Baseerat Online News Portal

ٹیگور کے رنگا رنگ بھارت کی تلاش

عبد الحمید نعمانی
19سے 21فروری(2021) کے درمیان تین بیانات بڑے اہم سامنے آئے ہیں ، ایک ہی دن وزیرا عظم اور وزیر داخلہ کا اور بعد میں سنگھ سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت کا، وزیر اعظم نے وشو بھارتی یونی ورسٹی(بنگال) کے کانو وکیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گرو رابندر ناتھ ٹیگور نہ صرف بنگال بلکہ ہندستان کے لیے بھی تنوع کے لیے قابل فخر ہیں ، ماضی میں بنگال نے ہندستان کے بھر پور علم اور سائنس کو آگے بڑھانے میں ملک کو قیادت فراہم کی ہے ۔ بنگال، ایک بھارت اور بہترین ہندستان کی تحریک اور منزل بھی رہا ہے ۔
دوسری طرف وزیر داخلہ نے کہا کہ نیتا جی سبھاش چندر بوس کو فراموش کرنے کے لیے بہت کوشش کی گئی ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انسان کتنی ہی کوشش کرے اس کا فرض ، حب الوطنی اور ان کی اعلی قربانی نسلوں تک ہندستانیوں کے ذہنوں میں زندہ ہے۔ سنگھ سربراہ بھاگوت نے داراشکوہ اور اورنگ زیب کے الگ الگ کردار کے حوالے سے کہا ہے کہ داراشکوہ کے ہندو مسلم اتحاد کے عمل میں اورنگ زیب کے رد عمل سے رکاوٹ پیداہوگئی لیکن آج بھارت میں کوئی غیر ملکی نہیں ہے ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ تینوں حضرات کے بیانات پر نتیجہ خیز بحث کی جائے تاہم مسئلے پر بہتر طور سے توجہ مرکوز رکھنے کے لیے موضو ع پر الگ الگ مستقل بحث و گفتگو ہونا چاہیے ، وزیرا عظم نے سنگھ پریوارکے بر خلاف بھارت کے تنوعات کے متعلق اس کی روایات کے موافق بات کر کے فکرو عمل کا پر امن راستہ کھول دیا ہے ، بھارت میں بیشتر فرقہ وارانہ اور جات پات کے فسادات کا سبب بھارت میں قدرت کی طرف سے ودیعت کر دہ تہذیبی رنگا رنگی اور تنوعات کو تسلیم نہ کرنا اور تمام باشندوں پر ایک فکرو تہذیب کو لادنے کی مذموم سعی ہے ۔ غالباً یہ بنگال کے فطری ماحول اور ٹیگورکی طاقت ور شخصیت اور کردار کا اثر ہے کہ سنگھ کے عمومی رویے کے برعکس وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹیگور کے حوالے سے بھارت کے تنوع کو ایک بڑی خوبی کے طور پر پیش کیا ہے ۔ سنگھ پریوار کی یہ مجبوری اور حالات کا دباؤ ہے کہ وہ ملک کی مختلف بڑی اور معروف نام والی شخصیات کا بڑی خوبصورتی سے استعمال کر رہا ہے ۔ جب کہ جاننے والے جانتے ہیں کہ مذکورہ شخصیات کے فکرو کردار سے سنگھ کے فکرو تحریک کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ان ہی شخصیات میں گرو را بندر ناتھ ٹیگور اور نیتاجی سبھاش چندر بوس بھی شامل ہیں ، ٹیگور اوربوس فرقہ پرستی کے خلاف تھے ، جہاں نیتا جی اشتراکی نظام کی طرف رجحان رکھتے تھے ۔ وہیں رائے اور ٹھاکر مورتی پوجا سے دور و نفورتھے ، ٹیگوربنگال اور بھارت کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے۔ اس کے تنوعات اور مختلف رنگوں کی خوبصورتی و ضرورت کا احساس رکھتے تھے ان کے یہاں رحمت کا بلی والا کے علاوہ دیگر بہت سے کرداروں اور باتوں کے لیے بڑی گنجائش تھی ، ہندو اکثریتی سماج سمیت مسلم اقلیتی سماج میں بھی ابھی تک بھارت کی عظیم شخصیات کا بہتر شکل میں مطالعہ اور پورے گوشے سامنے نہیں آسکے ہیں ، نتائج کے لحاظ سے مسلم سماج کا معاملہ کچھ زیادہ ہی قابل توجہ ہے ، بنگلہ ، ہندی ، انگریزی وغیرہ میں ٹیگور پر خاصا بڑا لٹریچر ہے ، بذات خود ٹیگور کی تحریروں و تخلیقات کا بڑا ذخیرہ ہے ، لیکن وہ مسلم سماج کے عوام و خاص کی پہنچ سے عموماً دور ہے ، حتی کہ اکثریتی سماج کے بڑے حصے تک کچھ کہانیوں اور ناولوں کو چھوڑکر زیادہ تر تخلیقات و نظریات کی رسائی نہیں ہوسکی ہے مثلاً ٹیگور کی طرف سے بوس کو لکھے مکتوب کی یہ بات کہ وندے ماترم میں جس طور سے کا لی کو مرکز میں رکھ کر گیت پیش کیا گیا ہے ۔ اس کے پیش نظر ہم کسی مسلمان سے یہ امید نہیں کرتے ہیں کہ اپنی حب الوطنی کے لیے وہ یہ گیت گائے ،مسلمان اگر یہ نہ گائیں تو ہندو ؤں کو ناراض نہیں ہونا چاہیے،( کیمبرج یونی ورسٹی پریس کی شائع کردہ ٹیگور کے منتخب خطوط پر مشتمل کتاب Selected Letters of Rabindranath Tagore, editedby K. Datta and A. Robinson میں شامل مکتوب نمبر 314کا اقتباس)
وندے ماترم کے متعلق ٹیگور کا یہ موقف و نظریہ ظاہر ہے کہ ہندووادی عناصر کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا، بڑے نام کا استعمال اور بڑی باتوں کو قبول کر کے ان پر عمل میں فرق ہے ، یہ سب جانتے ہیں کہ ٹیگور کی تحریروں اور تخلیقات میں بہت سی چیزوں کو سامنے رکھا گیا ہے ،لیکن ان میں آفاقی مسلک انسانیت اور اتحاد انسانی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نسبتاً زیادہ نمایاں اہمیت دی گئی ہے، ہندو مسلم اتحاد اور مسلم سماج کے سلسلے میں ٹیگور کا نظریہ بڑا مثبت تھا، پوری آمادگی اور کھلے ذہن سے ملک میں موجود قدرتی تنوعات کو تسلیم و تبلیغ کر تے تھے اس سلسلے میں ٹیگور کی زندگی اور تحریروں و تخلیقات میں ہمیں بہت سے حوالے اور مثالیں ملتی ہیں ، ساہتیہ اکیڈمی اور سستا ساہتیہ منڈل پرکاشن دہلی کی درجنوں جلدوں میں مندرج تحریروں ،بیانوں اور خطوں نے ان کے متعلق بہت کچھ جاننے سمجھنے کی راہ ہموار کر دی ہے ۔ معروف مصنف و ادیب شانتی رنجن بھٹا چاریہ نے ٹھاکر کی حیات و خدمات کی دیگر باتوں کے علاوہ فرقہ وارانہ اتحاد اور فرقہ پرستی کے خلاف ان کے نظریے و عمل کے متعلق کئی گوشے کی نشاندہی کی ہے۔ اسے آج کے ماحول میں سامنے لانے کی ازحد ضرورت ہے ۔
