Baseerat Online News Portal

وہ مجھ سے بے وفائی نہیں کریگا

مدثراحمد شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327
ریاست میں آہستہ آہستہ گائوکشی کے خلاف قانون کو نافذ کیاجارہاہے،حالانکہ یہ قانون محض آرڈیننس جبکہ اسے دستورکے مطابق منتخب شدہ عوامی نمائندوںنے منظورنہیںکیاہے،یقینی طور پر یہ قانون بھی ملک میں بی جے پی کی جانب سے اپنے برسوں پرانے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے مقصد سے لایاگیاہے،گائوکشی کاقانون ایک حد تک تو صحیح ہے لیکن اس قانون میں جو نکات شامل کئے گئے ہیں وہ ناقابل قبول ہیں۔ریاست میں نافذ کئے جارہے گائوکشی کے قانون کا ہرحصہ ظلم وبربریت کو بڑھاوا دینے والا ہے۔اگر ہم مان کر چلیںکہ گائے ہندوئوں کا مقدس جانورہے اور اس جانور کی قربانی کو یہ لوگ برا مانتے ہیںتو ٹھیک ہے،لیکن گائے کے ساتھ بیل،بچھڑا،بھینس بھی نہیں کاٹے جاسکتے ہیں تو یہ کونسا قانون ہے۔یہاں یہ بھی سوال ہے کہ کرناٹک ،یوپی اور مہارشٹراکے ہندوئوںکیلئے گائے مقدس جانورہے جبکہ ناگالینڈ،میزروم،آسام،گوا ،کیرل ،تملناڈو سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں اس جانورکو کاٹنے اور کھانے کیلئے کھلی آزادی دے دی گئی ہے۔توکیا یہ جانور ان علاقوںکیلئے مقدس نہیںہے۔بات مقدس ہونے اور نہ ہونے پر کی بھی الگ ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ جس گائے اور بیل کوکاٹنے پر پابندی لگائی جارہی ہے،وہی گائے اور بیل خود سنگھ پریوارکے نمائندوںکے قصائی خانوں سےنکل کر بیرونی ممالک کو گوشت کی شکل میںجارہے ہیں۔مگر اس پرلگام کسنے کیلئے حکومت بالکل بھی تیارنہیںہے،کیونکہ حکومت کو یہ گوشت آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔اگر واقعی میں حکومت گائے اور بیل کو مقدس مانتی تو وہ سب سے پہلے گوشت کو ایکسپورٹ کرنے سے روکتی،مگر وہ ایسا نہیں کریگی۔ایک طرف سنگھ پریوار اور بی جے پی کی جانب سے گائوکشی پر آج سخت قوانین نافذ کئے جارہے ہیں تو کل تک کہ قصائی خانوںکے مالکان،بیف کے گوشت کے مالکان کی جانب سے بھی لاپرواہی کی کوئی کسر باقی نہیں رہی۔ہندوستان کوآزاد ہوئے75 سال سے زیادہ عرصہ گذرچکاہے،اس طویل عرصے میں مسلم لیڈروںنے قصائی خانوںکے مالکان کو اگر مناسب حق دیاہوتاتو آج یہ دن دیکھنے کو نہیںملتا۔ساتھ ہی ساتھ قصائی خانوںکے مالکان نے بھی کبھی اپنے مستقبل کو لیکر سنجیدہ فیصلے نہیں کئے۔جب بھی ان پر پولیس اور سنگھ پریوارکے غنڈوںنے حملے کیا تو انہوںنے ظلم سہا یا پھر پیسے دیکر معاملات کو رفع دفع کرلیا،تو کچھ نے یہ کہاکہ کس کے پاس ہمت ہے کہ ہم قصائیوں پر آنکھ اٹھا کر دیکھے گا،کس کی مجال ہے کہ ہماری گوشت کی دکانیں بند کروائیگا،اگر کوئی ہماری طرف دیکھے گا تواسے چیر کر بیل کی جگہ لٹکا دینگے۔یہ سب باتیں ہی آج ان فرقہ پرستوںکو قانون بنانے میں آسانیاں پیداکی ہیں۔بی جے پی تو پچھلے سات سالوں سے اور اس سے پہلے پانچ سالوں تک ہی تھی،یعنی کہ جملہ آزادی کے75 سالوں میںسے12 سال ہی اقتدار پر رہی ہے،بقیہ63 سالوں تک تو خود ساختہ سیکولر جماعتیںاور کانگریس اقتدا پر تھیں،تو کیوں ایسے قانون کو جاری نہیں کیا تھا جو اقلیتوںودلتوںکے کھانےکوتحفظ فراہم کرسکے۔دراصل جس طرح سے ملک میں حج کی سبسبڈی دیکرکانگریس70 سالوں تک مسلمانوںکوخوش کرتی آئی ہے،اُسی طرح سے بی جے پی نے اُن کے چاہنے وماننے والوں کو خوش کرنے کیلئے گائے،بابری مسجد،محبت کی شادیاں،جیسے مدعوں کو فوکس کرتے ہوئے اقتدارپر جگہ بنائی۔اُسی طرح سے کانگریس سمیت دیگر سیکولرسیاسی جماعتوںنے مسلمانوں کو گائے کھانے کی سہولت دینے،مسلم یونیورسٹی بنانے،بابری مسجدکی باز آبادکاری کے خواب دکھانے کے حوالے دیکر اقتدار پر براجمان ہوئے۔ہمیشہ مسلمانوںکے ووٹ لیکر اقتدار حاصل کرنےو الی سیاسی پارٹیوںنے یا پھر اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کےووٹ لینے والے مسلم لیڈروںنےمسلمانوںکے بنیادی حقوق فراہم کرنے کی سمت میں کبھی کام نہیں کیا۔الیکشن کے وقت پر 500 کی نوٹ اور بریانی کھلاکر ہر پانچ سال تک مسلمانوں کا ایک طرح سے ریپ کیاگیاہے۔لیکن مسلمان ہے کہ اس سیاسی ریپ کے باوجود اب بھی یہ کہہ رہے ہیںکہ وہ مجھ سے بے وفائی نہیں کریگا۔

Comments are closed.