Baseerat Online News Portal

نکاح کی عمر

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
ہوشیار اور چالباز لوگوں کا ایک طریقہ ہے کہ اگر وہ ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر سکیں، جو اُن سے متعلق کی گئی ہیں تو وہ لوگوں کی توجہ ہٹانے اور اپنے آپ کو بچانے کے لئے ایک تدبیر یہ اختیار کرتے ہیں کہ کسی غیر ضروری موضوع کو اٹھا کر اس پر بحث شروع کرا دیتے ہیں، لوگ اس میں الجھ کر رہ جاتے ہیں، اصل مسائل نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور بے فائدہ بحث کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، وطن عزیز کی موجودہ حکومت اور بر سر اقتدار پارٹی کو اس میں بری مہارت حاصل ہے، اور انھوں نے اس کو الیکشن جیتنے اور اپنی بدنامی کو چھپانے کا مؤثر ہتھیار بنا لیا ہے، ملک میں گرانی آسمان کو چھو رہی ہے، معاشی اعتبار سے ہمارا گراف غریب پڑوسی ملکوں سے بھی نیچے جا چکا ہے، سرحدوں کی حفاظت داؤ پر لگی ہے، ہماری کرنسی کی قدر مسلسل گراوٹ سے دو چار ہے، بے روزگاری میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے، ملک میں حکومت کی نگاہوں کے سامنے؛ بلکہ اس کے اشاروں پر نفرت کی آگ سلگائی جا رہی ہے، سرکاری اسکولوں میں ٹیچر نہیں ہیں اور سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں ہیں، ملک کی درآمدات بڑھ رہی ہیں اور برآمدات گھٹتی جا رہی ہیں، غرض کتنے ہی مسائل ہیں، جن سے ملک دو چار ہے؛ مگر ان سب کو چھوڑ کر غیر ضروری مسائل اٹھائے جا رہے ہیں۔
حکومت کو نہ ان مسائل کی فکر ہے اور نہ ان ناکامیوں اور نامرادیوں پر کوئی افسوس، بس اس کو کوئی ایسا موضوع ملنا چاہئے جس میں لوگ الجھ جائیں، اور حکومت کی نااہلی پر پردہ پڑ جائے، آج کل اس کے لئے ایک نیا مسئلہ ’’ شادی کی عمر‘‘ کے سلسلے میں کھڑا کیا گیا ہے کہ لڑکیوں کے لئے شادی کی کم از کم عمر ۱۸؍ سے بڑھا کر ۲۱؍ سال کر دی جائے، اور اس کو کچھ اس طرح پیش کیا جا رہا ہے گویا اس سے خواتین کی ساری مشکلات حل ہو جائیں گی، ظاہر ہے یہ محض ایک دھوکہ اور آنکھ میں دھول ڈالنے کی کوشش ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نکاح عام افعال کی طرح کوئی فعل نہیں ہے؛ بلکہ یہ انسان کی ایک فطری ضرورت ہے؛ کیوںکہ نسل انسانی میں تسلسل کا برقرار ہونا ضروری ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرد کے باپ بننے اورعورت کے ماںبننے کی حقیقی صلاحیت کے لحاظ سے بچوں کی پیدائش کی شرح بہت کم ہوتی ہے اور اس پیدائش کا ذریعہ اللہ نے ماں باپ کو بنایا ہے، نکاح سے گریز کے رجحان کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض نسلیں اپنے وجود کو کھونے کے قریب ہیں، متعدد مغربی ممالک میں یہ صورت حال ہے کہ تارکین وطن کی آبادی مقامی آبادی سے بڑھ چکی ہے، اگر صحیح عمر میں نکاح ہو تو نسلی سلسلہ کے بر قرار رہنے کے امکانات زیادہ ہوںگے، نکاح کا دوسرا مقصد عفت و عصمت کی حفاظت ہے، اللہ تعالیٰ نے نکاح کے پہلے مقصد کو پورا کرنے کے لئے انسان کے اندر اپنی صنف مخالف کی طرف غیر معمولی میلان رکھ دیا ہے، اگر انسان کے اس جذبہ کی تکمیل قانونی راستہ سے نہ ہو تو آدمی غیر قانونی راستہ اختیار کرنے لگتا ہے، اس سے معاشرہ میں گندگی پھیلتی ہے، بے حیائی جنم لیتی ہے اور اخلاق کے لباس تارتار ہونے لگتے ہیں، بالغ ہونے کے ساتھ ہی انسان کا یہ فطری جذبہ بیدار ہونے لگتا ہے، نکاح کے ذریعہ ایک قانونی راستہ فراہم ہوجاتا ہے اور انسان اپنے آپ کو غیر قانونی راستہ سے محفوظ کرلیتا ہے؛ اسی لئے قرآن مجید میں شادی شدہ شخص کے لئے ’’محصن‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، (مائدہ: ۵) جس کے اصل معنی ’’قلعہ بند‘‘ کے ہیں، یعنی جو شخص نکاح کرلیتا ہے؛گویا وہ اپنے آپ کو عفت و عصمت کے قلعہ میں محفوظ کرلیتا ہے۔
