Baseerat Online News Portal

وقت بہت قیمتی ہے، اسکی اہمیت کاخیال رکھئے!

تحریر: شوکت علی دربھنگوی
ایک سال خوردہ شخص جسکے چہرے کا نقش پوری طرح متغیر ہوگیا تھا، جسکے رخ انور پر سلوٹوں نے اپنا بسیرا اور جھلیوں نے اپنا آشیانہ بنا لیا تھا، بدن کی کھالیں گوشت سے جدا ہوکر جھولا جھولنے لگی تھی، نسیں اپنے وجود کا صاف پتہ دینے لگی تھی، طاقت نے جوڑوں اور جسموں کو خیراباد کہ دیا تھا، آواز میں ہکلاہٹ اور بدن میں کپکپاہٹ دائمی ساتھی بن گئے تھے۔
وہ تنہا اپنے جسم کو ایک چٹیل اور بیابان جگہ میں پاتا ہے، گہرے سیاہ بادلوں کا پریشان گھنا جنگل ستاروں کی انجمن پر دبیز چادر تانے ہوا تھا، چاند بھی کالے بادل میں اپنا منھ چھپائے ہوا تھا، رات کی تاریکی اسے اپنے حصار میں لیے ہوئی تھی، سیٹیاں بجاتی ہوئی ہوا چنگھاڑنے لگی تھی، بادل بھی شدت سے گرجنے لگا تھا، اندھیرا اس جگہ میں سمٹتا ہوا چلا آرہا تھا، ہوا کے ڈراؤنے لمس نے اسکے جسم کو بے حس کردیا تھا، گھٹا ٹوپ تاریکی دھیرے دھیرے چھارہی تھی، بجلی کی آواز اور آسمان پر چمکنے والی روشنی اس بوڑھے کے غم کو بڑھا رہی تھی، آندھی کی گونج اسکے دم کو چھلنی کر رہی تھی، اسکا تخیل اور وجدان پوری طرح پتھرا گیا تھا۔
وہ ٹکراتا لڑ کھڑاتا ہوا، بدن پر طاری ہونے والے خوف کو کم کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا، تھوڑے وقفے کے بعد ہوا میں ٹھہراؤ آتا ہے، بجلی کی کڑک کچھ تھم نے لگتی ہے، رات کے سناٹے میں پہلا تارا کسی مسافر کے گیت کی طرح چمکنے لگتا ہے، یک دم اسکی آنکھیں اندھیرے میں جگنو کی طرح چمکنے لگتی ہے، اور اس پر خوف کا بہاؤ کچھ کم ہونے لگتا ہے۔
تاروں کی سبھا سجنے لگتی ہے، پھیکی پھیکی سوگوار چاندنی چھانے لگتی ہے، کہ یکایک آسمان کے بیچ ایک روشنی معلوم ہوتی ہے، جسمیں ایک خوبصورت سجی دھجی دلہن نظر آتی ہے، وہ نیم باز لمبی لمبی پلکیں جب بند کرتی تو چھوئی موئی کی طرح شرمانے لگتی، وہ ٹک ٹکی باندھ کر للچائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھنے لگتا ہے، وہ پریشان دماغ میں برفانی مجسمے تراشنے لگتا ہے، وہ اسکے حسن و جمال کو دیکھ کر اسکا گرویدہ ہوجاتا ہے، وہ پاک دل اور محبت بھرے لہجے میں معلوم کرتا ہے کہ آپ کون ہیں؟ وہ شیریں زبان کو حرکت دیکر مائل آواز سے کہتی ہے میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں وہ اس طرح کہہ رہی تھی جیسے پھول کی پنکھڑیاں اس کے منھ سے جھڑ رہی ہو، وہ اسکو مسخر اور حاصل کرنے کیلیے اس سے طریقہ معلوم کرتا ہے، اسکے کانوں میں شہد ٹپکاتے ہوئے کہتی ہے نہایت ہی آسان ہے، جو کوئی خدا کے حکم کو عملی زندگی بنالے، رسول اللہﷺ کے طریقے کو اپنی زندگی میں ڈھال لے اور انسان کی بھلائی اور بہتری میں سعی کرے میں اس کیلئے مسخر ہوتی ہوں یہ کہتے ہوئے الوداع لیتی ہے، اور اسے داغ مفارقت دے جاتی ہے۔
پھٹی پھٹی آنکھوں میں اسکی شکستہ قسمت بل کھانے لگتی ہے، وہ بوڑھا اپنی زندگی پر سر سری نظر دواڑانے لگتا ہے، وہ اپنے ماضی کو ٹٹولنے لگتا ہے، وہ ماضی کے جھرونکوں میں کھنڈر اور مایوسی ہی دیکھتا ہے، وہ تسلسل کے ساتھ بے وقعتی کی حالت میں گزرے ہوئے پلوں کو یاد کرتا ہے، کاش کوئی نیکی مل جاتی، کاش کوئی اچھا کام مل جائے تاکہ اس دل فریب دلہن کو حاصل کرسکوں سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں لگتا، وہ اپنی سوچ کی رفتار کو کبھی جوانی کے دریچوں سے گزارتا تو کبھی بچپنے پر جاکر ٹھہراتا، وہ اپنا سرخ سپید چہرہ، اچھا ڈیل ڈول، بھرا بھرا بدن، خوابوں سے بھری آنکھیں، موتی کی لڑی سی دانت، امنگ بھرا دل، ہر کچھ کر گزرنے کا جذبہ یہ سب باتیں قطار در قطار اسکی شانوں پر سوچنے سمجھنے والے سر میں سیل رواں ہوتا ہے۔
وہ اپنے ماں باپ کی نصیحتوں کو یاد کرتا ہےجو خدا پرستی اور نیک کاموں کی ترغیب دیا کرتے تھے، وہ اپنے استاذوں کے نرم اور کڑک لہجے کو یاد کرتا جو اسکی زندگی سنوارنے کیلیے جدوجہد کیا کرتے تھے، وہ اپنے دادا دادی کے پند و نصائح کو یاد کرتا جو اپنی تجرباتی زندگی سے اسکو راہ عمل پر لانا چاہتے تھے، وہ رونے اور چلانے لگتا ہے خود کو کوسنے لگتا ہے، وہ اس ناکارہ زندگی پر ماتم کرنے لگتا ہے، آہ! وقت گزر گیا افسوس میں اپنے تئیں یہ کہہ کر خود کو برباد نہ کیا ہوتا کہ ابھی وقت ہے، وہ ہر اس دور کو یاد کرتا جو نہایت بے مروتی اور کج خلقی سے آخرت بنانے والی اس حسین زندگی کے ساتھ برتاؤ کیا تھا، وہ اپنے ذاتی عمل کا خاتمہ اور کسی طرح کے جاری نہ ہونے والے ثواب کا سوچ کر وہیں گرجاتا ہے کاش یہ سمجھ پہلے ہی آجاتی۔
مرغے کی آذان اور چڑیوں کی تسبیح جب اسکے کانوں میں پہونچتی ہے اور وہ نیند سے بیدار ہوتا ہے وہ زار و قطار ماں سے گلے لگ کر رونے لگتا ہے اور خواب میں گزرے ہوئے احوال ہچکی لیتے ہوے سنانے لگتا ہے اور ماں کے سامنے عہد لیتا ہے کہ میں خواب والے بوڑھے کی طرح زندگی نہیں گزارونگا اور نیکی کی اس دلہن کو ضرور حاصل کروں گا جو صرف صدق و صفا کے راستہ سے پائی جاسکتی ہے۔

Comments are closed.