Baseerat Online News Portal

پروین شاکر: پھولوں کو کچھ عجیب محبت ہوا سے ہے۔ محمد صابر حسین ندوی

پروین شاکر: پھولوں کو کچھ عجیب محبت ہوا سے ہے۔

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

 

تھک گیا ہے دل وحشی میرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تیری یاد سے بھی
اے ہوا کیا ہے جو اب نظم چمن اور ہوا
صید سے بھی ہیں مراسم تیرے ،صیاد سے بھی
کیوں سرکتی ہوئی لگتی ہے زمیں یاں ہر دم
کبھی پوچھیں تو سبب شہر کی بنیاد سے بھی
برق تھی یا کہ شرار دل آشفتہ تھا
کوئی پوچھے تو میرے آشیاں برباد سے بھی
بڑھتی جاتی ہے کشش وعدہ گر ہستی کی
اور کوئی کھینچ رہا ہے عدم آباد سے بھی​
شعر وشاعری خود پرکشش صنف ہے، اگر ذوق سلامت ہو، طبیعت ہشاش ہو اور شاعری بھی معیاری ہو تو انسان مسحور ہو ہی جاتا ہے، مگر جب کوئی صنف نازک خود اسے اپنی پہچان، زبان، احساس و دل کا مرکز بنالے تو دل کا تھمنا لازم ہے، مزید یہ کہ وہ شعر وشاعری کوئی رسمی طور پر نہ کرے، قافیہ بندی، جگل بندی اور حرف سے حرف ملانے پر اکتفا نہ کرے یا محض نغمگی، صوتی حلاوت اور آواز کی جادو گری تک مقید نہ ہو؛ بلکہ شکستگی حیات، مچلتے جذبات، ٹوٹتی محبتوں کی ڈور، عشق و وفا کی داستان، معاشرے میں پنپتے گلابوں کو کچلنے کی روداد، پلکوں سے کھیلنے والی سرد ہواؤں کا ظلم، زلفوں کو بکھیرنے والے بے دل کی کہانی کو الفاظ کے جامے میں پرو کر سوز و ساز کے ساتھ پیش کرے تو بھلا کوئی پتھر دل ہی ہوگا جو متوجہ نہ ہو اور زبان مکرر/ مکرر کی رٹ نہ لگائے، احساسات کی رسی کھلی چھوڑ کر اس کے آستانے پر دو زانو نہ ہوجائے، اگر اس کیفیت سے آپ دوچار ہیں تو یقیناً آپ پروین شاکر کو سن رہے ہیں، باد نسیم کے جھونکوں میں صر صر چلتی ہوائیں اگر دل میں اتر رہی ہیں، اور آپ کو یہ بتا رہی ہیں کہ کیسے صنف نازک کے سینہ کو کچلا گیا ہے، ارمانوں کی ڈولی کیسے ظالم وقت نے لوٹی ہے اور کس طرح محبوب کی تمنا، محبت کی امید اور گلابی رنگوں کے خواب میں آنکھوں سے لہو نکلنے لگے ہیں تو وہ پروین شاکر ہے، یہ کوئی عام شعراء میں سے نہیں؛ بلکہ شخصیت، جامعیت، صداقت، دیانت، نازکی، نسوانیت اور شفافیت میں کہیں ممتاز ہیں، ان کی شاعری انسان کو فطرت کے قریب کرتی ہے، انسانیت کی حقیقت بیان کرتی ہے، فکر و خیال کی ستھرائی میں سیاست اور زمانے کا ستم بھی سناتی ہے، وہ محبت میں ڈوبتے سورج تو کبھی افق سے طلوع ہونے والے ثریا معلوم ہوتی ہیں، ان کی شاعری کا شاید ہی کوئی حصہ ہے جو انسان کے دل کو نہ چھوتا ہو، اور اسے مجبور نہ کرتا ہو کہ عشق میں فنا ہوجائیں۔
پت جھڑ سے گلہ ہے نہ شکایت ہوا سے ہے
پھولوں کو کچھ عجیب محبت ہوا سے ہے
سرشارئ شگفتگی گل کو کیا خبر
منسوب ایک اور حکایت ہوا سے ہے
رکھا ہے آندھیوں نے ہی ہم کو کشیدہ سر
ہم وہ چراغ ہیں جنہیں نسبت ہوا سے ہے
اس گھر میں تیرگی کے سوا کیا رہے جہاں
دل شمع پر ہیں اور ارادت ہوا سے ہے
