Baseerat Online News Portal

نتیش کمار: دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

 

ڈاکٹر سلیم خان

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سوچ رہے ہوں گے کہ اگر ہار جاتے تو اچھا تھا کیونکہ اس بار سرکار کا مہورت ہی غلط نکل گیا ورنہ ایسا تو فلموں میں بھی نہیں ہوتا کہ اپنی حلف برداری کے تیسرے دن کوئی وزیر اپنا عہدہ سنبھالے اور تین گھنٹے کے اندر استعفیٰ دے کر چلتا بنے۔ لالو پرساد یادو کی پندرہ سالہ قدیم  بدعنوانی سے ڈرانے  والی این ڈی اے کا یہ حال ہوگا یہ تو کسی کے خواب و خیال  میں بھی نہیں تھا ۔ یہ تو ایسا ہوا کہ فٹ  میچ کے پہلے تین منٹ میں ہی گول ہوگیا یا  کرکٹ میچ کی تیسری   ہی گیند پر بال کو صرف    باونڈری سے نہیں بلکہ اسٹیڈیم سے باہر اچھال دیا گیا ہو ۔ نتیش کی ٹیم کا ایک بلہ باز تو ہٹ وکٹ ہو کر اسٹیڈیم لوٹ چکا ہے۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ کپتان  کب اور کیسے  واپس آتا ہے ؟ نتیش نے کہا تھا کہ انت بھلا تو سب بھلا۔ ایسا لگتا ہے کہ نتیش کا انت بھی لالو کے ساتھ جیل میں ہوگا ۔ بی جے پی جب اپنے دیرینہ رفیق  کو جیل بھیج کر اپنی شرافت کا تمغہ حاصل کرے گی  اور جیل کے اندر اپنے پرانے دوست کا استقبال میں  لالو پرساد  یادو یہ شعر پڑھیں گے ؎

قیس جنگل میں اکیلا ہے اسے آنے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں       گے دیوانے دو

1997 میں اگر لالو پرساد یادو نے رابری دیوی کے بجائے نتیش کمار کو بہار کا وزیر اعلیٰ بنایا ہوتا تو  اور ملائم سنگھ یادو نے وی پی سنگھ کا ساتھ نہیں چھوڑا ہوتا توبعید نہیں کہ آگے چل کر  ان میں سے ایک  ہندوستان کا وزیر اعظم بنتا ۔ ان دونوں نے رہنماوں نے اپنی کوتاہ نظری اور  اقربا پروری  میں پیروں پر کلہاڑی مارلی اور دشمنوں کی راہ آسان کردی ۔ بہار میں اس بار جہاں بی جے پی نے بارہویں پاس  دولوگوں کو نائب وزیر اعلیٰ بنایا وہیں نتیش کمار نے  اپنے کوٹے میں  سے دو ڈاکٹریٹ اور دو پوسٹ گریجویٹ لوگوں کو وزارت سونپی ۔ نہ جانے کیا سوچ کر انہوں نے  وجیندر پرساد یادو کو بھی وزیر بنایا  ورنہ ان کو بی جے پی پر یہ امتیاز حاصل ہوتا کہ وہ تعلیم یافتہ لوگوں کو موقع دیتے ہیں۔  بی جے پی اور جے ڈی یو وزراء میں ایک فرق یہ بھی  ہے کہ اولذکر کے 7میں پانچ کے خلاف فوجداری کے مقدمات درج ہیں جبکہ جے ڈی یو کے 6 میں سے صرف دو کے خلاف ایسے معاملے ہیں ۔ جے ڈی یو کے دو میں سے ایک تو خود نتیش کمار ہیں جن پر ایک کریمنل کیس ہے اور دوسرے  ڈاکٹرمیوالال چودھری  جو اب تھے ہوچکے ہیں ۔ پہلے ہی دن رشوت ستانی کے  الزام میں ان  کی وداعی پر یہ شعر صادق  آتا ہے ؎

اے تازہ واردان بساط ہوائے دل

زنہار اگر تمہیں ہوس نائے و نوش ہے

ڈاکٹرمیوا لال چودھری تو عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں بعد فارغ ہو  کر چلے گئے مگر ان  جانے کا کسی افسوس نہیں ہوگا ۔ اس لیے ڈاکٹریٹ کی ڈگری اور وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود ان  کو قومی ترانہ تک  یاد نہیں تھا  اور ایسے میں جبکہ بہار کے اندر پڑھائی، کمائی ، سینچائی اور دوائی کا نعرہ گونج رہا ہے وہ بیچارے کرتے بھی تو کیا کرتے؟ فی الحال سماجی رابطوں کی ذرائع ابلاغ میں ان کا ایک  ویڈیو گردش کررہا ہے جس میں وہ مسلم طلبا کے درمیان کسی اسکول یا مکتب میں قومی ترانہ پڑھتے ہوئے لڑکھڑا رہے ہیں۔  قومی پرچم کے سامنےوندھیہ ہماچل یمونا گنگا کے بعد اِچھلّ جلدی ترنگا کے بجائے ’گائے گنگا‘ بولتے نظر آتے ہیں۔  اس کے آگے کی سطریں بھول کر وہ ’جئے ہے‘  کے بجائے جئے ہو جئےہو کہہ کر بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگوانے لگتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ میوا الال کو رابندر ناتھ ٹیگور کے بجائے اے آر رحمٰن سے زیادہ انسیت ہے۔ ویسے ہندوستان کے بیشتر لوگ قومی ترانہ کے معنیٰ نہیں جانتے لیکن اس کے باوجود بچپن سے سنتے سنتے یہ سبھی کو زبر ہوچکا ہے اس کی بعید نہیں کہ ڈاکٹر صاحب لال پری کے زیر اثر لڑکھڑا گئے ہوں ۔ وہ تو کسی کمبخت نے ویڈیو بناکر یہ راز فاش کردیا ورنہ غالب تو یہ کہہ چکے ہیں  ؎

