Baseerat Online News Portal

وجئے روپانی کی پراجئے (شکست) کے اسباب

 

ڈاکٹر سلیم خان

وجئے روپانی کیوں گئے ؟ اس سوال کا جواب اسی وقت ملے گا کہ جب پتہ چلے  وہ آئے کیوں تھے؟ ؟ یہ سب جانتے ہیں کہ   آنندی بین پٹیل کو ہٹا کر وجئے روپانی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا ۔ 13 ؍ سال حکومت کرنے کے بعد گجرات کے وزیر اعلیٰ  نریندر مودی   ملک کے وزیر اعظم بن گئے ۔ اس لیے انہیں بحالتِ مجبوری  دہلی جانا پڑا ۔ دستور میں اگر  گنجائش ہوتی تو وہ وزارت اعلیٰ کا عہدہ  ہر گز نہیں چھوڑتے۔ دہلی جانے کے باوجود ان کا دل احمد آباد میں اٹکا رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے چین و امریکہ کے سربراہان کو دہلی کے بجائے احمد آباد میں بلایا۔   سردار ولبھ بھائی پٹیل پورے ملک کے وزیر داخلہ تھے۔ ان کے بلند ترین مجسمہ کی صحیح    جگہ دہلی میں  تھی یا پھر ممبئی میں جہاں انتقال ہوا تھا تاکہ دنیا  بھرکے سیاح انہیں خراج عقیدت پیش کرتے لیکن برا ہو وزیر اعظم کی تنگ نظری کا کہ انہوں نے گجرات کے ایسے جنگل میں مجسمہ پر کروڈوں روپئے پھونک دیئے جہاں گجراتی بھی نہیں جاتے۔  ۔ان کو بولیٹ ٹرین کا خیال آیا تو ممبئی سے احمد آباد اور مہاراشٹر میں کانگریس سرکار آگئی تو دہلی سے احمد آباد حالانکہ اسے  دہلی لکھنو  یا وارانسی ہونا چاہیے تھالیکن چونکہ  وہ شہر گجرات  میں نہیں تھے اس لیے محروم رہے۔  خیر مودی جی کو گجرات سے جو لگاو ہے اس کے سامنے دہلی ، ممبئی، وارانسی  اور لکھنو سب فیل ہے۔

وجئے روپانی کے آنے اور جانے کے درمیان  وزیر اعظم کے عروج و زوال کی داستان دفن ہے۔    احمد آباد سے دہلی جاتے ہوئے انہوں نے اپنی سب قریبی  رکن اسمبلی آنندی بین پٹیل کو اقتدار سونپا لیکن قربت کے علاوہ ان کا پٹیل برادری سے ہونا بھی برابر کی اہمیت کا حامل تھا۔ کیشو بھائی پٹیل کو ہٹانے سے پٹیل سماج میں جو ناراضی پیدا ہوئی تھی اس کو دور کرنے کی  یہ ایک کامیاب  کوشش تھی گویا سیاسی اعتبار سے یہ ایک محتاط فیصلہ تھا ۔ اس کے بعد مہاراشٹر اور ہریانہ میں ریاستی  انتخاب ہوئے۔مہاراشٹر  میں پہلی مرتبہ  بی جے پی نے شیوسینا کی مدد کے بغیر سب سے زیادہ نشستوں پر قبضہ کیا اور این سی پی کی بلاواسطہ مدد سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے حکومت بنالی ۔ ہریانہ کے اندر بی جے پی کو پہلی بار اپنے بل پر اقتدار نصیب ہوگیا ۔ یہیں سے مودی جی کے گھمنڈ کی ابتداء ہوئی اور یہ تاثر دیا گیا کہ ’مودی ہے تو ممکن ہے‘۔ وہ الیکشن میں اپنے ذاتی  کرشمہ سے جادو کرسکتے ہیں ۔

