Baseerat Online News Portal

ٹرمپ آئے یا بائیڈن آپ کو کیا فائدہ؟!! محمد صابر حسین ندوی

ٹرمپ آئے یا بائیڈن آپ کو کیا فائدہ؟!!

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

بات اس وقت کی ہے جب امریکہ اسلام دشمنی اور مسلم کشی کی تصویر جارج ڈبلو بش کے دس سالہ عہد سے خالی ہورہا تھا، عراق، افغانستان اور دیگر عرب ممالک پر قبضہ بالخصوص ورلڈ ٹریڈ سینٹر دھماکہ کے بعد پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا اعلان کرنے والے؛ بلکہ انہیں کی زبانی صہیونی جنگ دوم کی شروعات کرنے والے کی رخصتی ہورہی تھی، تب امریکہ کی سطح پر ایک نئی امید اور نئے چراغ کے طور پر براک أوباما سامنے آئے تھے، افریقی نژاد امریکی ہونے کی وجہ سے ایک بڑے طبقے نے ان کا ساتھ دیا، سیاہ فام لوگوں نے کھل کر ان کی تائید کی، دوسری طرف ان کی علمی صلاحیت اور کم عمری نے مزید لوگوں کو متاثر کیا، تو وہیں ایک طویل جنگ جھیل چکے امریکی عوام نے بھی نیک فال لینے کی کوشش کی؛ انصاف اور امن پسند لوگوں نے انہیں ایک نئی بلندی پر دیکھا، حد تو یہ ہے کہ ان کا نسبی تعلق مسلم گھرانے سے ہونے کی وجہ سے مسلمانوں نے بالعموم پوری دنیا اور خاص طور پر امریکہ میں ایک نئے عہد کی شروعات تصور کیا؛ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ انہیں فتح نصیب ہوئی، قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ جب حلف برادری کے وقت انہوں نے اپنا نام براک أوباما حسین بتلایا اس وقت تو پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی، مولویوں کے ایک ٹولہ نے ابواب فتن کی حدیثیں اور اسلام کی حمایت کے اسباب پر طول و عرض بحث شروع کردی، اخباروں میں یہی سرخی دیکھی گئی، لیکن پھر کیا ہوا؛ یہی کہ بش کی وراثت انہوں نے ایسے سنبھالی کہ خود بش کی رشک کرتا رہ گیا، تجزیہ نگار تو یہاں تک کہتے ہیں کہ تاریخ کا سب سے خطرناک صدر یہی تھا، جس نے مسلمان چہرے کے ساتھ مسلمانوں کی قبریں کھود دیں، ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔

یہی وہ شخص تھا جس نے بہار عرب کو کچلتے ہوئے عالم عرب پر اپنی من مرضی کی کٹھ پتلیاں بٹھائیں، عراق، لیبیا، مصر، افغانستان جیسے متعدد ممالک کو تہس نہس کردیا، بلکہ ایسا کردیا کہ شاید ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹمی توانائی نے بھی نہ کیا ہوگا، اس نے مزید کئی محاذ کھولے، اسامہ بن لادن کی کاروائی (البتہ اس پر کوئی حتمی اور قطعی ثبوت فراہم نہیں ہے، عموماً دانشور اسے ایک ہیولا جانتے ہیں، اور یہی سمجھتے ہیں اسامہ بن لادن اس سے کئی سال پہلے ہی افغانستان کی پہاڑیوں پر کہیں طبعی موت پاچکے تھے، اوبامہ کا کسی اسٹیج شو کی طرح اقدام اور خاص لاش کو سمندر میں بہادینے کا طور اسے مشکوک بنادیتا ہے) سے لیکر ایک خطرناک محاذ ISIS داعش کے نام پر کھول دیا، اور پوری دنیا کو ایک خطرناک جنگ میں جھونکتے ہوئے ہتھیاروں کا بازار گرم رکھا، اپنی معیشت سنبھالی اور دنیا کو ایک عظیم بحران سے دوچار کردیا، یہ سب کچھ پردہ خفا میں تھا، بش اگرچہ علی الإعلان جنگی محاذ کھول چکے تھے؛ مگر أوباما دراصل امریکہ کی بگڑتی تصویر اور چہرے پر جنگ کی پڑتی گرد کو دور کرنے کیلئے اپنا چہرہ چھپائے رکھا تھا، پس پردہ رہ کر دنیا کو قابو میں کرتے رہے، ایک دوسرے سے لڑوا کر اور خلیج میں خاص طور پر صدر مرسی کا تختہ پلٹ کروا کر سارا تماشہ دیکھتے رہے، اپنی شخصیت کو بہت زیادہ متفق، مطمئن اور Cool ظاہر کرتے ہوئے دنیا کو یہ احساس دلاتے رہے کہ امریکہ کے پاس اب تک کا سب سے اچھا صدر ہے، جو دنیا کو امن و امان کی دہلیز پر لے جانے والا ہے، اور سالہا سال سے جاری دہشت گردی کے اڈوں کو اجاڑتے ہوئے تمام باطل قوتوں ملیا میٹ کردینے والا ہے، مگر پھر بھی حق دبیز پردوں سے جھانک لیتا ہے؛ بلکہ چیر کر باہر آجاتا ہے۔

