Baseerat Online News Portal

نظر ثانی عرضی: مدعی انصاف سے محروم کیسے ہو گیا

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
۱۱؍۹ کو عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے بابری مسجد سے متعلق فیصلہ سنا دیا ، ماہرقانون داں سابق ججیز اور عام تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مدعی کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکا، کیوں کہ فیصلہ ثبوت وشواہد دلائل سے جس نتیجہ پر عدالت پہونچی اس کے بر عکس آیا، عدالت مانتی ہے کہ مسلمان اس مسجد سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے ، یہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی ، آثار قدیمہ کے ذریعہ کھدائی میں کوئی ایسی چیزنہیں ملی ، جس سے ثابت ہو کہ مسجد سے پہلے وہاں مندر کی عمارت تھی، ۱۹۴۹ء میں مورتیاں رکھنا اور ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو اسے زمین بوس کر نا غیر قانونی عمل تھا ، ان نتائج کا حاصل تو یہ تھا کہ مسجد کے حق میں فیصلہ ہوتا اور اس وقت کے وزیر اعظم نر سمہا راؤ کے وعدہ کے مطابق مسجد تعمیر کرکے حکومت مسلمانوں کے حوالہ کرتی ، لیکن فیصلہ میں ان تمام حقائق کو تسلیم کرنے کے با وجود زمین رام للا کو شخصیت عرفی مان کر حوالہ کر دی گئی اور مسلمانوں کو اس زمین سے بے دخل کر دیا گیا ، جس پر وہ اللہ کے دربار میں صدیوں سجدہ ریز ہوتے رہے تھے، ہر چند کہ مسلمانوں نے اس فیصلہ پر انتہائی صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ، عدالت کے وقار واحترام میں وہ چپ بھی رہے، اور پورے ملک میں کہیں سے بھی کسی نا خوش گوار واقعہ کی خبر نہیں آئی،پھر دھیرے دھیرے انصاف پسند غیر مسلم وکلاء ، ماہرین قانون ، سابق ججیز اور عام تجزیہ کاروں کی طرف سے آوازیں اٹھنے لگیں اور فیصلہ کا کھلا ہوا تضاد لوگوں کے سامنے آنے لگا۔
ان حالات میں ۱۱ ؍۱۷ کو ممتاز ڈگری کالج لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بوڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا، جس میں ان لوگوں کو خصوصیت سے مدعو کیا گیا تھا جو اس مقدمہ کے مدعی تھے، پہلے یہ اجلاس دار العلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ میں منعقد ہونا تھا ، لیکن اپنوں کی سازش کے تحت حکومت نے وہاں میٹنگ منعقد کرنے سے منع کیا ، بلکہ دھمکیاں بھی دیں، چنانچہ بعجلت تمام اسے ممتاز ڈگری کالج منتقل کیا گیا ، اور الحمد للہ بڑے پر سکون ماحول میں وہاں عاملہ کی میٹنگ منعقد ہوئی ، اس مقدمہ سے متعلق اقبال انصاری میٹنگ میں نہیں پہونچے اور سنی وقف بورڈ نے بھی میٹنگ میں شرکت سے گریز کیا، اقبال انصاری اجودھیا میں رہتے ہیں، ان کے والد محمد ہاشم انصاری پوری زندگی اس مقدمہ کو لڑتے رہے، جاتے وقت بیٹے کے حوالہ کر گیے ، اجودھیا کے باہر کے مسلمان جب بابری مسجد کے حوالہ سے خوف ودہشت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اقبال انصاری کی پوزیشن ہر آدمی محسوس کر سکتا ہے ، خبر ہے کہ حکومت کی جانب سے ان پر بے پناہ دباؤ تھا کہ وہ اس میٹنگ میں شریک نہ ہوں ، رہ گیا سنی وقف بورڈ تو اس کا کردار پہلے سے مشکوک رہا ہے، اس کے چیرمین ظفر فاروقی ایک سرکاری ادارہ کے سر کاری ذمہ دار ہیں ، سرکاری ادارے اور عہدے سرکار کے چشم وابرو سے چلتے اور ملتے ہیں، ظفر فاروقی میٹنگ شریک ہو کر اپنی کرسی گنوانا نہیں چاہتے تھے اور لکھنؤ آکر اپنے کردار کے بارے میں تبصرہ نہیں سننا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ شریک نہ ہوں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بیشتر اراکین عاملہ اور مدعوئین خصوصی نے اس میٹنگ کی اہمیت کو سمجھا اور شریک ہوئے، بحث وتمحیص ہوئی، ایجنڈا پر گفتگو ہوئی ، بورڈ نے طے کیا کہ پانچ ایکڑ زمین نہیں لی جائے گی اور فیصلہ میں تضادات کے پیش نظر عدالت سے نظر ثانی کی درخواست کی جائے گی ، نظر ثانی کی اس درخواست کو قانون کی زبان میں ریویو پیٹیشن سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
