Baseerat Online News Portal

وکاس دوبے کی  فلمی انکاونٹر اور ڈرامائی   انتم سنسکار

 

ڈاکٹر سلیم خان

کورونا کے  قہر سے نجات ملی بھی  نہیں تھی کہ سرحد پر چین نے  دراندازی کردی۔  ذرائع ابلاغ  یکلخت کورونا کو بھول کر چائنا کے پیچھے پڑگیا ۔ خیر 20 فوجی جوانوں کا بلیدان لے  کر چین  پیچھے ہٹا تو کانپور میں دس پولس کے جوانوں کو وکاس دوبے نے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔   مودی جی تو  چین کا  کچھ بگاڑ نہیں  سکے مگر یوگی جی  نے اپناغصہ دکھانا شروع کردیا ۔ اس کی ابتدا وکاس دوبے کے گھر پر بلڈوزر چلا کر کی گئی تاکہ ٹیلی ویژن والوں کا پیٹ اور  پردہ بھر سکے ۔ ایسی  احمقانہ  حرکت یوگی جیسا  جنونی  وزیر اعلیٰ   ہی کرسکتا ہے اس لیے کہ  موجودہ سیاسی نظام میں مقننہ کا کام قانون سازی ہے ۔ عدلیہ کا کام  قوانین کے مطابق فیصلے کرنا ہے اور انتظامیہ انہیں نافذ کرتی ہے۔ کسی کا گھر مسمار کرکے ازخود  سزا دینا نہ تو مقننہ کا حق اور نہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن جو لوگ اپنی من مانی کرکے فرضی انکاونٹر کروا سکتے ہیں ان کے گھر توڑنا کون سی بڑی بات ہے؟

وکاس دوبے کا انکاونٹر جس بھونڈے طریقہ سے کیا گیا اس مثال پہلے نہیں ملتی ۔  یعنی پہلے یہ بتانے کے لیے لیپاپوتی کی جاتی تھی کہ پولس نے جان بوجھ کر نہیں مارا اس لیے کہ عوام ناراض ہوتے تھے ۔ اب یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پولس نے جان بوجھ کر مارا تاکہ عوام خوش ہوں ۔ اصل چیز قانون کی حکمرانی نہیں بلکہ عوام کی خوشنودی یا ناراضی ہے۔ وکاس کے انکاونٹر نے ثابت کردیا کہ  اندھیر نگری اور چوپٹ راج میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ مودی یا یوگی ہے تو (بڑی سے بڑی حماقت  یا شقاوت ) ممکن ہے۔  یہ حضرات  کرتے پہلے ہیں  اور سوچتے  بعدمیں ہیں۔  ویسے یہ مشکوک ہے کہ بعد میں سوچتے ہیں ۔  لوگوں نے سوال کیا کہ عدالت کے کون سے فیصلے کے تحت یہ کارروائی ہوئی تو جواب آیا کہ  وہ گھر غیر قانونی تھا۔ اب  سوال  ہے کہ   یہ  انکشاف اس دردناک سانحہ کے بعد کیوں ہوا؟   اور اگر پہلے سے پتہ تھا  تو اس کا انتظار کیوں کیا گیا ؟ خیر اس طرح یوگی جی کے کارناموں  کی فہرست میں ایک دلچسپ  اضافہ ضرور ہوگیا۔

