Baseerat Online News Portal

وبائی صورت حال میں پیش آنے والے چند اہم مسائل(۱)

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ترجمان وسکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
شریعت میں حلال وحرام، فرائض وواجبات اور ممنوعات ومکروہات کے احکام کا مقصد انسان کی تربیت، اہم تر مقصد کے لئے مشقت برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا اور خواہشات کی غلامی سے نکال کر اپنے مالکِ حقیقی کی بندگی میں داخل کرنا ہے؛ اس لئے بہت سی ایسی باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیاہے، جن کو انجام دینا نفس پر شاق گزرتا ہے، جیسے: نیند کے غلبہ کے وقت فجر کی نماز ، دھوپ کی شدت کے وقت نماز ظہر ، روزہ رکھنے اور اس میں کھانے پینے سے رُکا رہنا، اپنی گاڑھی کمائی کا کچھ حصہ زکوٰۃ کے نام پر غریبوں کو دینا، غرض کہ شریعت میں جن کاموں کو انسان پر واجب قرار دیا گیا ہے، اس میں کچھ نہ کچھ مشقت موجود ہے، اسی طرح جو شخص شراب کا عادی ہو، اس کو شراب سے روک دینا اور بغیر کسی محنت کے سود کے ذریعہ پیسہ حاصل کرنے والے کو سود سے منع کر دینا بھی یقیناََ ان پر گراںگزرتا ہوگا، یہی حال ان دوسری چیزوں کا بھی ہے، جن سے انسان کو منع کیا گیا ہے۔
لیکن اس میں بھی اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ انسان کو ایسا حکم نہ دیا جائے، جو اس کی صلاحیت سے بڑھ کر ہو، نماز کلمۂ شہادت کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن ہے ؛ لیکن اس میں بھی اس کی پوری رعایت ہے، وضوء کرنا چاہئے؛ لیکن پانی کا استعمال مضر ہو تو تیمم کر لے، قیام ہونا چاہئے؛ لیکن کھڑے ہونے میں تکلیف ہو تو بیٹھ کر نماز ادا کرلے، رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں؛ لیکن اگر بیمار ہو تو ابھی روزہ چھوڑ دے ،بعد میں قضاء کر لے، اور اگر دائم المریض ہو تو فدیہ ادا کر دے، وغیرہ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم انسان کو اسی بات کا حکم دیتے ہیں، جس کو انجام دینے کی اس کے اندر طاقت ہو: لا یکلف اللہ نفسا إلا وسعھا (بقرہ:۲۸۶) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں جب تم کو کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک پورا کر سکو ،اسے پورا کرو: إذا أمرتکم بأمر فأتو منہ ما استطعتم (بخاری، حدیث نمبر: ۸۸)
اسی لئے صحت مند اور مریض، مال دار اور غریب، بینا اور نابینا، چلنے پر قادر اور چلنے سے عاجز اور مقیم اور مسافر کے درمیان بہت سے احکام میں فرق کیا گیا ہے، بحیثیت مجموعی اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حالت اختیار اور حالت مجبوری کے احکام میں فرق ہو سکتا ہے، مجبوری خواہ جسمانی ہو، جیسے: بیمار ہو یا بیمار پڑنے کا خطرہ ہو،یا مجبوری باہر سے پیش آنے والی ہو ، جیسے: موسم کی ناہمواری، دشمن یا درندہ کا خوف وغیرہ، اسی طرح ایک مجبوری قانونی جہت سے بھی ہوتی ہے؛ کیوں کہ جب حکومت کسی چیز