ریویو پٹیشن سپریم کورٹ کے ہر اس فیصلے کے خلاف داخل کیا جا سکتا ہے ، جس کے بارے میں مدعی کا خیال ہو کہ اس فیصلہ میں بہت سارے امور ایسے ہیں جو دستور کے مطابق نہیں ہیں اور انصاف کے تقاضوں کو سبوتاز کرتے ہیں ، یہ ریویوپٹیشن آرٹیکل ۱۳۷ کے تحت سپریم کوٹ میں داخل کیا جاتا ہے اور سپریم کورٹ دفعہ ۱۴۵ کے تحت دیے گیے حق کے تحت اپنے ہی فیصلہ پرنظر ثانی کا فریضہ انجا م دیتا ہے، بابری مسجد فیصلے پر ریویو پٹیشن سپریم کورٹ کی تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں ہے ، اس سے پہلے سپریم کورٹ میںڈاؤری ہراسمینٹ کیس (Dowry Harassment Case)۲ جی اسپیکٹرم کیس ، نیٹ کیس، اس سی اس ٹی ایکٹ، سبری مالا مندر کیس میں ریو یو پٹیشن داخل ہوچکا ہے، اور ان میںسے کئی میں نظر ثانی کرتے وقت سپریم کورٹ نے اپنے سابقہ فیصلہ کو واپس لے لیا تھا ، مثال کے طور پر ڈوری ہراسمنٹ کیس اور اس سی اس ٹی کیس کو پیش کیا جا سکتا ہے ۔
اس طرح یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ریویو پٹیشن فیصلہ کا ایک حصہ ہے ، جس کے تحت ایک ماہ میں سپریم کور ٹ میں درخواست دی جا سکتی ہے ، یہ نہ تو سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے اور نہ ہی اس کے اختیارات کو چیلنج دینے جیسی کوئی بات ، یہ ہندوستان کی بِکی ہوئی میڈیا ہے جو ریویو پٹیشن کے حوالہ سے غیر ضروری بحث کرکے مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے میں جُٹی ہوئی ہے ۔
بورڈ نے بابری مسجد کے حوالہ سے یہ فیصلہ کرکے اچھا قدم اٹھایا ہے ، یہ ایک آخری کوشش ہے جو مسلمانوں کی جانب سے کی جا سکتی تھی؛ اس لیے اس فیصلہ کی نامور افراد، دانشوران اور تنظیموں کی جانب سے بھر پور تائید ہو رہی ہے ، خود انقلاب میں بھی اپنی رائے کے تحت جو رائے آرہی ہے اس میں اکثر ریویو پٹیشن کے حق میں ہے، اللہ کرے ریو پٹیشن سپریم کورٹ میں قبول ہو اور اس پر نئی بحث کے بعد کچھ نئے فیصلے سامنے آسکیں۔
۲۶؍ نومبر کو سنی وقف بورڈ کی میٹنگ بھی اس سلسلے میں منعقد ہوئی جس میں آٹھ میں سے سات ممبران شریک ہوئے، چھ ممبران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نظر ثانی عرضی کے وہ خلاف تھے اس لیے فیصلہ ان حضرات کی رائے پر ہوا، رہ گئی پانچ ایکڑ زمین تو اس کے بارے میں سنی وقف بورڈ کسی دوسری میٹنگ میں کسی نتیجہ پر پہونچے گا۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ سنی وقف بورڈ کے اس فیصلہ سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلہ پر کوئی اثر اس لیے نہیں پڑے گا کہ سات فریق ابھی اس کے ساتھ ہیں۔
عاملہ نے اپنے فیصلے میں پانچ ایکٹر زمین نہ لینے کی بات بھی طے کی ہے ، یہ ایک اصولی اور شرعی فیصلہ ہے، بابری مسجد کی زمین کے بدلے کوئی زمین نہیں لی جا سکتی ، کیوں کہ وہ مسجد تھی، مسجد ہے اور مسجد رہے گی، عمارت کے ختم ہوجانے سے مسجد کی حیثیت ختم نہیں ہوجاتی، عدالت کا فیصلہ ہے تو ہم اس کے احترام میں خاموش ہیں، یہ ایک الگ بات ہے ، لیکن شرعی طور پر ہم اپنے اس موقف سے دست بردار نہیں ہو سکتے، اس سے آئندہ اس قسم کی شر انگیزیوں کے دروازوں کے بند کرنے میں مدد ملے گی ، ہم ان مشکل حالات میں ایسے جرأت مندانہ فیصلہ کرنے پر بورڈ کے قائدین خصوصا صدر محترم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ اور جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم کا پوری قوم کی جانب سے شکریہ ادا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ حضرات کا سایہ صحت وعافیت کے ساتھ امت مسلمہ پر قائم رکھے۔ آمین۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.