مودی جی کی  بیجا خود اعتمادی      کا اثر یہ ہوا کہ انہوں نے مہاراشٹر میں نتن  گڈکری جیسے تجربہ کار سیاستداں کو کنارے کردیا۔ مراٹھا سماج کی پرواہ کیے بغیر ایک نوجوان  غیر معروف برہمن کو اقتدار سونپ دیا ۔ اسی طرح ہریانہ میں جاٹوں کو  نظر انداز کرکے پہلی بار  ایک غیر جاٹ پنجابی مہاجر کو  وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ اس کے بعد جب جھارکھنڈ      میں کامیابی ملی تو ایک غیر قبائلی رگھوبر داس  کو اقتدار کی کنجی سونپ دی گئی ۔ تریپورہ میں مشرقی پاکستان سےنقل مکانی کرکے آنے والوں کے بیٹے بپلب داس کو وزیر اعلیٰ بنادیا گیا  ۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ مودی جی مروجہ ذاتوں اور دیگر سیاسی دباو سے بے نیاز ہوکر فیصلے کرتے ہیں کیونکہ انتخاب  ان کے نام پر جیتا جاتا ہے۔ یہ اسی طرح کی بات  تھی جس کو آر کے لکشمن نے ایک کارٹوں میں دکھایا تھاجس میں کسی صوبے کےارکان اسمبلی قطار میں کھڑے ہیں  اور اندرا گاندھی ایک کی جانب اشارہ کرکے کہتی ہیں تم وزیر اعلیٰ بنوگے تمہارا نام کیا ہے؟  مہاراشٹر میں ایسا  بابا صاحب بھونسلے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ ان کے سسر اپنے داماد کی وزارت بچانے کی خاطر دہلی  گئے تو اندراجی نے نامعلوم بھونسلے کو وزیر اعلیٰ بنادیا ۔

وجئے روپانی کو ہٹایا جانا اس بات کی علامت ہے کہ مودی جی کے عروج کا وہ زمانہ لد گیا  ہے اور چہار جانب  زوال کا دور دورہ ہے۔ گجرات اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ آنندی بین کو وزارت اعلیٰ کی کرسی سے ہٹانے کا کوئی جواز نہیں تھا مگر اترپردیش کی کامیابی کے خمار میں امیت شاہ نے ان کا پتاّ کاٹ دیا اور اپنے ذات بھائی جین بنیا کو وزیر اعلیٰ بنادیا۔گزشتہ ریاستی انتخاب میں  بی جے پی کو اس کی بھاری قیمت   چکانی پڑی اور 150 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کرنے والےامیت  شاہ 116 سے99پر آگئے۔ اس میں بھی  وزیر اعظم کے پسینے چھوٹ گئے لیکن وجئے روپانی کو بدلا نہیں گیاکیونکہ  ساراکام تو مودی اور شاہ کرتے تھے ۔ آئندہ انتخاب سے قبل  وجئے روپانی کو ہٹایا جانا اس بات کا اعتراف ہے کہ اب مودی اور شاہ اپنے بل بوتے پر انتخاب نہیں جیت سکتے ۔ ذات برادی کا پاس و لحاظ کیے بغیر الیکشن میں کامیابی ناممکن ہے۔  گجرات میں کورونا کے  معاملے ناکامی کا ٹھیکرا پھوڑنے والوں کو یہ نہیں معلوم کہ وہ بیچارہ تو ربر اسٹامپ تھا ۔  یہ ناکامی تو اس جوڑی کی ہے جس کے  اشارے پر وہ کٹھ پتلی ناچتا تھا ۔ یہ  روپانی کی نہیں بلکہ مودی اور شاہ کی ناکامی ہے۔

پچھلے انتخاب میں گجرات کے اندر بی جے پی نے 182 میں 99 پر کامیابی تو درج کرائی تھی مگر 16 نشستوں پر جیت کا فرق پانچ ہزار سے کم تھا ۔ اب اگر کورونا  کی بدا نتظامی کے سبب یہ فرق مٹ جائے تو بی جے پی ارکان اسمبلی کی تعداد  83 ہوجائے گی اور وہ اقتدار سے محروم رہے گی۔   اسی کے ساتھ 32  حلقۂ انتخاب ایسے تھے کہ جس میں تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو جیت ہار کے فرق سے زیادہ ووٹ ملے ۔ ایسی 18 نشستوں پر بی جے پی کامیاب ہوئی  یعنی اگر اس بار لوگوں نے اس ووٹ تڑوا  تیسرے  امیدوار کو چھوڑ دیا تب بھی بی جے پی کی ہار یقینی ہے۔اس لیے گجرات میں اس بار  150 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کا خواب تو دور سرکار بچانا مشکل ہے۔  گجرات ماڈل کا فریب  تو مودی کے دہلی چلے جانے کے بعد ہی ناکام ہوگیا لیکن خود اپنی ریاست میں ہار کے بعد اگلا قومی انتخاب جیتنا تو ناممکن ہی ہے۔