نکاح کا تیسرا اہم مقصد انسان کو ایک پُر سکون زندگی فراہم کرنا ہے، دنیا کا نظام کچھ اس طرح ہے کہ اس میں بہت سی باتیں طبیعت و مزاج کے خلاف پیش آتی ہیں، انسان جو کچھ کرنا چاہتا ہے، نہیں کرپاتا، جن کاموں کو نہیں کرنا چاہتا ہے، ان کو انجام دینا پڑتا ہے، مختلف ایسے لوگوں سے اس کا سابقہ پیش آتا ہے، جن سے مزاج کی موافقت نہیں ہوتی، ان حالات میں ہر شخص کو ایسے مونس وغم خوار کی ضرورت پڑتی ہے، جس کو وہ اپنا دکھ سنا سکے، اسی کیفیت کو قرآن مجید نے ’’سکون‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، اورنکاح کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تمہارے لئے سکون کا ذریعہ ہے: لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا (الروم: ۲۱)
یہ تمام مقاصد وہ ہیں، جو بالغ ہونے کے ساتھ ہی انسان سے متعلق ہوجاتے ہیں، بالغ ہونے کے بعد وہ اس لائق ہوجاتا ہے کہ نسل انسانی کی افزائش کے نظام میں اپنا کردار ادا کرسکے، ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے بعد اس کی نسل باقی رہے اور اس کا نام چلتا رہے، اگر ایک انسان کا نکاح بالغ ہونے کے بعد جلد ہوجائے؛ لیکن قدرت کی طرف سے اس کو زیادہ عمر نہ مل پائے تب بھی اس کا امکان ہوتا ہے کہ اس کی نسل کا سلسلہ چل پڑے، بالغ ہونے کے ساتھ ہی ایک لڑکے یا لڑکی کو پاکدامن رہنے کے لئے رفیق سفر کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے، بعض دفعہ جوان ہوتے ہی مرد کو اکثر اور اب تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے بعض لڑکیوں کو بھی گھر کی ذمہ داری سنبھالنی پڑتی ہے، اور اس میں ا س کی زندگی ٹینشن اور تناؤ کا شکار ہونے لگتی ہے، جس کی وجہ سے اس کو سکون کی ضرورت ہوتی ہے، غرض کہ نکاح کے تینوں مقاصد انسان سے بالغ ہونے کے ساتھ ہی متعلق ہوجاتے ہیں؛ اسی لئے شریعت میں افضل طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد جب بھی نکاح کی ضرورت محسوس کرے، نکاح کرلے، خواہ مخواہ تاخیر نہ کی جائے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے نوجوانو ! تم میں سے جس کے اندر نکاح کے بعد کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت ہو، اسے نکاح کرلینا چاہئے، اس سے تمہاری آنکھیں بھی پاکدامن رہیں گی اور تمہاری شرمگاہیں بھی: یا معشر الشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج فإنہ أغض للبصر وأحصن للفرج‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۴۸۵)
اِس وقت مغربی معاشرہ میں شرح نکاح کم ہوتی جارہی ہے اور جو لوگ نکاح کرتے ہیں، وہ بھی ایسی عمر میں کہ شباب ڈھلنے لگتاہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شرح پیدائش میں بھی خوفناک حد تک کمی ہوتی جارہی ہے، اگر تارکین وطن کی آمد نہ ہو تو ان کی صنعت و معیشت ٹھپ ہوکر رہ جائے، شادی نہ کرنے یا کافی تاخیر سے کرنے کی وجہ سے عفت و عصمت مغربی سماج میں ایسے الفاظ ہوکر رہ گئے ہیں، جن کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے،اگر ہم اپنے سماج کو اس لعنت سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں بالغ ہونے کے بعد جلد شادی کرنے کے رجحان کو بڑھانا چاہئے، ورنہ یہی مفاسد ہمارے یہاں بھی آپہنچیں گے؛ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف ہمارے ملک میں اٹھارہ سال سے کم (اور اب ۲۱؍ سال سے کم) عمر کی لڑکی کی شادی نہیں ہوسکتی، اگر شادی ہوئی تو لڑکا اور لڑکی کے والد دونوں مجرم قرار پاتے ہیں، دوسری طرف سولہ سال یا اس سے زیادہ عمر کی لڑکی سے جبرو اکراہ کے بغیر جنسی تعلق قائم کیا جائے تو وہ جرم نہیں، گویا سولہ سال کی عمر کی لڑکی زنا کا ارتکاب تو کرسکتی ہے؛ لیکن نکاح نہیں کرسکتی، اگر نکاح کرے تو یہ جرم ہوگا، غور کیا جائے کہ یہ کتنا غیر فطری، اخلاق کے لئے تباہ کن اور عورتوں کے ناموس سے کھیلنے والا قانون ہے، جو حیا باختگی کی اجازت تو دیتا ہے؛ لیکن جائز طریقہ پرعزت و آبرو کی حفاظت کے ساتھ فطری ضرورت کو پوری کرنے کی اجازت نہیں دیتا؛ اس لئے ایسی قانون سازی ہونی چاہئے، جس میں اٹھارہ اور اکیس سال سے پہلے نکاح کرنا ممنوع نہ ہو؛ بلکہ ہر شخص کو اس کی ضرورت وخواہش کے مطابق نکاح کرنے کی اجازت حاصل ہو، اس کو اس نقطۂ نظر سے بھی دیکھنا چاہئے کہ نکاح کب کیا جائے اور کس سے کیا جائے ؟ یہ ایسے امور میں نہیں ہے، جس میں تمام لوگوں کی خواہش یکساں ہو، ہر شخص ایک ہی عمر میں شادی کرنا نہیں چاہتا، اسی طرح نکاح کی ضرورت تمام لوگوں کو ایک ہی عمر میں اور ایک ساتھ پیش نہیں آتی؛ اس لئے اس میں کسی خاص عمر کی شرط لگادینا غیر فطری بات ہے۔
شریعت اسلامی کا تصور یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد جلد نکاح کرنا افضل ہے،خود قرآن مجید میں اس کا اشارہ موجود ہے، فرمایا گیا کہ تم یتیموں کو امانت اس وقت حوالہ کرو، جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں: حَتّٰى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ (النساء: ۶)مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد بالغ ہونا ہے (أحکام القرآن للجصاص: ۲؍۶۳، جلالین، ص: ۷۰)؛ چنانچہ عام طور پر عہد نبوی اور عہد صحابہ میں بالغ ہونے کے بعد ہی نکاح کا معمول رہا ہے، اس کے دو فائدے ہیں: ایک یہ ہے کہ نکاح میں اصل یہ ہے کہ نکاح خود عاقدین کے اختیار اور اس کی رضا مندی سے ہو، اس پر اولیاء کی طرف سے کوئی رشتہ تھوپا نہیں جائے،اور یہ بات اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب لڑکے اور لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد نکاح ہو، دوسرے: نابالغی کی حالت میں جو نکاح ہوتا ہے، اس میں لڑکے اور لڑکی کی مستقبل کی شخصیت کا صرف اندازہ کیا جاتا ہے، ابھی شخصیت تکمیل و ارتقاء کے مرحلہ میں ہوتی ہے، اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت جو توقعات کی جاتی ہیں، وہ بعد کو پوری نہیں ہوپاتیں؛ اس لئے افضل طریقہ یہی ہے کہ بالغ ہونے کے بعد نکاح ہو اور عمرِ نکاح کا انتخاب کرنے میں عاقدین کی صحت کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھا جائے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔
اسلام کی نظر میں نابالغ لڑکے اور لڑکی کا نکاح بھی ولی کی وساطت سے ہوسکتا ہے؛ کیوںکہ بعض دفعہ بچوں کا مفاد اسی میں ہوتا ہے، مثلاً: آپ ایک ایسی لڑکی کا تصور کیجئے، جس کی ماں دنیا سے رخصت ہوچکی ہو، اس کے بھائی بہن نہ ہوں، یا بھائی ہو تو اپنی بہن کے ساتھ اس کا رویہ ہمدردانہ نہ ہو، رشتہ دار حضرات اس کی دولت پر نظریں گڑائے ہوئے ہوں، اندیشہ ہو کہ یہ کسی نامناسب لڑکے سے لڑکی کا رشتہ کرکے پوری دولت پر قابض ہوجائیںگے، ان حالات میں بستر مرگ پر پڑے ہوئے باپ کے سامنے لڑکی کا مناسب رشتہ موجود ہے، وہ چاہتا ہے کہ اپنی لڑکی کو جو ابھی بالغ نہیں ہوئی ہے، اس کے حوالہ کردے؛ تاکہ اس کے مفادات کا تحفظ ہو اور اس کی چھوڑی ہوئی دولت سے اس کی لڑکی کو محروم نہ کیا جاسکے، ان حالات میں مصلحت کا تقاضہ کیا ہے، یہ کہ وہ اس لڑکی کو بے سہارا چھوڑکر چلاجائے یا یہ کہ وہ اس کے لئے ایک غمگسار و مددگار فراہم کرکے دنیا سے جائے ؟ ظاہر ہے کہ ہر صاحب عقل کا جواب یہی ہوگا کہ یہ دوسری صورت زیادہ بہتر ہے؛ اس لئے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ نابالغی کا نکاح ہر حال میں نقصان دہ ہوتا ہے؛ اسی لئے اسلام میں پسندیدہ طرز عمل تو یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد خود لڑکے اور لڑکی کی پسند کے مطابق نکاح ہو، ولی اس میں تعاون کرے، اور ان کو مناسب مشورہ دے؛ لیکن شریعت نے حالت نابالغی میں بھی نکاح کی گنجائش رکھی ہے؛ البتہ اگر رشتہ کے انتخاب میں لڑکے اور لڑکی کے مفادات کو سامنے نہیں رکھا گیا ہو تو اس کی تلافی کے لئے انہیںاس رشتہ کو رد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’خیار بلوغ‘‘ کہتے ہیں، اگر باپ اور دادا کے علاوہ کسی اور نے نکاح کیا ہو تب تو بہر صورت عاقدین کو اس کا اختیار حاصل ہوتا ہے، اگر باپ اور دادا نے ہی نکاح کیا ہو تب بھی چار صورتوں میں عاقدین نکاح کو رد کرسکتے ہیں: اول: یہ کہ نکاح کرنے میں واضح طور پر زیر ولایت لڑکے اور لڑکی کے مفاد کو ملحوظ نہیں رکھاگیا ہو، دوسرے: ولی پہلے سے اپنے اختیارات کے غلط استعمال میں معروف ہو — فقہ کی اصطلاح میں اس کو ’’معروف بسوء الاختیار‘‘ کہتے ہیں — تیسرے: ولی نہایت بے حیا اور آوارہ قسم کا آدمی ہو ، جس کو فاسق تک کہا جاتا ہے — چوتھے: اس نے ایجاب و قبول حالت نشہ میں کیا ہو، ان تمام صورتوں میں بالغ ہونے کے بعد لڑکے یا لڑکی کو حق حاصل ہے کہ زمانہ نابالغی کے نکاح کو رد کردے، اس طرح حالت نابالغی کے نکاح میں جن نقائص کے رہ جانے کا امکان ہے، ان کی تلافی کی صورت بھی رکھی گئی ہے۔
کاش حکومت خواتین کے حقیقی مسائل پر توجہ دے، ان کے لئے KG سے PG تک مفت تعلیم کا انتظام کرے، مفت علاج کی سہولت فراہم کرے، جن کاموں کو خواتین محفوظ اور مامون ماحول میں انجام دے سکتی ہیں، ان میں ملازمت کے مواقع پیدا کئے جائیں، مختلف سرکاری محکموں میں عورتوں کے لئے الگ الگ شعبہ قائم کیا جائے، اس سے عورتیں اپنے آپ کو محفوظ بھی سمجھ سکیں گی اور ان کے لئے ملازمت کے مواقع بھی فراہم ہوں گے، حکومت بیوہ عورتوں اور یتیم لڑکیوں کی مکمل کفالت کی ذمہ داری لے، جو عورتیں شوہر کی طرف سے بے توجہی کا شکار ہیں اور معلق حالت میں زندگی گزار رہی ہیں، ان کے لئے طلاق کو آسان بنائے، بیوہ اور مطلقہ عورتوں کے دوسرے نکاح کے اخراجات کو برداشت کرے اور اس کی حوصلہ افزائی کرے، یہ اور اس طرح کے اقدامات کے ذریعہ خواتین کو انصاف مل سکتا ہے اور ان کے حقیقی مسائل حل ہو سکتے ہیں، نکاح کی عمر اکیس سے پچیس یا تیس بھی کر دی جائے تو اس سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے؛ بلکہ یہ لڑکیوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے اختیارات میں مداخلت ہے، کون کس سے شادی کرے اور کتنی عمر میں کرے؟ یہ ہر انسان کا ذاتی فیصلہ ہے، اس کو طے کرنا پارلیامنٹ یا حکومت کا کام نہیں ہے!!!
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.