بس کوئی چیز سلگتی ہے دل کے پاس
یہ آگ وہ نہیں جسے صحبت ہوا سے ہے
صر صر کو اذن ہو جو صبا کو نہیں ہے بار
کنج قفس میں زیست کی صورت ہوا سے ہے ​
پروین شاکر ٢٤/نومبر ١٩٥٢ میں کراچی کے اندر پیدا ہوئیں، ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے صرف احساسات کو ہی مدار بنایا ہو اور صحرائے علمی میں بادیہ پیمائی نہ کرتے ہوئے تک بندیوں کا سہارا لیا ہو؛ بلکہ آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں، انہوں نے انگریزی ادب اور لسانیات دونوں مضامین میں ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ ایک ماسٹر ڈگری ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں بھی حاصل کی تھی، سول سروسزز اختیار کرنے سے پہلے وہ نو سال تک استاد کی حیثیت سے بھی جامعہ کراچی اور ٹرینیٹی کالج (یو ایس اے سے منسلک)میں کام کرتی رہی تھیں۔ ١٩٨٦ میں سیکریٹری دوئم کی حیثیت سے سی بی آر اسلام آباد میں تقرر ہوا تھا۔ پروین شاکر کیلئے ایک انوکھا اعزاز یہ بھی تھا؛ کہ ١٩٨٢ میں جب وہ سینٹرل سپیرئیر سروسزز کے امتحان میں بیٹھیں تو اردو کے امتحان میں ایک سوال ان کی ہی شاعری کے متعلق تھا، آپ کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی؛ لیکن ١٩٩٤ میں اس شادی کا اختتام طلاق کی صورت میں ہوا۔ وہ ایک کار کے حادثہ میں اسلام آباد میں جاں بحق ہوئیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام مراد علی ہے۔ پروین شاکر کی شاعری اردو شاعری میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند تھی ۔ پروین نے ضمیر متکلم (صنف نازک) کا استعمال کیا جو اردو شاعری میں بہت کم کسی دوسری شاعرہ نے کیا ہو گا ۔ پروین نے اپنی شاعری میں محبت کے صنف نازک کے تناظر کو اجاگر کیا اور مختلف سماجی مسائل کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا، نقاد ان کی شاعری کا موازنہ فروغ فرخزاد ( ایک ایرانی شاعرہ ) کی شاعری سے کرتے ہیں، ایسا مانا جاتا ہے کہ معاشرتی زندگی کی اتھل. پتھل نے انہیں دلسوز شاعرہ بنا دیا تھا، اور اس مقام پر کھڑا کردیا کہ نسوانی جذبات کی نمائندہ قرار پائیں، ان کی کتابیں خوشبو (١٩٧٦) سد برگ (١٩٨٠) خود کلامی (١٩٨٠) انکار (١٩٩٠) ماہِ تمام (١٩٩٤) ایک قیمتی ورثہ اور ان کے دل کی دستاویزات ہیں:
چلنے کا حوصلہ نہیں ، رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
اے میری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کر دیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ، ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی ، اس نے کمال کر دیا
میرے لبوں پہ مہر تھی ، پر شیشہ رو نے تو
شہر شہر کو میرا واقفِ حال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت نے کس شبیہہ کو خواب و خیال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری یہ کیا مجھ کو بحال کر دیا

Comments are closed.