Baseerat Online News Portal

وقت اس سے چھین لے گا خود پسندی کا غرور

 

ڈاکٹر سلیم خان

اکتوبر 2000میں کورونا تیزی کے ساتھ دنیا بھر کے اندر  پیر پسار رہا تھا ۔ وطن عزیز میں ایک لاکھ سے زیادہ اموات ہوچکی تھیں اور 8؍ لاکھ سے زیادہ مریض اس وباء سے متاثر تھے ۔ ایسے میں وزیر اعظم نریندر مودی کو دنیا بھر کی سیر کرانےکے لیے   ساڑھے آٹھ ہزار کروڈ کا ہوائی جہاز’ انڈیا ون‘  ہندوستان میں وراد ہوگیا ۔ یہ  نہایت بھونڈا مذاق تھا مگر گودی میڈیا اس کی بھی تعریف میں جٹ گیا۔   اس وقت  ساری دنیا لاک ڈاون کی مار جھیل رہی تھی ۔  مودی جی اپنے گھر سے باہر نکلنے کی جرأت نہیں کرپارہے تھے بلکہ کیمرے کے سامنے بھی ماسک پہن کر بیٹھتے تھے ۔ ایسے میں کسی کو نئے جہاز سے دنیا کی سیر کرنے کا خیال  بھی نہیں آسکتا تھا ۔ وقت بدلا  پچھلے سال اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کا اجلاس  آیا اس میں شرکت کے لیے پہلی بار اس کا استعمال کیا گیاا ور پھر مغربی بنگال کی انتخابی مہم کے دوران  بنگلہ دیش کا سفر ہوا ۔ اس طرح  ڈیڑھ سال میں دو مرتبہ اس قیمتی جہاز نے حرکت کی ۔   فی الحال ملک  میں کئی سنگین مسائل ہیں لیکن وزیر اعظم کو ان میں دلچسپی نہیں ہے ۔ کسی صوبے میں انتخاب بھی  نہیں ہے اس لیے موصوف  بیٹھے بیٹھے بور ہورہے تھے  ایسے میں   خودپر قابو نہیں رہا  اوروہ غیر ملکی دورے پر نکل کھڑے ہوے۔ مودی  جی   کی  سیاحتی طبیعت پر خواجہ میر درد کا یہ شعر صادق آتا ہے؎

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں          زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

وزیر اعظم  کی جوانی تو  سنگھ کی نذر ہو  گئی لیکن  سرکاری خرچ پر سیر و سیاحت  کاموقع  اقتدار کے بعد کہاں ملے گا اس لیے  عیش  و عشرت  کے  مزےلوٹے جارہے ہیں ۔ یوروپ کے  دورے کا اعلان ہوا تو  بھگتوں کو گمان گزرا مبادہ مودی جی یوکرین اور روس کی جنگ میں  اہم کردار ادا کرنے جارہے ہیں  لیکن انہیں مایوسی ہوئی کیونکہ وزیر اعظم نے  کوئی ٹھوس سفارتکاری کرنے کے بجائے ایسے گول مول بیانات پر اکتفاء کیا جن  کے لیے سفر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔  اس کے لیے تو ٹوئٹر کی چڑیا کافی تھی ۔ واپسی کے بعد  دورے  پر نظر ڈالیں تو اس کا یہ  مقصد  سمجھ میں آتا ہے کہ  فی الحال کورونا کی وباء  قابو میں ہے۔چین اسے اپنی سرحد سے باہر آنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے پھر بھی خطرہ تو ہے کہ نہ جانے کب وہ  دیوار چین پھاند کر ہندوستان میں داخل ہوجائے اس لیے موقع غنیمت جان کر  مودی جی نے اپنے مخصوص  جہاز کو استعمال کرنے  کا ارادہ فرما لیا ہوگا  ۔ امریکہ میں اگر  ان  کے چہیتے  دوست ڈونلڈ ٹرمپ  برسرِ  اقتدار  ہوتے تو ممکن ہے وہ ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے  اور ٹائمز اسکوائر میں کوئی نیا کھیل تماشا  کرکے لوٹتے مگر بائیڈن کے راج میں   بادلِ نخواستہ انہیں  جنگ زدہ  یوروپ کا انتخاب کرنا پڑا۔  انہوں نے جرمنی ، ڈنمارک  اور فرانس کا مختصر دورہ کیا ۔ 