ٹیگورکے حوالے سے اس بات سے فرقہ پرستی اور ہندو مسلم کے نام پر سیاست کے غبارے ہوا نکل جاتی ہے کہ ٹیگور ہر طرح کی فرقہ پرستی کے خلاف تھے۔ ان کے عہد میں بھارت میں ہندو مسلم فرقہ پرستی سب سے اہم مسئلہ تھا، ایسے ماحول میں بھی وہ بہ قول شانتی رنجن بھٹا چاریہ (را بندر ناتھ ٹھاکر صفحہ130مطبوعہ مغربنگال اردو اکیڈمی 1990)آگاہ تھے کہ ہندستان کی ترقی بغیر ہندو مسلم اتحاد کے ممکن نہیں ہے اسے ٹیگور بار بار تا حیات سامنے لاتے رہے ، بھٹا چاریہ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ٹھاکر کے خیالات سے ہمارے سیاسی رہ نما سبق لیتے اور ان پر عمل کرتے تو آج ہندستان تین ملکوں میں تقسیم نہ ہوتا۔ ٹیگور نے اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ ہندو اور مسلمان یہاں دو بڑے مذہبی فرقے ہیں ، اگر ان دونوں میں اتحاد نہ ہوتو ہندستان ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا ، ٹیگور کو یہ بات بہت کھٹکتی تھی کہ برہمنی ہندو سماج ، مسلمانوں کو نفرت بھری نظروں سے دیکھا کرتا ہے ان کی زمینداری میں بنے بیٹھک خانے میں برہمن نائب نے مسلم رعایا کے بیٹھنے کی جگہ کچھ دور پر بنائی ہے ۔ اس سے ٹیگور نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کو دور رکھنے کی یہ ذہنیت غلط ہے ۔ اس کی وجہ سے سیاسی پلیٹ فارم پر بھی مسلمان ہندو ؤں سے دور رہنے لگے ہیں ، اس کے پیش نظر ٹیگورنے مسلمانوں کو قریب کرنے کی عملی کوشش کی تھی ۔ آنند شنکر رائے (سب ڈیو یزنل مجسٹریٹ) ان سے ملنے کے لیے ان کی زمینداری کے علاقے میں گئے تھے ،نے لکھا ہے کہ ٹیگور کی کشتی مور پنکھی جس میں وہ رہتے اور سفر کرتے تھے ، کے سارے کے سارے ملازمین مسلمان تھے۔ یہی ملازمین ٹھاکر کے لیے کھانا پکاتے تھے ۔ اس تناظر میں انھوں نے لکھا ہے’’ سب سے پہلے یہ واضح کردوں کہ میرے کردار اور عملی زندگی میں ہندو اور مسلمان میں کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے ۔ دونوں فرقوں کے ظلم اورنا انصافی سے میں مساوی طور پر شرمندہ اور افسردہ ہوتا ہوں اور مجھے غصہ آتا ہے ،ہندو مسلمان میں کسی طرح کی فرقہ پرستی کو میں پورے ملک کے لیے باعث شرم سمجھتاہوں‘‘ ( ماہنامہ پر باسی ، ماہ بیساکھ 1341مطابق 1934ءصفحہ103رابندر ناتھ ٹھاکر ، حیات و خدمات صفحہ 36، 137)وہ فرقہ کے بجائے مشترکہ انسانی اقدار پر یقین رکھتے تھے ۔ ٹیگور نے مؤتر یا دیوی کو ایک خط میں لکھا تھا’’میں دیوتا کے تخیل کو اپنا کر اس سے پرارتھنا نہیں کر سکا اپنے سے اپنے آپ کو آزاد کرنا، مکت کرنے کی دشوار کوشش میں ہوں‘‘ ( پچھم بنگا،22مئی 1981ئصفحہ102مذکورہ کتاب صفحہ 133)تم مورتی پوجا کرنے کو کہتے ہو،حقیقت تو دروازے پر کھڑی زمانے سے انتظار کر رہی ہے ، اگر دروازوں کو بند کرکے مورتی کی پوجا کرنے کو کہوتو اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہوسکتا ہے (ایضاًصفحہ 133)
اگر بھارت کی رنگا رنگی سے گزرتے ہوئے ، اہل وطن کی اصل بھارت تک رسائی ہوجائے تو بڑے انقلاب کا آغاز ہو سکتا ہے ۔
[email protected]

Comments are closed.