سے منع کر دیتی ہے، تو انسان اس سے رکنے پر مجبور ہو جاتا ہے، اور چوں کہ ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ہم نے قانون پر عمل کرنے کا عہد کیا ہے تو اگر اس پر عمل کرنا شرعاََ واجب نہیں ہو اور اسے چھوڑا جا سکتا ہو، یا اس کی متبادل صورت اختیار کی جا سکتی ہو تو ایسی صورت میں شرعاََ بھی قانون کے تقاضوں پر عمل کرنا ضروری ہوگا؛ کیوں کہ یہ ایفاء عہد میں شامل ہے۔
اس وقت کورونا کی شکل میں جو وبائی مرض پھوٹ پڑا ہے، اس میں ایک تو حفظان صحت کے پہلو سے بعض امور کی رعایت ضروری ہے، اس پس منظر میں بعض دشواریاں پیدا ہوگئی ہیں، دوسرے: حکومت نے بھی کچھ احکام دئیے ہیں، قانونی نقطۂ نظر سے ان کی رعایت بھی ضروری ہے تو ان دشواریوں کا حل کیا ہے؟ ہمیں کس طرح شریعت کے حکم پر قائم رہتے ہوئے قانون اور حفظان صحت کے اصولوں کی رعایت کرنی چاہئے؟ اس سلسلہ میں چند ضروری مسائل کا ذکر کیا جاتا ہے:
پنج وقتہ نماز کی جماعت:
عاقل وبالغ اور صحت مند مردوں کو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میرے دل میں آتا ہے کہ میں آگ جلواؤں، پھر اذان دی جائے، ایک شخص سے کہوں کہ وہ ان کی امامت کرے اور میں ان لوگوں کے یہاں جاؤں جو مسجد نہیں آئے اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں (صحیح بخاری، حدیث نمبر ۶۴۴) نیز حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ تنہا نماز کے مقابلہ جماعت کی نماز کا ثواب ستائیس گنا زیاہ ہے (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۶۴۵) ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ نماز میں جماعت کا کیا حکم ہے؟ اور ترجیح اس بات کو دی گئی ہے کہ جماعت سنت مؤکدہ ہے؛ لیکن اتنی اہم سنت ہے کہ اس کو بلا عذر چھوڑ ناجائز نہیں: الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ……. فلا یسع ترکھا إلا لعذر(بدائع الصنائع: ۱؍۱۵۵) اور بلا عذر جماعت چھوڑنا باعث گناہ ہے، علماء عراق کے نزدیک تو ایک بار جماعت کا چھوڑ دینا بھی گناہ کا باعث ہے، اور فقہاء خراسان کے نزدیک اگر عادتاََ ایسا کرے تب گناہ گار ہوگا: ………الخراسانیون علیٰ أنہ یأثم إذا اعتاد الترک (رد المحتار: ۱؍ ۵۵۲)
عام نمازوں کے لئے جماعت کی شرط یہ ہے کہ کم سے کم دو نمازی ہوں؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إثنان فما فوقھما جماعۃ (بخاری، حدیث نمبر: ۹۷۲) اس لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر امام کے علاوہ ایک مقتدی بھی ہو تو جماعت قائم ہو جائے گی: وأقل من تنعقد بھم الجماعۃ إثنان، وھو أن یکون مع الإمام واحد (حاشیہ شلبی مع تبیین الحقائق:۱؍۱۳۲) معلوم ہوا کہ اگر مسجد میں امام کے علاوہ کم سے کم ایک مقتدی بھی ہو تو جماعت ہو سکتی ہے، اسی پس منظر میں بھارت کے ارباب افتاء نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں مسجد میں چار پانچ افراد سے جماعت کر لی جائے، یہ چوں کہ عذر کی وجہ سے جماعت سے غیر حاضر رہنا ہے؛ اس لئے اس میں ترک سنت کا گناہ نہیں ہوگا؛ بلکہ اگر وہ مسجد جانا چاہتا تھا اور عذر کی وجہ سے نہیں جاپایا تو علامہ شامیؒ کے بقول اس کو جماعت میں شرکت کا ثواب بھی ملے گا: إذا انقطع عن الجماعۃ لعذر من أعذارھا وکانت نیتہ حضورھا لولا العذر یحصل لہ ثوابھا (ردالمحتار: ۱؍۵۵۴)