  وکاس دوبے کا گھر گرانے کے بعد وزیر اعلیٰ کویہ  فکر لاحق  ہوگئی کہ کہیں ان کے  ہندو رائے دہندگان  یہ سوچ کرناراض نہ ہوجائیں کہ  یوگی جی صرف  ہندو غنڈوں کے  مخالف ہیں  ۔  اس کا کفارہ ادا کرنے کے لیے  مختار انصاری کے کچھ آدمیوں کے گھروں کو بھی گروادیا  گیا ۔ ذرائع ابلاغ نے اس خبر کو خوب اچھالا اور یوگی جی کو ہند کیسری وزیراعلیٰ بنانے کی کوشش کی لیکن بات نہیں بنی ۔ خون کا بدلہ تو خون ہی ہونا چاہیے یہ کیا کہ خالی گھروں کو توڑا پھوڑا جارہا ہے ؟ اس کے بعد یوگی جی کی  پولس حرکت میں آئی اور اس نے وکاس دوبے کےلوگوں کا انکاونٹر شروع کردیا ۔ ان  انکاونٹرس  کی تعداد بڑھانے کا معاملہ بھی خاصہ  دلچسپ ہے۔ پہلے کہا گیا تھا کہ مڈبھیڑ  میں دو بدمعاش ہلاک ہوگئے۔ اس کے بعد ان کی شناخت وکاس کے ماموں پریم پرکاش پانڈے اور رشتے دار اتلُ دوبے کے طور پر کی گئی لیکن پھر اس کا کریڈٹ لینے کے لیے یہ   کہا نی سنائی گئی کہ   پولس نے صبح ۷ بجے ان کا انکاونٹر کردیا ۔

اس سے بات  نہیں بنی کیونکہ ان دونوں کے قتل کی خبر پرانی ہوگئی تھی اور اس کا کریڈٹ  پولس کو جا چکا تھا اس لیے  ہمیر پور سے  امر دوبے کےا نکاونٹر کی خبر آئی ۔ اس کے بعد پربھات مشرا ور پروین دوبے کی  لاشیں اخبارات میں دکھائی گئیں  ۔ پربھات کو پولس نےاسی  فریدآباد سے گرفتار کیا جہاں وکاس دوبے اجین جانے سے قبل رکا تھا ۔ پولس کے مطابق  پولس   کانپور لاتے ہوئے گاڑی پنچر ہوئی تو پربھات نے بھاگنے کی کوشش کی اورپولس کی پستول سے  فائرنگ بھی کردی ۔ یہ دونوں کام کیسے  ہوئے یہ تو یوگی جی ہی بتا سکتے ہیں خیر پربھات ہلاک ہوگیا ۔پربھات  کے بعد عوام کے غم غصے کو کم کرنے کے لیے  اور حکومت کی ناکامی کی جانب سے توجہ  ہٹانے کی خاطر اٹاوہ میں پروین دوبے کو مار گرایا گیا ۔   ان انکاونٹرس کے بعد عوام کا غم غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا تو وکاس کی گرفتاری  کا ڈرامہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

وکاس دوبے کی   گرفتاری  قبل جو کچھ ہوا وہ کسی ایکشن ڈرامہ سے کم   دلچسپ نہیں تھا ۔ فرار ہونے کے بعد  وکاس دوبے کے  ۶ دن بڑے مزے سے گزارے ؟ پہلے دو روز تو وہ اپنے پڑوس کے گاوں شیوالی میں  دوست کے گھر جما رہا ۔ یہ  اس وقت کی بات ہے جب  یوپی انتظامیہ  اس کو گرفتار کرنے کے بجائے گھر  پر بلڈوزر چلانے کی نوٹنکی کررہا تھا ۔  اس کے بعد وہ اپنے علاقہ سے نکل کر فرید آباد آیا ۔   یوگی جی  صوبے کی ساری سرحدیں بند کروا چکے تھے ۔ وکاس دوبے کی  ہورڈنگ پوری ریاست میں لگی ہوئی تھیں ۔ اس کی تصاویر ہرچیک پوسٹ پر چسپاں تھیں اس کے باوجود وہ بڑے آرام  کے ساتھ اپنے گاوں سے نکل کرلاری سے ۹۰ کلومیٹر دور   اوریاّ پہنچا اور وہاں سے گاڑی  کے ذریعہ باقی ۳۹۰ کلومیٹر کا سفر کرکے فریدآباد میں وارد ہوگیا۔ اس دوران اس نے  سارا  وقت  سڑک پر گزارا  لیکن اسے  کوئی پہچان نہیں سکا ۔