پچھلی مرتبہ گوکہ کانگریس گجرات میں ناکام رہی مگر  پنجاب میں  اس نے اکالی دل اور بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کردیا۔ فی الحال چونکہ بی جے پی کا اکالی دل سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے اس لیے وہ پنجاب میں اقتدار کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی ۔ گجرات کے انتخابی نتائج کا ایک اثر یہ ہوا تھا کہ اس کے بعد مدھیہ پردیش ، راجستھان اور جھارکھنڈ میں بھی کانگریس نے  کامیابی حاصل کرلی تھی ۔ ان میں سے مدھیہ پردیش کے اندر بی جے پی   نےچور دروازے سے اقتدار ہتھیا لیا ہے۔   ابتداء میں کرناٹک کے اندر  بھی حکومت بنانے میں وہ  ناکام رہی تھی۔بعد میں  وہاں کانگریسی اور جنتا دل  (ایس) کے ارکان کو خرید کر سرکار بنانی پڑی ۔  مودی ۲ میں بی جے پی کی حالت بہت خراب چل رہی ہے۔ جھارکھنڈ اور مہاراشٹر اس کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں ۔ ہریانہ  کی سرکار بیساکھی پر ہے۔ بہار میں بادلِ نخواستہ نتیش کمار کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ مغربی بنگال نے تو ہوش اڑا دئیے ہیں اور مودی و شاہ کا دماغ درست کردیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آسام میں فتح سے ہمکنار کرنے والے سربانند سونوال کی چھٹی کردی گئی حالانکہ عام طور پر ایسا نہیں کیا جاتا۔

اس کے بعد تو جھڑی لگ گئی۔  اتراکھنڈ میں اس سال  پہلے ترویندر سنگھ راوت کی جگہ  تیرتھ سنگھ راوت کو لایا گیا۔ وہ اپنے پیش رو سے زیادہ نااہل اور متنازع ثابت ہوئے تو ان کی جگہ پشکر سنگھ دھامی کو کمان سونپی گئی  اس طرح  قلیل عرصے میں  یکے بعد دیگرے تیسرا وزیر اعلیٰ منظر عام پر آگیا ۔ کرناٹک میں یدورپاّ کی جگہ بی جے پی مخالف ایس آر بومئی کے بیٹے  بسوراج بومئی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا اور وہ بھی آپسی سرپھوٹول کے سبب  وزارت کی توسیع نہیں کرپارہے ہیں۔    کرناٹک سے بڑی خانہ  جنگی  بی جے پی کی یوپی شاخ میں  چل رہی ہے۔ مودی اور شاہ کی جوڑی یوگی کے سامنے بالکل بے بس ہوچکی ہے۔ اب انتظار اس بات کا ہے کہ یاتو یوپی میں یوگی ہار کر کنارے ہوجائیں یا جیت کے بعد ان کی جگہ کسی اور کو وزیر اعلیٰ بناکر ناک میں نکیل ڈال دی جائے۔  ویسے  بی جے پی کے لیےیوگی ایک بھسما سور ثابت ہوئے ہیں جو اپنے ساتھ اپنی پارٹی کی بھی ارتھی اٹھاکر لے جانے پر آمادہ ہیں۔ اگلے سال جن پانچ صوبوں میں انتخاب ہونے والے ہیں ان میں سب سے اہم اترپردیش ہے۔ وہاں پر بی جے پی کی شکست اور کامیابی کا امکان  یکساں ہے۔  ایسے میں اگر اترپردیش میں ہار ہاتھ آتی  ہےاور پنجاب کی شکست تو یقینی ہے  اس لیے اتراکھنڈ ، تریپورہ اور گوا کی کامیابی اس کی بھرپائی نہیں کرپائیں گی۔