جو لوگ عذر کی وجہ سے مسجد نہیں جا سکے، ان کے لئے گھر میں نماز ادا کرنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ تنہا نماز ادا کر لی جائے، دوسری: یہ کہ گھر ہی پر گھر میں موجود لوگوں کے ساتھ جماعت کر لی جائے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر گھر میں گھر والوں کے ساتھ جماعت فرمائی ہے: جمع بأھلہ فی منزلہ حین انصرف من صلح (محیط برہانی: ۱؍۴۲۹) لہٰذا تنہا ادا کرنا جائز ہے اور جماعت کے ساتھ ادا کرنا بہتر ہے: لو فاتتہ الجماعۃ جمع بأھلہ فی منزلہ……. وإن صلیٰ وحدہ جاز (محیط برہانی: ۱؍۴۲۹)
صفوں کے درمیان فاصلے:
کورونا وائرس سے حفاظت کے لئے اس بات کی رعایت ضروری ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے قریب ہو کر رہنے سے بچیں اور فاصلہ قائم رکھیں، فاصلہ قائم رکھنے کا تعلق دو باتوں سے ہے: ایک یہ کہ اگلی صف اور پچھلی صف کے درمیان کتنا فاصلہ رہے دوسرے: ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے نمازیوں کے درمیان کس حد تک فاصلہ رکھنے کی گنجائش ہے؟ تو اصل مطلوب طریقہ تو یہ ہے کہ دو صفوں کے درمیان دو ہاتھ کا فاصلہ ہونا چاہئے :الفرجۃ بین الصفین مقدار زراع أو زراعین (طحطاوی: ۳۹۳)؛ تاہم اگر کسی وجہ سے یہ فاصلہ بڑھ جائے ؛ لیکن امام کی نقل وحرکت سے مقتدی واقف ہو سکتے ہوں، تب بھی اقتداء درست ہے، یہاں تک کہ علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں کہ اگر امام محراب میں ہو اور مقتدی مسجد کے آخری حصہ میں تب بھی نماز درست ہو جائے گی؛ اس لئے کہ مسجد کے اندر نماز پڑھتے ہوئے چاہے نمازیوں کے درمیان یا امام اور مقتدی کے درمیان فاصلہ بڑھ جائے؛ لیکن پوری مسجد ایک ہی جگہ کے حکم میں ہے: ولو اقتدیٰ بالإمام فی أقصی المسجد والإمام فی المحراب جاز؛ لأن المسجد علی تباعد أطرافہ جعل فی الحکم کمکان واحد(بدائع الصنائع: ۱؍۱۴۵) ——اس سے معلوم ہو اکہ اگر حفظان صحت کے لئے صفوں کے درمیان فاصلہ بڑھا دیا جائے جیسے عام طور پر جتنا فاصلہ رکھا جاتا ہے، اس سے دوہرا فاصلہ رکھا جائے تو اس کی گنجائش ہے اور جب یہ عذر کی بناء پر ہو تو اس میں کراہت بھی نہیں ہوگی۔
فاصلہ پیدا کرنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہی صف میں جو لوگ کھڑے ہوئے ہیں، وہ ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہونے کے بجائے کچھ فاصلہ رکھ کر کھڑے ہوں، اس مین کوئی شبہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں مِل مِل کر کھڑے ہونے کا حکم دیا ہے اور دو نمازیوں کے درمیان بلا ضرورت فاصلہ رکھنے کو منع فرمایا ہے؛ لیکن موجودہ حالات میں صحت وزندگی کے تحفظ کے نقطۂ نظر سے اگر جماعت میں شریک حضرات ایک ہی صف میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے کھڑے ہوں؛ جیسا کہ طبی ماہرین کا مشورہ ہے تو اس کی بھی گنجائش نکلتی ہے؛ کیوں کہ جب پوری مسجد کو ایک جگہ مان لیا گیا تو جیسے دو صفوں کے درمیان فاصلہ گوارہ کیا جا سکتا ہے، اسی طرح ایک صف میں کھڑے ہونے والوں کے درمیان بھی فاصلہ رکھنے کی گنجائش ہوگی، ویسے بھی صف میں اتصال کا حکم وجوب کے درجہ کا نہیں ہے،(البنایہ: ۲؍۳۵۴) اس پر بعض فقہاء کے اجتہادات سے بھی روشنی پڑتی ہے، مشہور فقیہ قاضی خانؒ فرماتے ہیں کہ اگر کچھ لوگ صحراء میں نماز پڑھیں، صف کے بیچ میں حوض یا اس طرح کی کوئی اور چیز ہو، صف کا ایک حصہ حوض کے ایک طرف ہو اور دوسرا حصہ دوسری طرف، اور درمیانی حصہ میں کوئی نمازی نہیں ہو تو نماز درست ہو جائے گی؛ کیوں کہ یہ سب ایک ہی جگہ کے حکم میں ہے: قوم صلوا فی الصحراء بجماعۃ ووسط الصفوف موضع مقدار حوض أو فارقین لم یقم فیہ أحد جازت صلاتھم (فتاویٰ قاضی خان: ۱؍۳۲)
غرض کہ افضل طریقہ تو یہی ہے کہ صفوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو اورکاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوں؛ لیکن اگر طبی ماہرین اس کو مضر قرار دیتے ہوں، یا کسی جگہ حکومت کی طرف سے فاصلہ رکھتے ہوئے نماز ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہو تو وہاں ان گنجائشوں پر عمل کیا جا سکتا ہے، خواہ جماعت مسجدمیں ہو یا کسی اور جگہ، اور خواہ پنچ وقتہ نمازوں کی جماعت ہو یا جمعہ کی۔
جمعہ کی نماز:
جمعہ کی نماز کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے؛ اسی لئے عام طور پر جمعہ کی جماعت بڑی ہوتی ہے، موجودہ حالات میں طبی نقطۂ نظر سے تعداد کو محدود کرنا ضروری ہے، تو اس سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ امام ابو حنیفہؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک جمعہ کی جماعت کے لئے امام کے علاوہ تین آدمی یعنی مجموعی اعتبار سے چار افراد اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک امام کے سواء دو افراد کا ہونا ضروری ہے: أقل الجماعۃ ثلاثہ سوی الإمام وھذا عند أبی حنیفۃ ومحمد، وقال أبو یوسف: إثنان سوی الإمام(تبیین الحقائق: ۱؍۲۲۰، نیز دیکھئے: البحرالرائق: ۲؍۱۴۱) اس پس منظر میں موجودہ حالات کی رعایت کرتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مسجد میں جمعہ تو قائم کیا جائے؛ لیکن صرف پانچ سات نمازیوں کے ذریعہ۔
اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ مسجد میں جمعہ نہیں پڑھ سکے تو کیا وہ گناہ گار ہوں گے؟ پھر وہ اپنے گھر میں جمعہ پڑھیں گے یا ظہر؟اور ظہر پڑھیں گے تو جماعت کے ساتھ یا انفرادی طور پر؟تو پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ عذر کی وجہ سے جمعہ کو ترک کرنا باعث گناہ نہیں ہے: وتسقط بالعذر حتیٰ لا تجب علی المریض……… (بنایہ شرح ہدایہ: ۲؍۳۲۴) اور اس وقت وبائی مرض کا پھیلاؤ اور اس کی وجہ سے بڑی تعداد میں جمع ہونے کی قانونی ممانعت یقیناََ ایک معقول اور معتبر عذر ہے۔
