Baseerat Online News Portal

وکاس دوبے "انکاؤنٹر یا شوٹنگ ؟نوراللہ نور

وکاس دوبے ” انکاؤنٹر یا شوٹنگ ؟

 

نوراللہ نور

 

گزشتہ دو تین دن قبل وکاس دوبے نامی ایک گینگسٹر نے پولیس کے آٹھ جوانوں کو اپنی ذہنی آلایش کا نشانہ بنایا اور اسے سورگ باسی کردیا اور پھر موقعہ واردات پر سب کی نظر میں دھول جھونک کر رفو چکر ہو گیا اور خفیہ طریقے سے اجین کی راہ لی

 

اس کے بعد خبر آی کہ پولیس اس کی تلاش میں اجین پہونچی اور اسے گرفتار کر کے عدالت میں پیشی کے لیے پولیس وین سے لے جارہی تھی اسی اثنا اس معذور لنگڑے (جیسا کہ بتایا گیا ہے ) وہ لنگڑا رہا تھا فرار ہونے کی کوشش کی اس کے بعد پولیس سے اس کی مڈ بھیڑ ہوی اور پولیس نے بڑی جان بازی سے اس کا انکاؤنٹر کر کے پاپی کو انجام تک پہونچا دیا ۔

 

اگر دیکھا جائے تو یہ انکاؤنٹر کم اور فلموں کی طرح اسکرپٹیڈ کہانی ہے اور اس کے پس پردہ بہت سے خاطی کو بچانا ہے یہ وکاس دوبے کا انکاؤنٹر نہیں ہے بلکہ وہ حقائق جو اس کی زبان سے عدالت کے سامنے آنے تھے اس کو اس ڈرامے کے بند کردیا

بہت ساری ایسی باتیں ہیں جو یہ باور کراتی ہے کہ یہ انکاؤنٹر نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر کی جانے والی ایک منظم ساز ش ہے آیے!! ذرا ہم اس ڈرامے پر ایک نظر ڈالتے ہیں سب سے پہلے وہ ملعون پولیس والوں کے ساتھ سفاکانہ عمل انجام دیتا ہے اور راتوں رات وہاں سے اجین منتقل ہو جاتا ہے جب سارے بارڈر سیل تھے تو وہ اجین کیسے پہونچا ؟

 

دوسری بات اجین پہونچ کر مندر میں روپوش ہونے کا ناٹک کرتا ہے کیوں کہ وہ وہاں آزادی سے گھوم رہا تھا اور تصویر لے رہا تھا کیا اس وقت پولیس والے کی نظر اس پر نہیں پڑی اور اس کے بعد پھر وہ میڈیا کے سامنے چینختا اور چلاتا ہے کہ میں ہی وکاس دوبے ہوں کانپور والا اب آپ ہی فیصلہ کریں جو اتنے جرم کا ارتکاب کرے وہ مندر میں کھلے عام کیوں گھومے گا اور غضب بالائے غضب میڈیا کے سامنے اقبال جرم کیسے کرسکتا ہے اور اس کی گرفتاری کے لیے جب پولیس ڈیپارٹمنٹ متحرک تھا تو وہ ایک حولدار کے ذریعہ گرفتار ہوتا ہے اور اس کے بعد جب وہ سچ اگلنے ہوتا ہے تو اس کو ڈرامے سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے بھلا یہ سب ایک مجرم سے کہیں متوقع ہے اس لیے میں تو کہتا ہوں کہ یہ ایک اسکرپٹ تھی خاطیوں کو بچانے کے لیے جس کی شوٹنگ چل رہی تھی یوپی پولیس کے ذریعہ ۔۔۔

 

آخر ہر بار جب بھی حقائق سامنے آنے والے ہوتے ہیں تو اس طرح کی واردات کیوں انجام پاتے ہیں آخر یہ بر اسر اقتدار لوگ کب تک عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے اور ہماری پولیس جہاں پر مستعد ہونی چاہیے وہاں پر تو خاموش تماشائی بنی رہتی ہے اور جہاں ایسے مواقع آتے تو حرکت میں آجاتی ہے اس ملعون کو تو مرنا ہی تھا مگر اس کے ذریعہ جو بیشمار جرائم پیشہ کی چٹھیا کھلنے کی کیوں بند کردیا آخر ایک ہتکڑی میں جکڑا ہوا شخص بھاگنے کی کوشش کیسے کر سکتا ہے اور پولیس کا ہی انکاؤنٹر کر کے کیسے بھاگنے کی کوشش کرسکتا ہے ؟ اس طرح کبھی بھی جرائم قابو میں نہیں آیے گا بلکہ کل کو پیسے کی خاطر اور سستی شہرت کے چکر میں اس دلدل میں پھنسے گا اور پھر نہ جانے کتنے لوگوں کی جان سے وہ کھیلے گا ؟؟

 

اسی طرح حیدرآباد میں ایک لیڈی کے ریپسٹوں کو پولیس حاضری کے لیے لے کر جارہی تھی انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی فرضی ڈرامہ رچ کر سچای پر دوبارہ پردہ ڈال دیا ان کو تو مرنا ہی تھا مگر جب عدالت میں حاضر ہوتے اور قانون اس کو سزا سناتا تو اس سے اور بھی وہ لوگ جو ان جرائم پیشہ لوگوں کی پشت پناہی کرتے ہیں ان کے چہرے سامنے کھل کر آتے اور اس طرح کے گھناؤنے فعل کا سد باب ہوتا مگر پولیس کو تو اپنے آقاؤں کی سننی ہے تو وہ بھلا ان سب باتوں دھیان کیوں دے گی ؟

اور جب یوں ہی جرم کا فیصلہ بھیڑ کرے گی یا پھر پولیس کی گولیاں کرے گی تو عدالتوں پر قفل آویزاں کر دینا چاہیے ججوں کو رخصت دے دینی چاہیے اور پولیس کو ہی منصف بنا دینا چاہیے اور جب انکاؤنٹر ہی آخری اور مناسب فیصلہ ہے تو اس طرح تو بڑے بڑے مجرمین کا سر راہ انکاؤنٹر کر دینا چاہیے انہیں سلاخوں کے پیچھے ان کے اوپر صرفہ کیوں لگا جارہا ہے سارے ادارے بند ہو جائے اور مجرم کو سیدھا انکاؤنٹر کرکے پاپ ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہیے

مگر حقیقت یہ ہیکہ ان کو ان سب سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ ان کے ہاتھ خود ہزاروں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں

یہ سب اپنی خامیاں پر پردہ ڈالنے اور جرایم کے پیشے کو فروغ دینے کے لئے ایسا کیا جاتاہے اور جب تک یہ سنگھاسن پر ہیں ایسی فلمیں دیکھنے کو ملتی رہیں گی بے فکر رہیں ایک بار کہتا ہوں کہ یہ انکاؤنٹر نہیں تھا بلکہ حقائق کو چھپانے کے لئے رچی گیی ایک سازش اور ایک فلم کی شوٹنگ تھی ۔۔

Comments are closed.