   وکاس دوبے کوئی عام مجرم ہوتا تو کانپور سے نکل کر رائے پور ، پٹنہ یا رانچی چلا جاتا  لیکن اتفاق سے ان تینوں مقامات پر فی الحال غیر بی جے پی وزرائے اعلیٰ ہیں  اس لیے ان پر اعتماد کرنے کے بجائے دوبے نے  ہریانہ کو ترجیح دی جہاں بی جے پی  کے مدن لال کھٹر بر سرِ اقتدار ہیں ۔ فریدآباد میں وکاس  کس قدر پرسکون تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  جس  ہوٹل میں وہ  فرضی نام سے رکا  تھا  وہاں سے آٹو رکشا میں بیٹھ کر اپنے رشتے دار کے گھر گیا ۔ ہریانہ پولس اور اترپردیش کی ایس ٹی ایف جب  ہوٹل پہنچی تو اسے ویڈیو فوٹیج کے سوا کچھ نہیں ملا ۔ سانپ کے بجائے رسی کو پیٹ کر وہ لوگ لوٹ گئے۔  لطف کی بات یہ ہے کہ فریدآباد سےنکل جانے کے بعد پولس والے وکاس کے رشتے دار کے گھر پہنچے تاکہ  وہاں سے  چار پستول برآمد کرسکیں۔ یہاں  یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ  ان میں سے دو پستول  پولس  کو مار کر چھینی گئی تھی ۔ اس کا مطلب  ہے وکاس نے  ان  کے ساتھ یہ  سہانا سفر  کیا ۔

  پولس والے  وکاس کو گڑگاوں اور دہلی میں یہ سوچ کر  تلاش کرتے رہے  کہ  اس کو  شاہ جی سے بہتر کون  پناہ دے سکتا  ہے ؟ اس نے پھر چکما دے کر  پنجاب یا راجستھان جانے کے بجائے اپنی سسرال مدھیہ پردیش کا رخ کیا ۔    اتفاق سے مذکورہ  دونوں صوبوں میں بھی کانگریس کا راج ہے اس لیے وکاس نے سوچا ’تیرے انگنے میں ہمارا کیا کام ہے‘ ۔ مدھیہ پردیش کی پولس بھی غافل  نہیں تھی اس نے  شہڈول سے وکاس کے سالے گیانیندر اور بھتیجے شیلندر کوتو اٹھایا مگر وکاس ان کے ہاتھ نہیں لگا۔  ایک سوال یہ پیدا  ہوتا ہے کہ وکاس فرید آباد سے  سیدھے مہا کال کیوں نہیں پہنچ گیا ؟ بعید  نہیں کہ فریدآباد میں سودہ طے ہوجانے کے بعد اس نے ۷۷۵ کلومیٹر کا سفر کا قصد کیا ہو اور اترپردیش سے گزر کر اجین پہنچا ہو؟  اس سوال کا  جواب  کم از کم اس وقت تو  نہیں ملے گا جب تک کمل کھلا ہوا۔  اس لیے کہ اب تو ’’ سیاں  بھئے کوتوال تو پھر  ڈر کاہے کا‘‘ والی کیفیت ہے ۔  

وکاس کی گرفتاری  بالکل فلمی انداز میں ہوئی اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے وکاس کی تصویر دیکھ  کر پرانی فلموں کا پوسٹر یاد آگیا ۔ اس بات کا امکان ظاہر کیا جانے لگا کہ  پھر سے ’پھٹاپوسٹر نکلا ہیرو‘ کی مانند اس گرفتاری سے کوئی نیتا ظاہر ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جھانسی سے کانپور لاتے ہوئے دس گاڑیوں کے قافلے میں صرف ایک گاڑی الٹ گئی۔ گاڑی کو الٹنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی اس لیے کہ دودن قبل پر بھات کی کار پنچر ہوچکی تھی ورنہ اسی سے کام چل جاتا ۔ اب پربھات کے لیے اگر گاڑی پنچر کرنی پڑتی ہے تو وکاس کے لیے اس کو الٹنا ضروری تھا لیکن اس سے قبل قافلے کے ساتھ چل رہے میڈیا والوں کو راستے میں روک کردور کردیا گیا کہ کہیں کوئی ویڈیو بناکر اس راز کو فاش نہیں کردے۔ یوپی کی پولس جو وکاس کے معمولی آدمی کو ہتھکڑی نہیں پہنا سکتی وہ وکاس کے ساتھ ایسا سلوک کیسے کرسکتی تھی ۔ اس کے ہاتھ کھلے تھے اور اگر پربھات پولس کا پستول چھین سکتا ہے تو وکاس کیسے پیچھے رہ سکتا ہے تو وکاس کیسے پیچھے رہ سکتا ہے ؟ اس کے بعد یوگی کی انصاف پسند  پولس کو بھی تو  دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہی پڑا اور گرو کو چیلے کی مانند ایک اس کے پاس پہنچا دیا گیا ۔  بالی ووڈ   میں بھائی اتفاق سے مل جاتے ہیں لیکن گرو اور چیلا اس طرح نہیں ملتے ۔ 