جمعہ کے درست ہونے کے لئے مسجد ضروری نہیں ہے؛ بلکہ شہر میں کسی بھی جگہ جمعہ کی نماز ہو سکتی ہے، گھر میں بھی اگر لوگوں کو آنے کی اجازت ہو تو جمعہ درست ہو جائے گا: جواز إقامۃ الجمعۃ لیس بمحضور فی المصلیٰ؛ بل تجوز فی جمیع أفنیۃ مصر (عنایہ شرح ہدایہ: ۲؍۵۲) لیکن سوال یہ ہے کہ جب مسجد کی جماعت کو بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے محدود کیا گیااور چند افراد کے ساتھ جمعہ قائم کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے؛ تاکہ اسلام کا ایک شعار پورا ہو جائے اور انسانی زندگی کی مصلحت بھی برقرار رہے، تو اگر گھروں میں بھی جمعہ قائم کیا جائے تو یہ مصلحت تو پھر بھی فوت ہو جائے گی، اور قانون کی بھی خلاف ورزی ہوگی؛ اس لئے موجودہ حالات میں گھروں پر جمعہ کی نماز نہیں رکھنی چاہئے؛ بلکہ جمعہ کے بجائے گھروں پر ظہر کی نماز ادا کرنی چاہئے۔
اب نماز ظہر کے سلسلہ میں دو باتیں قابل توجہ ہیں: پہلی بات یہ کہ جب مسجد میں جمعہ کی نماز ہو جائے، تب گھروں میں ظہر کی نماز ادا کی جائے، اگر اس سے پہلے ظہر کی نماز ادا کر لی تو یہ مکروہ ہے؛ بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی: ومن لا عذر لہ لوصلیٰ الظہر قبلھا کرہ وقال زفر: لا یصح ظھرہ (تبیین الحقائق:۱؍۲۲۲) دوسرے: جو لوگ گھروں پر ظہر کی نماز ادا کریں ، ان کو انفرادی طور پر ظہر ادا کرنی چاہئے، نہ کہ جماعت سے؛ اس لئے کہ جمعہ کے احترام کا تقاضہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی اور جماعت نہ ہو، ایک تو ظہر کی جماعت سے شرکاء جمعہ کی تعداد کم ہوتی ہے ،دوسرے: معارضہ یعنی ایک دینی شعار کے مقابلہ میں دوسرا عمل انجام دینے کی صورت بنتی ہے؛ اس لئے بعض مشائخ نے جمعہ کے دن ظہر کے ساتھ جماعت کو مکروہ تحریمی اور بعض نے مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے، علامہ شامیؒ نے تفصیل سے اس کا ذکر فرمایا ہے (دیکھئے: ردالمحتار: ۲؍۱۵۷) نیز اس وقت لاک ڈاؤن یا کرفیو کی وجہ سے لوگوں کے گھروں کی حیثیت ان کے لئے قید خانہ کی سی ہو گئی ہے، اور امام محمدؒ سے منقول ہے کہ انسان قید میں ہو یا قید سے باہر، جمعہ کے دن جماعت کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کرنا مکروہ ہے: ویکرہ أن یصلی الظھر یوم الجمعۃ فی المصر بجماعۃ فی سجن وغیر سجن (محیط برہانی: ۲؍۹۲) ؛ اس لئے جمعہ کے دن گھروں میں ظہر پڑھی جائے۔
نماز تراویح:
