Baseerat Online News Portal

نظریہ بدلو ؛ سوچ بدلو … نور اللہ نور

نظریہ بدلو ؛ سوچ بدلو …

نور اللہ نور

معاشرے کا ہر فرد تحفظ خواتین پر بڑے بڑے لیکچر دیتا ہے تحفظ نسواں کے تئیں ہر ایک متفکر نظر آتا ہے ؛ تحفظ نسواں کے حقوق کے لیے بڑی بڑی تنظمیں اور این جی او کا قیام عمل آتا ہے مگر ہمارا معاشرہ عملی پہلو سے اس جانب کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہم نے حقوق نسواں سے متعلق ادارے قائم کر دیئے مگر وہ غلاظت اور غلیظ سوچوں کے سد باب کے لئے ہم نے کوئ پہل نہیں کی جو معاشرے میں عورتوں ؛ ماؤں ؛ اور بہنوں کے متعلق کچھ غلیظ قسم کے مردوں کے ذہنوں میں ہے ہم کہتے ہیں کہ ہم نے بہت ترقی کر لی یورپ و امریکہ ہم سے پیچھے ہوگئے مگر حقیقت یہ کہ ہم اخلاقی پستی و زبوں حالی کے معاملے میں ہم ان سے بھی آگے نکل گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب خواتین اپنی ضرورت و مجبوری کی وجہ سے بازاروں میں نکلتی ہیں تو وہ چاہے با شرع حجاب و برقعہ میں ہو یا مشرقی کلچر کے گھونگھٹ میں شاہراہوں ؛ دفاتر ؛ اور آفسوں میں موجود ہوس کے پرستار ہوس بھری نگاہوں سے ان خواتین کا تعاقب کرتے ہیں اس سے پرے کہ وہ بھی کسی کا بیٹا ؛ بھائی اور شوہر ہے ؛ ہم معاشرے میں دنیاوی اسباب اختیار کیے مگر اخلاق و کردار کی درستگی کے عمل سے بے خبر رہے ہم قانونی اختیارات عورت کے حق میں مہیا کرادیا مگر وہ نظریہ جو ہمارے معاشرے کا ہر عورت کے بارے میں خواہ وہ عفیفہ ہو یا طوایفہ کے لیے بن چکا ہے ہم نے اس خیال و افکار کی بیخ کنی نہیں کی اور اس کا سد باب نہیں کیا ہمارے معاشرے و سماج کا المیہ یہ ہے کہ کہ اگر آج بازار میں ایک حسین و جمیل نقاب پوش دوشیزہ آجائے تو تو اس سے پرے کہ وہ کسی کی بہن ؛ بیٹی ؛ بیوی ہے اپنی نگاہ کو تسکین پہونچاتے ہیں اس موقع پر خرد و کلاں ؛ پیر و جواں کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے آج آئے دن جو عصمت دری و درندگی کا ننگا ناچ ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تو قانون بہت بنایا مگر وہ انسانی آلائش و گندگی سے سماج کو پاک نہ کرسکے جس کی وجہ سے یہ مرض پھیلتا پھولتا جا رہا ہے ان شاہراہوں ؛ دفاتر ؛ آفسوں میں موجود اور ریپسٹ سے ایک سوال ہے کہ جسم کی جو ساخت و بناوٹ تمہارے گھروں میں موجود بہو بیٹیوں کا وہی بناوٹ تو اس راہ چلتی خاتون کا بھی ہے مگر دونوں کے متعلق تمہارا نظریہ اور تمہاری سوچ کیوں بدل جاتی ہے اگر تمہاری بہنیں ؛ بیٹیاں عزت کی مستحق ہیں تو ان کا بھی انہیں حق دو اور جو خیال اور پاکیزگی اپنوں کے متعلق ہے وہی پاکیزگی اور تحفظ کا احساس دوسری بیٹیوں کو بھی دو اخلاقی پستی و انحطاط سے پیچھا چھڑا کر سب کو عزت دو اپنے سوچ و فکر کا پہلو سب کے لیے مساوی رکھو اپنی سوچ و فکر بدلو جیو اور جینے دو ..

Comments are closed.