گجرات کے اندر آنندی بین پٹیل کو ہٹانے کے بعد پاٹیدار برادی کو بہلانے پھسلانے کی خاطر نتن پٹیل کو نائب وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔  بی جے پی نگراں نریندر سنگھ نے جب نتن پٹیل سے ملاقات کی تو یہ افواہ زور پکڑ گئی کہ وہی وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری سنبھالیں گے ۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نتن پٹیل نے بڑے معنی خیز انداز میں کہا تھاکہ وزیر اعلیٰ اس کو ہونا چاہیے جو مقبول ہو، تجربہ کار ہو اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والا ہو۔  اس طرح گویا انہوں نے اپنی ساری خوبیاں بیان کردیں ۔ نتن پٹیل  نے ارکان اسمبلی سے مشورے کے ناٹک کی ہوا نکالتے ہوئے کہا درحقیقت بی جے پی اعلیٰ کمان یہ طے کرے گا کہ وزیر اعلیٰ کون ہو؟  اب جس بھوپندر پٹیل کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا گیا وہ مقبول نہیں ہیں  اس لیے کہ کسی نے ان کے نام کی پیشنگوئی نہیں کی تھی اور تجربہ کار بھی  نہیں  کیونکہ پہلی مرتبہ تو رکن اسمبلی بنے ہیں ۔ لوگوں کو ساتھ لے کر چلنےکا امکان کم ہے۔  اب سوال یہ ہے کہ آخر بارہویں پاس  بلڈرکو وزیر اعلیٰ کیوں بنادیا گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ2017میں  جب آنندی بین پٹیل خود گھاٹلوڈیا سے  انتخاب لڑنے پر راضی نہیں ہوئیں تو اپنی جگہ بھوپندر پٹیل کو لڑایا گیا۔ اس طرح آنندی بین نے اپنے قریبی کو وزیر اعلیٰ بناکرپانچ سال بعد  امیت شاہ سے انتقام لے لیا ۔ یہ  وزیر داخلہ کی بہت بڑی رسوائی ہے۔  

گجرات میں نئے وزیر اعلیٰ کےلانے  کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہاں قبل از وقت انتخاب کروا کر جیت درج کرائی جائےتاکہ  اس سے دیگر مقامات پر  شکست کی پردہ پوشی ہو سکے لیکن اگر خود گجرات کے اندر بی جے پی ہار جاتی ہے  تب تو وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی ۔ اس طرح 2024 سے قبل وزیر اعظم پراپنا جھولا اٹھا کر چل دینے کی نوبت آجائے گی ۔  بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ مودی جی نے پارٹی کو اپنی ذات کے اندر سمیٹ دیا ہے۔  ایسے میں اگر وہ منظر سے ہٹ جائیں تو بی جے پی کا کمل پس منظر میں چلا جائے گا۔ یہ مشیت کا کیسا انتقام ہے کہ کل تک جو وزیر اعظم  احمد آباد کے اندر سردار پٹیل اسٹیڈیم کو اپنے نام کررہا تھا آج گجرات میں بھوپندر پٹیل کے سہارے اپنی ڈوبتی کشتی کو بچانے کی خاطر ہاتھ پیر مار رہا ہے۔  کسی نےسوال کیا کہ وجئے روپانی نے اپنے پانچ سالہ  دورِ اقتدار میں کون سے پانچ اہم کام کیے تو بڑی تحقیق کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ ان کا واحد کارنامہ ڈریگن فروٹ کا نام بدل کر کمالام رکھنا تھا ۔ کاش کہ وہ انسانی فلاح وبہبود کا ایک آدھ کام کرجاتے تاکہ انہیں اس کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ امیت شاہ کے منظور کا اس طرح  ذلیل و  رسوا ہوکر جانا  آنندی بین کے چہیتے کا کوٹ کر آنا غالب کا یہ مشہور  شعر یاد دلاتا ہے؎

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن                                            بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

Comments are closed.