Baseerat Online News Portal

نسلوں کو پروان چڑھانے والی ماں کی ذہنی صحت 

ام مسفرہ مبشرہ کھوت

ایک عورت مختلف جذبات کا پتلا ہوتی ہے ۔ جہاں وہ محبت، اپنایت، انسییت کی مورت ہوتی ہے وہی غصہ،نفرت،حسد دل میں لیے آگ میں سلگتی ہوئی لکڑی کی طرح۔ کبھی ہو لے ہو لے شفقت، چاہت ،  ہمدردی سے اپنا رنگ جماتی ہے کبھی چڑچڑے پن ، شک و بد گمانی، منہ پھٹ پن کی وجہ سے رشتے خراب کردیتی ہے ۔ جیسی بھی ہوتی ہے عورت قوس قزح کی طرح الگ الگ رنگوں کی مالک ہوتی ہے۔ گزرتی زندگی کے ساتھ ہر قسم کے تجربات حاصل کرتے کرتے اسکے احساسات بدلتے جاتے ہیں۔وہ ہر روپ میں انوکھی ہوتی ہے۔ اسکا ہر کردار اپنی جگہ بنائے رکھتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی کردار کسی کی زندگی میں نہ ہو مگر ماں اسکا ایک ایسا روپ ہے کہ جس کے سوا وجود ہی نہیں۔ 

ہر عورت کی زندگی میں ماں کا رول سب سے بڑا ہو تا ہے۔سب سے زیادہ ذمہ داری کا رول۔ جس میں وہ طرح طرح کی تکلیفوں سے گزر کر زندگیاں جنم دیتی ہے قومیں کھڑی کرتی ہے۔شادی کے بعد نئے ماحول سے موافقت کرنے  کے لئے الگ تگ ودگ کرنی پڑتی ہے اور پھر حمل جہاں خوشیوں کا پیکیج ہو تا ہے وہی آزمائشیوں سے بھرا بھی اور  پھر بچے کے بعد کا دور الگ۔ یہ سارے ادوار سے گزر کر عورت یا تو نکھارتی ہے نکھرتی ہےیا پھر بکھارتی ہے بکھرتی ہے ۔ آبادی بربادی اس کے صبر و تحمل، قوت برداشت،  سمجھداری اور عقل مندی پر مبنی ہے۔ہمارے ملک و سماج میں عورت سے ہر روپ میں ہی بہت سی امیدیں ہوتی ہیں اور خصوصا ماں کو نہ جانے کونسی دیوی سمجھتے ہیں۔ ہر معاملے کی ذمہ دار،  ہر جگہ جوابدار،  ہر سطح پر کامیاب مکمل اور بھی بہت کچھ ۔ اور ان اونچی باتوں میں ایک ماں کی مینٹل ہیلتھ کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی جسکی برسوں سے ضرورت ہے۔