أوباما نے دو ٹرم حکومت کرتے ہوئے امریکہ کا رخ ہی بدل دیا، ایک طرف ان کا مزاج مشہور ہوا تو دوسری طرف ان کی اندرونی پالیسیاں منظر عام پر آنے لگیں، منصف مزاج اور دماغ عوام میں کھلبلی مچنے لگی، اہل دانش سمجھنے سلگے تھے کہ سپر پاور کے نشہ میں کیسے چوھدری بنتا جارہا ہے، اور سچ یہ ہے کہ أوباما خود کئی مرتبہ دبے الفاظ میں اس اقرار بھی کر چکے تھے، ایسے میں جب ایک دفعہ پھر امریکہ میں جنگی جرائم سے پریشان اور معاشی خستہ حالی؛ نیز عالمی پلیٹ فارم پر بدنامی کے ساتھ ٢٠١٦ کے اندر نئے انتخابات کئے گئے، تو اس وقت ہلیری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ آمنے سامنے تھے، ہلیری ایک خاتون تھیں، اور اپنی سلجھی ہوئی فکر سے سبھی کو متاثر کر رہی تھیں، ایک نئے امریکہ کا خواب دکھا رہی تھیں؛ (مگر حقیقت یہ ہے کہ ہلیری کلنٹن کے شوہر بل کلنٹن ہیں، جو خود بش سے پہلے امریکہ کے صدر رہ چکے ہیں اور ان کی تاریخ جنگی پالیسیوں سے بھری ہوئی ہے) لیکن سابقہ حکمرانوں نے جو بیج بویا تھا اس کا اثر کیسے جاسکتا تھا، اس پر مستزاد یہ کہ ٹرمپ نسل پرستی میں چور تھے، امریکی سیاست میں اس بار نسل پرستی کی لہر چل پڑی تھی اور وہ اپنے پاگل پن، جھوٹ، فاشزم اور نئے نئے ہتھکنڈوں کے ساتھ میدان میں تھے، چنانچہ غلاظت کی پرت کو سونا سمجھ کر اور بہت سوں نے اسی پر دل ہار کر ٹرمپ کو فتح دلا دی، یہ بات سچ ہے کہ سابقہ صدور کی طرح ٹرمپ نے کوئی ایسا جنگی محاذ نہیں کھولا، وہیں ان کی اس حساب سے بھی تعریف ہوگی کہ جو کیا کھلے عام کیا، ڈنکے کی چوٹ پر کیا۔

بالخصوص یہ بات بھی تسلیم کرنی چاہئے کہ جو لوگوں نے جنگ کے ساتھ حاصل کیا اس سے کہیں زیادہ انہوں نے بغیر جنگ کئے ہی پالیا، منصوبہ بندی اور سب سے بڑھ کر جنونیت کے عالم میں ہتھیا لیا، خاص طور پر خلیج کو غلام ہی نہیں بلکہ ان کے گلے میں اپنے نام کا پٹہ بھی ڈال دیا، فلسطین پر قبضہ کی آخری کوشش بھی ہوچکی ہے، افغانستان میں امن کے نام پر فوج واپس بلانے اور ملک کی معاشی بہتری پر دھیان دینے کی بھی فکر کی تو وہیں دنیا کو آپس میں بھڑا کر ہتھیار بھی خوب بیچے؛ لیکن ان کی نسل پرستی اور کرونا وائرس کی وجہ سے معاشی ہلچل نے سارا کھیل بگاڑ دیا؛ پھر بھی ٢٠٢٠ کے انتخاب میں اب وہ شکست کھاچکے ہیں، ان کے سامنے جون بائیڈن ہیں، ان کے اسلام اور مسلمانوں کے تئیں نرم گفتگو خوب عام ہے، بلکہ کئی تقاریر میں احادیث کا حوالہ بھی موجود ہے، مسلمانوں کو ایک نئی زندگی دینے اور امریکہ میں ان پر پابندیاں ہٹانے کی بھی خبریں ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ ان کی حمایت میں ہے، اور یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ اس کی فتح پر بغلیں بجا رہے ہیں؛ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ کی تاریخ چھوڑئے خود بائیڈن کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ جنگ پرست ہیں، انہوں نے جارج بش اور اوبامہ کہ نگرانی میں ایک زمانے تک کام کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اوبامہ نے امریکی تاریخ سے ہٹ کر باقاعدہ انہوں جو بائیڈن کی حمایت اور ٹرمپ کی مخالفت کی ہے، اس کے علاوہ ایک ڈبیٹ کے دوران بائیڈن نے ترکی کے مسئلہ پر صاف کہا تھا؛ کہ وہ اسے حملے سے سنبھالیں گے، سعودی سفیر خاشقجی کا ترکی میں بے رحمان قتل پر تفتیش اور سزا تک انجام پہنچانے کی خواہش ہے، گویا خلیجی ممالک کے تئیں یا کہئے کہ مسلمانوں کے تئیں انہوں نے جنگ کا راستہ ہی اختیار کرنا ہے، ان سب کے باوجود مسلمانوں کے شادیانے افسوسناک ہیں، ضرورت ہے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اپنے لائحہ عمل پر توجہ دیں اور خود کو مضبوط کریں اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

 

Comments are closed.