مے نے کیا ہے حسن خود آرا کو بے حجاب

اے شوق! ہاں اجازت تسلیم ہوش ہے

  اس ویڈیو کو ٹوئٹر پر شیئر کرکے راشٹریہ جنتا دل والے  نتیش کمار کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔   میوالال کے استعفیٰ پر تیجسوی یادو نے ٹویٹ کیا ہے کہ ’’میں نے کہا تھا آپ تھک چکے ہیں اس لیے سوچنے سمجھنے قوت شل ہوچکی ہے۔ جان بوجھ کر ایک بدعنوان کو وزیر بنایا، تھوتھو کے باوجود  عہدہ سنبھالنے گھنٹے بھر بعد استعفیٰ کا ناٹک رچایا۔ آپ قصوروار ہیں۔ آپ نے وزیر کیوں بنایا ؟ آپ کا دوغلا پن اور نوٹنکی اب چلنے نہیں دیں گے۔  سابق آئی پی ایس افسر امیتابھ کمار داس کے ایک خط پر اس قدر جلد گھبرا کر اپنے وزیر سے استعفیٰ لے لینا اول تو تیجسوی کے تھکنے والے بیان کی تصدیق کرتا ہے نیز نتیش کمار کی کمزوری بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی نے اس کے لیے ان پر دباو ڈالا ہو بلکہ بعید نہیں کہ  امیتابھ داس سے خط بھی  بی جے پی  نے  ہی لکھوا کر ذرائع ابلاغ میں ہلاّ مچایا  ہو اس لیے کہ استعفیٰ کے فوراً بعد میڈیا کو بالکل سانپ  سونگھ گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کچھ ہوا ہی نہیں   ۔ نتیش کمار کا چہیتا وزیر داغِ مفارقت دے کر کابینہ سے روانہ ہوگیا اور ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے؎

داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

   نتیش کمار کے گرد  بی جے پی کے تنگ ہونے والے گھیرے میں  میوا لال  دوسرا شکار ہے ۔ اس سے پہلے نتیش کی دوستی کے سبب بی جے پی نے اپنے ہی سابق نائب  وزیر اعلیٰ  سشیل مودی کو ٹھکانے لگا دیا۔ سشیل مودی کا پہلا قصور تو یہ ہے کہ انہوں نے 2012 میں نتیش کمار کو وزیر اعظم بننے کی قابلیت رکھنے والا رہنما کہا تھا ۔ وزیر اعظم مودی اس تبصرے کو کبھی نہیں بھول سکتے ۔ اس کے بعد  جب نتیش  لوٹ کر این ڈی اے میں آئے تو انہوں نے سشیل کمار کو نائب بنانے کی شرط رکھی  اور بی جے پی کے سارے وزیر ان کی سفارش پر بنائے۔ یہی وجہ ہے  سشیل مودی  وقتاً فوقتاً نتیش کمار کی تعریف کرتے رہے تھے۔ اس بات کو بی جے پی ہائی کمان مجبوری میں برداشت کرتا رہا اور موقع ملتے ہی اس نے سشیل کے پر کتر دیئے۔  سشیل مودی کے معاملے میں مودی اور شاہ کا معاملہ غالب کے اس شعر میں ساقی اور مطرب کی دشمنی  و رہزنی  جیسا ہے؎

ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان و آگہی

مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے

سشیل مودی نے اپنا عہدہ چھوڑتے ہوئے جو پیغام لکھا اس میں دو باتیں ان کا درد بیان کرتی ہیں۔ پہلے تو انہوں نے بی جے پی  کے بجائے آر ایس ایس کی احسانمندی  کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ سنگھ نے مجھے اتنا دیا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ اس کے علاوہ وہ بولے ایک کارکن کا عہدہ کوئی مجھ سے چھین نہیں سکتا ۔ اس جملے لفظ چھین کا استعمال اشارہ کرتا ہے کہ نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ ان سے چھین لیا گیا ہے۔نتیش کمار کو ہٹانے سے قبل ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اتنا رسوا کیا جائے گا کہ کسی کو ان کے ہٹائے جانے پر افسوس نہیں  ہو گا  بلکہ لوگ چین کا سانس لیں گے۔ نتیش نے کہا تھا ’انت بھلا تو سب بھلا‘ لیکن  ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی ان خاتمہ بالخیر کرنے کے بجائے انہیں ذلت و رسوائی کی گہری کھائی میں پھینکے بغیر نہیں مانے گی ۔   اس  انجام بد سے بچنے کے لیے  ان کے پاس وہی ایک راستہ  ہے جومہاراشٹر میں شردپوار نے اختیار کیا یعنی  وہ مہابھارت کا ارجن بننے کے بجائے بھیشم پتامہ بن گئے۔  یہ بات اگر نتیش کمار کی سمجھ میں آجائے اور وہ ادھو ٹھاکرے کی مانند تیجسوی یاد وکو وزیر اعلیٰ بناکر حکومت کے سرپرست بن جائیں تو ان کا احترام بڑھ جائےگا اور ’انت بھلا‘ (خاتمہ بالخیر) ہوجائے گا ورنہ ان کا انجام گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ شنکر سنگھ واگھیلا سے بھی برا ہوگا اور لوگ انہیں دیکھ کر یہ  مرزا غالب کا یہ شعر پڑھیں گے؎

دیکھو مجھے جو دیدہء عبرت نگاہ ہو  
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہو

Comments are closed.