وکاس کا انتم سنسکار (آخری رسومات) بھیرو گھاٹ نامی شمشان گھاٹ میں ہوئی ۔ اس موقع پر اس کا بیٹا اہلیہ اور ماں موجود تھے۔ میڈیا کو باہر روک دیا گیا تھا اس کے باوجود انہوں نے وکاس کی اہلیہ رچا دوبے کو گھیر لیا اور ایسے سوالات کیے جن کا موقع محل نہیں تھا ۔ ایک مجرم بھی انسان ہوتا ہے اور اس کے اعزہ و اقارب کا اس تعلق خاطر ہوتا ہے ۔ وہ اس کی موت پر غمگین ہوتے ہیں۔  ایسے میں جب اخباری ترجمان کے اوٹ پٹانگ سوالات کو سن کر رچا غصے سے بے قابو ہوگئیں اور انہوں نے بر ابھلا کہنا شروع کہہ دیا۔ رچا نے الزام لگایا کہ وہ موت پر سیاست کررہے ہیں ۔ اس نے کہا پہلے مرواتے ہوئے پھر منہ چلانے آجاتے ہو۔ میڈیا کو یہ سوال کرنا ہی نہیں چاہیے تھا کہ کیا وکاس دوبے نے غلطی کی تھی ؟ یہ تو جگ ظاہر ہے اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے؟ اس سے بھی زیادہ کرخت سوال کہ کیا اس کے ساتھ جو ہوا وہ ٹھیک ہوا ہے؟  اس پر رچا نے کہا بھڑک کرکہا اس کے خاوند نے غلطی کی اور پولس نے جو کیا سو ٹھیک کیا نیز وہ اپنے گھر واپس چلے جائیں۔

  اپنے چینل کی ٹی آر پی بڑھا کر اپنا قد بڑھانے کی دوڑ میں پاگل نامہ نگاروں  نے یہاں تک پوچھ لیا کہ کیا وکاس نے قتل نہیں کیے تھے ؟  اس پر رچا آپے سے باہر ہوکر بولیں کرےگا تو تو کون ہوتا ہے بولنے والا؟میرے خاوند کو مار کر تم سب نے ٹھیک نہیں کیا ۔  جس نے غلطی کی ہے اسے سزا ملے گی۔جس نے مروایا اور جس نے مارا ہے سب مریں گے ۔  یہ میں کہہ رہی ہوں ۔ ضرورت پڑےگی تو بندوق بھی اٹھاوں گی ۔ اب میں خود چلاوں گی بندوق۔ یہ یقیناً  ایک اشتعال انگیز بیان ہے لیکن رچا کو اس نازک  موقع پر اشتعال دلانے کی غلطی نامہ نگاروں سے ہوئی تھی ۔ انہیں اس سے پر ہیز کرنا چاہیے تھا ۔ اس میں شک نہیں کہ وکاس  ایک نہایت سفاک مجرم تھا اور اگر اس کو عدالت کے ذریعہ سزا ملتی تو ہر کوئی خوش ہوتا لیکن پولس نے غیر قانونی طور پر سزا دے کر اور میڈیا نے اس کی اہلیہ کے ساتھ بے ہنگم سوالات  کرکے لوگوں کے دلوں میں ان کے تئیں ہمدردی پیدا کردی ۔ وکاس دوبے کے ساتھ وہ سارے راز جل کر خاک ہوگئے جن کے کھل جانے سے اربابِ اقتدارخوفزدہ  تھے۔ اب وہ چین کی نیند سو سکیں گے ۔   

(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Comments are closed.