Baseerat Online News Portal

نسلی تعصب

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڑیسہ وجھارکھنڈ
۲۵؍ مئی ۲۰۲۰ء کو جارج فلوئیڈ مینے سوٹا میں ڈریک شوون کے تشدد کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا، ڈریک شوون نے آٹھ منٹ چھیالیس سکنڈ تک اس کا گلا دبا کر موت کے گھاٹ اتار دیا ، وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں، میرا دم گھٹ رہا ہے (I CAN NOT BREATH)ٰؒلیکن اس گورے پر نسلی عصبیت اس قدر غالب تھی کہ اس کالے کی وہ ایک بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہوا، بات معمولی سی تھی جارج فلوئیڈ نے ایک ڈبہ سگریٹ لیا تھا اور دوکاندار نے بیس ڈالر کے اصلی نوٹ کو جعلی سمجھ کر اسے پولیس کے حوالہ کر دیا تھا ۔
امریکہ کے تیرہ فی صد سیاہ فام باشندوںنے اس ظلم کو برداشت نہیںکیا اور سڑکوں پر نکل آئے، امریکہ کے ہر بڑے شہر میں اجتماع، مظاہرے ہوئے، عام زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئی ، مظاہرین وہائٹ ہاؤس کے قریب جمع ہو گیے اور امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو بال بچوں کے ساتھ ڈھائی گھنٹہ تک بیرک میں چھپنا پڑا، ڈونالڈ ٹرمپ کے الٹے سیدھے بیان پر ایک پولس افسر نے انہیں کہا کہ’’ اگر آپ کچھ اچھا بول نہیں سکتے تو اپنی زبانیں بند ہی رکھیے‘‘۔ فرانس اور کناڈا میں بھی اس ظلم کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے ۔
امریکہ میں پولیس کے ذریعہ ظلم کی یہ پہلی کہانی نہیں ہے ، ’’میپنگ پولیس وائلنس ‘‘ ویب سائٹ کی معلومات کو صحیح قرار دیں تو امریکہ میں روزانہ تین افراد اوسطا پولیس کی گولی سے مرجاتے ہیں، ۲۰۱۹ء میں دس سو ننانوے(۱۰۹۹) افراد پولیس کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، تیرہ(۱۳) فی صد ہونے کے با وجود مرنے والوں میں سیاہ فام لوگوں کا تناسب چوبیس فی صد تھا۔نسلی تعصب کی وجہ سے یہاں انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی ہوتی رہی ہے ، چاہے ۱۹۲۱ء کا ٹلسا فساد ہو یا ۱۹۱۹ء کا شکاگو فساد، ۱۹۴۳ ء میں ڈیٹڈ رائٹ فساد ہو یا ۱۹۶۳ء کا نیو یارک تشدد، سب کی جڑمیں یہی نسلی تعصب کا رفرما رہا ہے۔
امریکہ میں نسلی تعصب اس قدر شدید ہے کہ جو لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں انہیں بھی ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے ، امریکہ میں غلامی کے خاتمہ کے سو سال بعد ۲۸؍ اگست ۱۹۶۳ء کومارٹن لوتھر کنگ جونیرنے اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور ان کی شہرہ آفاق تقریر ’’میرا ایک خواب ہے‘‘ کو سننے کے لیے ڈھائی لاکھ لوگ واشنگٹن ڈی سی میں جمع ہوئے تھے، لیکن ۱۹۶۸ء میں مارٹن لوتھر موت کے گھاٹ اتار دیے گیے ، سابق صدر بارک اوباما کا تعلق گوروں کی نسل سے نہیں تھا، ایسے میں امید بندھی تھی کہ حالات بدلیں گے اور ان کے دور اقتدار میں نسلی تعصب اختتام کو پہونچے گا ، لیکن وہ بھی اس پر قابو نہیں پا سکے ، ان کے عہد حکومت میں نسلی تعصب کے خلاف کام کرنے والے ایرک گارنر کو بھی جارج فلوئیڈ کی طرح ہی مار ڈالا گیا تھا اور اس کے بھی آخری الفاظ یہی تھے کہ’’ میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں‘‘۔
اس مظاہرہ کا ایک قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میںجو پلے کارڈ اٹھارکھا تھا ، اس میں بعض پر لکھا ہوا تھا کہ ’’ ہم عرب نہیں کہ مارتے رہو اور خاموش رہیں (WE ARE NOT ARABS TO KILL US AND KEEP SILENT)) یہ جملہ عربوں کی صحیح صورت حال کی عکاسی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ عرب والے مغرب سے کس قدر خوف زدہ ہیں کہ ایسے موقعوں سے آواز ان کے گلے میں دب جاتی ہے ، اس پلے کارڈکا مطلب یہ ہے کہ ہم بزدل نہیں ہیں اور ہم عربوں کی طرح اپنے ساتھیوں کی موت پر خاموش نہیں رہ سکتے ہیں۔
امریکہ میں دستوری طور پر کالوں کو مساویانہ حقوق دیے گیے ہیں، ابراہیم لنکن کے زمانہ میں ۱۸۶۱سے ۱۸۶۵ء تک امریکہ میںجو خانہ جنگی ہوئی اس کی بنیاد بھی سیاہ فام شہریوں کے حقوق تھے، یہ لڑائی زمانہ دراز تک جاری رہی اور بالآخر ۱۸۹۶ء میں سیام فام تمام شہری حقوق کے حصول میں کامیاب ہو گیے ، لیکن امریکہ کے گوروں کی ذہنیت نہیں بدلی، وہ آج بھی سیام فام لوگوں کو اپنے سے الگ سمجھتے ہیں اور ان کو پریشان کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔
یہی حال اسرائیل میں یہودی ، مینمار میں بدہسٹ ، جرمن میں نازی اور ہندوستان میں برہمنوں کا رہا ہے ، ان کے نسلی تعصب اور تفاخر نے ان ملکوں میں جو انسانیت کے خلاف طوفان بد تمیزی برپا کررکھی ہے وہ کسی پڑھے لکھے آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
اس ذہنیت کو بدلنے کے لیے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا حجۃ الوداع کے موقع سے خطاب کے اس جملے کو یاد رکھیے کہ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر اور کسی احمر کو اسود پراور کسی اسود کو احمر پر فضیلت حاصل نہیں، افضل وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے ،رنگ ونسل اور ذات پات کی بنیاد پر اعلیٰ ادنیٰ کی تقسیم اکرام انسانیت کے خلاف ہے، یہ محض خاندان وقبائل کے تعارف کا ذریعہ ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں، واقعہ یہی ہے کہ اللہ کا خوف ، اللہ کی خشیت اور اللہ کا ڈر یہ ’’ماسٹر کی‘‘Master key)ہے ، شاہ کلید ہے، بغیر اس کے نسلی تعصب وتفاخر کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔

Comments are closed.