Baseerat Online News Portal

نبی رحمت کے اخلاق اور ہم از:صدیقہ پیار محمد فاضلہ معہد عائشہ الصدیقہ قاسم العلوم للبنات دیوبند. @Mahmood_DBD

نبی رحمت کے اخلاق اور ہم
از:صدیقہ پیار محمد
فاضلہ معہد عائشہ الصدیقہ قاسم العلوم للبنات دیوبند
لحمدللہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لانبی بعدہ، وعلی آلہ وصحبہ، وبارک وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا، وبعد!رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے علم اور عبادت کی زینت اخلاق کو قرار دیا ہے، قیامت کے دن مومن کے میزان عمل میں کوئی چیز حسن اخلاق سے زیادہ باوزن نہیں ہوگی، مومن اپنے حسن اخلاق ہی کی وجہ سے ہمیشہ روزہ رکھنے والے اور تہجد گزار کا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے، مسلم شریف کی روایت ہے کہ ”نیکی حسن اخلاق کا نام ہے اور برائی وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تمہیں ناپسند ہو کہ لوگ اسے جانیں۔“ اخلاق کا لفظ ذہن میں آتے ہی ایک ایسا خاکہ ابھر کر سامنے آجاتاہے کہ جس کو ہر آدمی اپنانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ اخلاق انسان کاایک ایسا جز ہے کہ جس کے اندر یہ صفت پائی جاتی تو سمجھ لیجئے کہ وہ کامل انسان ہے، اخلاق ایک ایسی دوا ہے جو دل و دماغ دونوں کو غذا پہنچاتا ہے،حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی صحابی اور وفادار خادم تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور آپ کی سیرتِ مبارکہ کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے پورے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا اور میرے کسی کام پر یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ محاسن اخلاق کے حامل تھے۔حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ قریب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار اور اخلاق واعمال کے مشاہدے کا موقع ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو میسر آیا تھا کیوں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقہئ حیات تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ظاہری اور خانگی معمولات و عادات سے واقف تھیں۔ ایک مرتبہ چند صحابی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے امّ المومنین! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور معمولات بیان فرمائیے۔ تو عائشہ صدیقہ ؓنے جواب دیا کہ کیا تم لوگوں نے قرآن نہیں پڑھا؟ کان خلقہ القرآن ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا“ یعنی قرآنی تعلیمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار میں رچی اور بسی ہوئی تھیں۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ذرا بھی منحرف نہ تھے۔ خود قرآن کریم میں آپ کے بلند اخلاق و کردار کی شہادت دی گئی ہے کہ ”بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں“ (سورہ القلم آیت:۴)رشتہ داروں میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جو بچپن سے جوانی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طبیعت کے نرم اور اخلاق کے نیک تھے، طبیعت میں مہربانی تھی سخت مزاج نہ تھے۔ کسی کی دل شکنی نہ کرتے تھے، بلکہ دلوں پر مرہم رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رؤف و رحیم تھے۔ (شمائل ترمذی) ابوسفیان جو غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ خندق وغیرہ میں لڑائیوں کا سرغنہ تھا۔ جس نے نہ جانے کتنے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرایا، کتنی دفعہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا فیصلہ کیا، جو ہر ہر قدم پر اسلام کا سخت ترین دشمن ثابت ہوا، لیکن فتح مکہ کے موقع پر جب حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتاتھا تو اس کا ہرجرم اس کے قتل کا مشورہ دیتا ہے۔ مگر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اور عفو عام ابوسفیان سے کہتے ہیں کہ ڈر کا مقام نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقام کے جذبہ سے بالاتر ہیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف ان کو معاف فرمادیا بلکہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ”من دخل دار أبی سفیان کان آمناً“ جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا اس کو بھی امن ہے۔بلند اخلاق کی ایسی جیتی جاگتی، دائمی اور عالم گیر مثال کیا کوئی پیش کرسکتا ہے یا دنیا نے اپنے معرض وجود کے دن سے اب تک ایسی نظیر دیکھی ہے؟ ہرگز نہیں! یہ فضل خاص ہے جو اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیاتھا رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی ذمہ داری قرآن کی تلاوت اوراس کی تعلیم تھی اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس کا عملی نمونہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ قرآن کو راہِ راست کی ضمانت قرار دیتا ہے ”بیشک یہ قرآن سیدھے راستے پر گامزن کرتا ہے“ (سورہ بنی اسرائیل) اور دوسری طرف آنحضور صلی للہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو نمونہئ زندگی بنالینے کی تلقین کرتا ہے کہ تمہارے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے مگر اس شخص کے لئے جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے اور کثرت سے ذکر خدا کرتاہے۔ (سورہ احزاب)آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس قرآن کی تعلیم فرماتے اپنی عملی زندگی میں اس کو قابل تقلید بناکر پیش کرتے قرآن کے بعد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صاحب قرآن کی سیرت مبارکہ ہے پیغمبر اسلام کی سیرت واخلاق کی عظمت کے آگے بڑے بڑے حکماء اور معلّمین سرنگوں نظر آتے ہیں اور ان کے قول وعمل کی صداقت سے سند حاصل کیے بغیر دنیا کا کوئی انسان اخلاق کے اعتبار سے بڑا نہیں بن سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مثالی نمونہ بناکر دنیا میں بھیجا ہے اور لوگوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ، ہر دور، ہر حال میں اس نمونہ کے مطابق خود بھی بنیں اور دوسروں کو بنانے کی فکر کریں۔ گویا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق و سیرت ایک حیثیت سے عملی قرآن ہے۔یہ نبی کریم ﷺ کے اخلاق حسنہ ہیں آپ نے امت کو انہیں اخلاق حسنہ کی تعلیم دی ہے،ضرورت اس بات ہے کہ ہم سب اپنی زندگیوں کو ان اخلاق حسنہ سے متصف کریں،آج جو دنیا میں نبوی تعلیمات کا مذاق اڑایا جارہا ہے،لوگوں کو یہ جو جرأت ہورہی ہے کہ وہ گستاخانہ کلمات آپ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کررہے ہیں اس کی کہیں نا کہیں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو مکمل اخلاق نبوی سے متصف نہیں کیا نتیجتاً دشمنان نبوت نے یہ سمجھ لیا کہ مسلمانوں کو نبی اکرم سے اب اس درجہ محبت باقی نہیں رہی جس درجہ کی محبت پہلے کے مسلمانوں کو تھی۔ہمیں آج ”نبی رحمت“کمپین کے ذریعہ لوگوں کو یہ بتانا اور سمجھانا ہوگا کہ عشق نبی کا تقاضا یہ ہے کہ نبوی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں مکمل طور پر اتارا جائے اور آپ کی تعلیمات سے لوگوں کو واقف کرانے کے ساتھ خود بھی ان پر عمل پیرا ہوا جائے۔آئیے آج عہد کریں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے بتائیے ہوئی تعلیمات پر خود بھی عمل کریں گے اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کی تلقین کریں گے انشاء اللہ۔

Comments are closed.