وزیر اعظم جس کام کے لیے گئے تھے وہ تو نہیں کیا بلکہ کچھ اور ہی کرکے لوٹ آئے ۔ ہندی زبان میں اس کو کہتے ہیں’’گئے تھے بھجن کرنے مگر سوت کاتنےلگے‘‘۔جیسے مداری جہاں بھی جاتا مجمع لگا کر بیٹھ جاتا اس طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے برلن کے  پوٹسڈیمر پلاٹز تھیٹر میں ہندوستانی برادری سے خطاب کیا۔ وہاں پر  مودی جی اپنے رنگ میں آگئے اور انتخابی مہم کے انداز میں  کہا کہ ہندوستانی عوام نے صرف ایک بٹن دبا کر گزشتہ تین دہائیوں کے سیاسی طور پر غیر مستحکم ماحول کو ختم کیا۔  30 سال کے بعد 2014 میں مکمل اکثریتی حکومت منتخب ہوئی اور ہندوستان کے عوام نے 2019 میں حکومت کو مضبوط بنایا۔ اس سیاسی استحکام کے باوجود  جس قدرمعاشی  عدم استحکام احمقانہ نوٹ بندی اور ناقص جی ایس ٹی سے آیا ویسا پہلے کبھی نہیں تھا ۔ ملک بیروزگاری کے آتش فشاں پر کھڑا ہے اس کے باوجود نرگسیت کے شکار وزیر اعظم کو ہری ہری سوجھ رہی ہے۔

    مودی  جی نے  فرمایا کہ  آزادی کے 75 سالوں میں وہ  پہلے  وزیر اعظم ہیں جو آزاد ہندوستان میں پیدا ہوے۔اس میں ان  کا کیا کمال ہے کیونکہ  کوئی فرد اپنی پیدائش کی تاریخ طے نہیں کرتا لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ انہیں جنگ  آزادی میں  حصہ لینے کا کوئی موقع نہیں ملا ۔ راجیو گاندھی پر چھینٹا مارتے ہوئے مودی نے کہا کہ اب کسی   وزیر اعظم کو یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ میں دہلی سے 1 روپے بھیجتا ہوں لیکن صرف 15 پیسے پہنچتے ہیں۔اس طرح مودی جی نے داخلی سیاست کو عالمی سطح پر پہنچا کر ملک کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کی مذموم حرکت کی۔  وہ بھول گئے جرمنی میں ان کی حیثیت بی جے پی کے پرچار منتری کی نہیں بلکہ ملک کے پردھان منتری کی تھی۔  اس  بیان سے اگر مودی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں بدعنوانی ختم ہوگئی ہے تو اس سے بڑا کوئی اور جھوٹ نہیں ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ رافیل گھوٹالے کو کس طرح دبایا گیا ۔ نیرو مودی اور میہول چوکسی  جیسے انگنت لوگ لاکھوں کروڈ  کا چونا لگا کر کس طرح ملک سے فرار ہوگئے۔