ماں سب کو سمجھتی ہے کوئی اسے بھی سمجھے! حمل  کے دوران ہارمونل چینجزکی وجہ سے عورت کے جذبات اور کیفیت بدلتے رہتے ہیں۔ مختلف اندیشے اسے گھیر لیتے ہیں۔ کبھی  وہ جسمانی تبدیلی کی وجہ سے عجیب محسوس کرتی ہے ، تو کبھی  مستقبل سے گھبراتی ہے، وہ خوش بھی ہوتی  ہے مگر وہ ذمہ داری سے ڈرتی بھی ہے ۔بچے کی پیدائش کے  بعد بہت سا  وقت بچے میں چلا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عورت محسوس کرتی ہے کہ اب اس کا وجود ختم ہو گیا اب زندگی اس کی نہیں رہی۔ ماں بننا مطلب  کھانے پینے کی قربانی،  نیند کی قربانی، صحت کی قربانی، وقت کی قربانی، زیب و آسائش کی قربانی۔ گویا  زندگی میں  بہت بڑی تبدیلی! پھر قربانیاں الگ ذمہ داریاں الگ۔ بچے کے سارے کام کرنا، اس کی ساری ضرورتوں کا خیال رکھنا، اس کی تربیت کرنا، اس کی  زندگی سنوارنا، اس میں عورت بہت تھک جاتی ہے۔ ذرا ان  معاملات کو قریب سے دیکھے تو بچے کے نازونعم، ہر طرح کے نخرے، ضدیں، رونا دھونا، چیخنا چلانا سب نظر آئے گا۔ ماں بھی انسان ہی ہوتی ہے اس کا صبر بھی ٹوٹ  سکتا ہے  وہ ذہنی کشمکش میں  مبتلا ہوسکتی ہے۔ آجکل  بچوں کی تربیت  کے تعلق سے سے بہت سی باتیں ہو رہی ہیں۔ اشد ضروری ہے کہ نسلوں کو  پروان چڑھانے والی ہستی بھی ذہنی طور پر پر صحت مند ہو۔ اگر ایک ماں  ذہنی  طور پر صحیح طبیعت  نہیں رکھتی تو وہ اچھے بچے نہیں رکھتی! اچھے بچے سے مراد صحت مند، با اخلاق باکردار ،خاندان و ملت کے لیے مفید نسل۔

اگر بحیثیت ماں کوئی کامیاب بننا چاہتی ہو تو اس سے رشتہ گہرا کر دو جو ستر ماؤں کی محبت رکھتا ہے ۔اپنی ہر فکر کو اسے سونپ دینا ،اس سے خوب دعائیں کرنا ، ذمہ داریاں ادا کرنے میں اس کی مدد مانگنا۔ اولاد  اللہ کی نعمت ہے اس بارے میں شکر ادا کرتے رہنا اور ان کے تعلق سے سے حساب بھی ہوگا اس لیے تقوی اختیار کرنا۔ بے شک مومنوں کے دلوں کو اللہ کی یاد سے ہی سکون ملتا ہے۔ اگر گزرتی زندگی  کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ  ایک ماں خود کو مایوس محسوس کر رہی ہے تو عظیم ماؤں کے قصوں کا مطالعہ کریں اور ہمت باندھیں۔مثبت روی اختیار کریں۔ آج کل اسٹریس مینجمنٹ، اینگر مینجمنٹ، ٹائم مینجمنٹ، شخصیتی ارتقاء کے ورکشاپس کی بھی سہولتیں موجود ہیں جو ڈپریشن سے بچاسکتی ہیں۔ علاوہ ازین ماؤں کے مسائل پر کئ کتابیں اور لیکچرز موجود ہیں ۔

بچوں کے  والد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ  وہ اپنی بیوی کو بچوں کی نگہداشت  کے معاملے میں کبھی اکیلا نہ چھوڑے ۔دونوں  مسائل پر گفتگو کریں اور مل کر حل تلاش کریں۔ بیوی جو بھی آپ کے بچوں کے لیے کرتی ہے اس کی قدر کریں ۔اس کے مزاج کی تبدیلی کو سمجھ کر لے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کے وہ احساس ناکامی  لیے بیٹھی ہو تو  اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ جو باپ اپنی اولاد لیے واقعی فکر مند ہو گا  سب سے پہلے ان کی امی کا خیال رکھے گا۔ ماں کے آس پاس موجود بزرگ افراد اپنے تجربات اور ترکیبات بانٹ  سکتے ہیں۔بچے بڑے ہونے کی بعد سمجھداری کی ایک حد کو پہنچ جاتے ھیں جب وہ بھی  ماں کے لیے لیے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ماں  قوم کی معمار ہوتی ہے۔ بچے کی نگہداشت و تربیت کرنا جوئے شیر لانے کے مصداق ہے۔ اگر اس دوران کسی بھی قسم کے ذہنی تناؤ کا شکار ہو جائے تو اطراف کے افراد باشعور بنکر اسکا ساتھ دیں۔

Comments are closed.