ قریہ اور وہ گوشہ جہاں کیمرے کی رسائی نہیں وہاں نہ جانے کتنی غریب پردھانوں اور چودھریوں کے عتاب و سرزںش کے زد میں ہوتے ہونگے اور کتنی ہی جانیں ان چمکتی کاروں والے اور محلوں والے غیر مہذبانہ رویہ کا شکار ہوتے ہونگے ۔

آخر بنی ادم کے درمیان ایک ابن آدم کے ساتھ یہ رویہ کیسے روا ہے فلمی پردوں پر مسیحائی کا کردار نبھانے والے حقیقت میں ان کے حقوق کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھا تے؟ شوشل میڈیا پر مساوات کا پاٹھ پرھانے والے گیانیوں کو ان کی کچھ خبر کیوں نہیں؟ ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے بننے والی تنظیمیں ؛ سنستھا اور کروڑوں چندہ جمع وکرنے والے ان پر مظالم کے وقت کہاں مر جاتے ہیں ؟ آخر اس سماج میں غریب و نادار ہونا گناہ ہے کیا ؟ غریب کے ٹھیلے اور دکان اجاڑنے والی نکمی پولیس کب تک ان صاحب سیم و زر کے تلوے چاٹے گی اور کب تک غریب کا استحصال ہوگی ؟؟۔
مجھے معاشرے کی روش اور سماج میں بسنے والی لب بستگی و خاموشی سے یہی لگتا ہے کہ یہاں مفلسی ایک بڑا جرم ہے کیونکہ اس مظلوم کی ناحق موت پر کؤی اپنی زبان نہیں کھو لتا‌ کسی کے اندر ان درندوں سے باز پرس کی ہمت نہیں یقین مانو اس سماج میں غریبی بھی ایک جرم ھے ۔

Comments are closed.