عالمی سطح پر بدعنوان ممالک کی فہرست میں جہاں  95 ممالک ہندوستان سے بدتر ہیں تو  84 بہتر بھی ہے اور وطن عزیز  85 درجہ پر ہے  اس لیے اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ملک کے اندر فی الحال  نجکاری کا طوفان آیا ہوا ہے ۔ اس کے  نام پر لاکھوں کروڈ کی سرکاری املاک سرمایہ داروں کو بیچی جارہی ہے اس کی آڑ میں ہونے والی بدعنوانی کا  پتہ تو مودی کے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعدہی  چلے گا۔ 75 سال میں روپیہ نچلی ترین سطح 77.41  فی ڈالر کی اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔پٹرول، ڈیزل اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گر رہے ہیں۔ مارچ اور اپریل کے 15 دنوں میں ملکی کرنسی کے ذخائر 604 ارب ڈالر سے کم ہو کر 536 ارب ڈالر پر آگئے اور ایک ہفتے کے دوران 31 ارب ڈالر کا سرمایہ باہر چلا گیا ہے۔ غیر فعال اثاثے – این پی اے 75 برسوں میں سب سے زیادہ ہے، سب سے زیادہ بے روزگاری ہے اور مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے ۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے یاد دلایا  2014 کے آس پاس، ملک میں صرف 200-400 اسٹارٹ اپ تھے۔ آج ملک میں 68,000 سے زیادہ اسٹارٹ اپس ہیں لیکن اس کے باوجود متوسط درجہ کا کاروبار دم توڑ رہا ہے۔ اس کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے  کہ مودی حکومت کی معاشی پالیسی کے فقدان کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار ملک سے بھاگ رہے ہیں۔کشمیر کا حوالہ دے کر انہوں نے کہا ،پہلے ایک قوم تھی لیکن دو آئین تھے۔ ایک ملک اور ایک آئین کے نفاذ میں سات دہائیاں لگیں کہنے والے وزیر اعظم بھول گئے کہ ابھی دو ہفتہ قبل بھی وہ جموں سے آگے نہیں جاسکے اور اس کے باوجود جلسہ گاہ سے چند میل کے فاصلے پر دھماکہ ہوا جب دو آئین تھے تو وہ سرینگر میں جاکر پرامن ماحول میں تقریر کرکے لوٹے تھے ۔  اس لیے تشدد ختم کرکے  امن قائم کرنے کا دعویٰ تو اپنی موت مرگیا لیکن اس کے عوض انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں ملک کا نام بدنام ہوگیا۔

اپنی تعریف میں آسمان اور زمین کے قلابے ملانے والے مودی جی بھول گئے کہ ورلڈ ہیپی نیس انڈیکس، ورلڈ ہنگر انڈیکس ، ڈیموکریسی انڈیکس اور اب صحافتی انڈکس میں ہندوستان کا شمار آخر کے چند ممالک میں ہوتا ہے۔ان  کے ڈھول کا پول اس وقت کھل گیا جب پر یس کانفرنس کا موقع آیا ۔ اس کی بابت  برلن  میں معروف خبررساں ایجنسی ڈی ڈبلیو کے بین الاقوامی چیف ایڈیٹر رچرڈ واکر نے یہ ٹویٹ کیا کہ :’’مودی اور شولس پریس کے سامنے آکر دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے 14 معاہدوں کا اعلان کریں گے۔ وہ صفر سوال لیں گے اور ایسا ہندوستانی فریق کے اصرار پر کیا گیا ہے‘‘۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ پچھلے آٹھ سال میں  چار مرتبہ جرمنی کا دورہ کرنے کے باوجود مودی جی  ایک پریس کانفرنس  میں سوالات کے جوابات دینے کی ہمت نہیں جٹا پائے۔ 2014میں اقتدار سنبھالنے کے  پانچ ماہ بعد جاپان میں ایک پریس کانفرنس کے اندر انہوں نے چائے تو لی مگر سوالات نہیں لے سکے ۔ جرمنی اور جاپان تو دور اقتدار سنبھالنے کےپانچ سال بعد 2019 میں دوبارہ منتخب ہونے پر پریس کانفرنس میں آئے تو امیت شاہ نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیا ۔ جس وزیر اعظم سے یہ معمولی کام نہیں ہوپاتا اس کو کم ازکم اپنی پیٹھ تھپتھپانے سے پر ہیز کرنا چاہیے۔  مودی جیسے خود پسند لوگوں کے لیے کرشن ادیب نے کیا خوب کہا ہے؎

وقت اس سے چھین لے گا خود پسندی کا غرور                        ہاں یقیناً وہ خدا بن کر بہت پچھتائے گا

Comments are closed.