رمضان المبارک کا ایک اہم اور خصوصی عمل نماز تراویح ہے، جو جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، جیسے عام نمازوں کی جماعت دو افراد کے ذریعہ بن سکتی ہے، اسی طرح تراویح کی جماعت بھی موجودہ حالات میں چار پانچ افراد کے ذریعہ کر لی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، بقیہ حضرات اپنے گھروں میں تراویح کی نماز ادا کر لیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ہی دنوں لوگوں کے ساتھ نماز ادا فرمائی، بقیہ دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں نماز پڑھی، اور ویسے بھی فرائض کے علاوہ دوسری نمازوں کو گھر میں ادا کرنے کی گنجائش ہے؛ اسی لئے فقہاء نے تراویح میں جماعت کو’’ سنت علی الکفایہ‘‘ قرار دیا ہے، یعنی اگر محلہ میں کہیں تراویح نہ ہو، یا مسجد میں تراویح کا اہتمام ہی نہ ہو تو سب لوگ سنت کے تارک شمار کئے جائیں گے، اور اگر محلہ میں ایک جگہ تراویح کی جماعت ہو جائے تو شریک ہونے والوں کو تو ثواب ہوگا ہی؛ لیکن جو لوگ شریک نہیں ہوئے، ان کو بھی ترک سنت کا گناہ نہیں ہوگا: والجماعۃ فیھا سنۃ علی الکفایۃ فی الأصح؛ فلو ترکھا أھل مسجد أثموا إلا لو ترک بعضھم ( در مختار: ۲؍۹۴) اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر تراویح گھر میں پڑھی جائے تب بھی کوئی گناہ نہیں، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور بعض سلف صالحین کا اسی پر عمل رہا ہے: ولو صلیٰ انسان فی بیتہ لا یأثم ھکذا کان یفعلہ ابن عمر (المبسوط للسرخسی: ۲؍۱۴۵) موجودہ حالات میں چوں کہ عذر کی وجہ سے ترک جماعت کی نوبت آرہی ہے؛ ورنہ نیت اور خواہش تو تھی کہ جماعت کے ساتھ پڑھیں؛ اس لئے شریعت کے عام اصول کے تحت نیت کی بنیاد پر ان شاء اللہ اسے بھی باجماعت نماز ادا کرنے کا اجر حاصل ہوگا؛ البتہ عذر کی وجہ سے تراویح کی بڑی جماعت سے بچنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تراویح ہی چھوڑ دی جائے کہ تراویح اصل ہے، اور اس کو مسجد میں ادا کرنا ضمنی عمل ہے؛ اس لئے موجودہ حالات میں تو اس کا زیادہ اہتمام ہونا چاہئے۔
تراویح میں قرآن مجید کا ایک ختم مسنون ہے: السنۃ فی التراویح الختم مرۃ (المبسوط للسرخسی: ۲؍۱۴۶) چوں کہ ہندوستان مین اکثر مساجد میں امام حافظ بھی ہوتے ہیں؛ اس لئے مسجدوں میں ختم قرآن کی کوشش کرنی چاہئے اور چوں کہ ختم قرآن کا تعلق تراویح سے ہے نہ کہ مسجد سے؛ اس لئے اگر گھروں میں کوئی حافظ میسر ہو اور وہ بالغ ہو تو اس کے ذریعہ قرآن مکمل کرانا بہتر ہے، اگر کوئی حافظ میسر نہ ہو تو گھر میں جس آدمی کے اندر نماز پڑھانے کی صلاحیت ہو اور اسے نسبتاََ زیادہ قرآن یاد ہو، وہ تراویح کی امامت کرے، یہاں تو ایک بڑی مجبوری ہے؛ لیکن فقہاء نے نمازیوں کی کسل مندی کو دیکھتے ہوئے بھی تراویح میں مختصر قرأت کی اجازت دی ہے: فالأفضل أن یقرأ الإمام علی حسب حال القوم من الرغبۃ والکسل فیقرأ قدر مالا یوجب تنفیر القوم عن الجماعۃ ( بدائع الصنائع: ۱؍۲۸۹) بلکہ بعض فقہاء نے تو کہا ہے کہ اگر مغرب کی قرأت کے بقدر پڑھ لے تو اس کی بھی گنجائش ہے: والمتأخرون فی زماننا یفتون بثلاث آیات قصار وآیۃ طویلۃ حتیٰ لا یمل القوم ولا یلزم تعطیھا وھذا أحسن(بنایہ شرح ہدایہ: ۲؍ ۵۵۶) ؛ لہٰذا حالات کے لحاظ سے عمل کرنا چاہئے۔(جاری)
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.