Baseerat Online News Portal

پنجاب:  یا کبھی عاشقی کا کھیل نہ کھیل،یا اگر مات ہو تو ہاتھ نہ مل

 

ڈاکٹر سلیم خان

پچھلے دنوں ملک کے ایک سرے پر کرکٹ کا ٹسٹ  میچ کھیلا جارہا تھا اور دوسرے پر انتخابات ہورہے تھے ۔ ان دونوں کے دلچسپ نتائج سامنے آئے۔  پہلے ٹسٹ میں شکست فاش سے دوچار ہونے والی ہندوستان کی ٹیم نے  انگلینڈ کو دوسرے ٹسٹ میچ میں 317رن سے ہرا کر چنئی ٹسٹ جیت میں تاریخ رقم کردی ۔  اسی طرح پچھلی مرتبہ ۷ میں سے ۵ شہروں میں کامیاب ہونے والے بی جے پی ؍اکالی دل کا  اس بار مکمل صفایہ کرکے کانگریس 2 سے 8 پر پہنچ گئی۔  چار میچوں کی سیریز میں اس نتیجے کے بعد ہندوستان اور انگلینڈ ٹیمیں  1-1 کی برابری پر آگئی ہیں۔ اسی کے ساتھ  آئی سی سی ٹسٹ چیمپئن شپ کی درجہ بندی   میں ہندوستان دوسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹسٹ میں شکست  کے بعد ہندوستان  پہلے سے چوتھے نمبر پر کھسک گیا تھا اور انگلینڈ چوتھے سے پہلے مقام پر پہنچ گیا تھا لیکن  دوسرے ٹسٹ میں شاندار  جیت کے بعد ہندوستان اب چوتھے نمبر  سے دوسرےاور انگلینڈ پہلے سے چوتھے نمبر پر آگیا ہے۔ پنجاب کے اندر  بی جے پی اور کانگریس کے درمیان بھی  ایسا ہی  الٹ پھیر  ہوا  اور اس   پر  شوکت پردیسی کا یہ  شعر صادق  آتا  ہے؎

کس کی بازی کیسی گھات                                                                وقت کا پانسہ وقت کی بات

پنجاب کے اندر بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر بچپن میں گلی محلے کے اندر کھیلے جانے والےکرکٹ  کی یاد تازہ  ہوگئی۔  کھیل عالمی سطح پر کھیلا جائے محلے میں ہار جیت تو ہوتی ہے۔ عام طور پر کامیاب ہونے والوں کا ردعمل یکساں ہوتا ہے لیکن ہارنے والے مختلف رویہ اختیار کرتے ہیں ۔  مثلاً کوئی چپ چاپ منہ لٹکا کر میدان سے چلا جاتا ہے جیسے عام آدمی پارٹی نے کیا۔  دہلی کی سرحد پر کسانوں تحریک کو مدد کرنے کے لیے اروند کیجریوال اور ان کے نائب  منیش سسودیہ نے کیا نہیں کیا مگر سکھوں نے بالکل مسلمانوں کی طرح سوچا کہ بی جے پی کو عام آدمی پارٹی سے ہارنے کا بہت زیادہ دکھ نہیں ہوگا اس لیے اسے کانگریس کے ذریعہ ہرایا جائے تاکہ خوب مرچی لگے ۔ اکالی دل نے افسران  پر تفریق و امتیاز کا  جو الزام لگایا ہے اس کو دیکھ کر یاد آیا ہم لوگ بھی ہارنے کے بعد امپائر نے چکی (رشوت)  کھایا کہہ دیا کرتے تھے۔ اکالی دل کو بی جے پی کا ساتھ چھوڑنےکے باوجود دوستی  کی قیمت چکانی پڑی۔  اب اس کا حال قمر جلالوی کے اس شعر کی مانند ہے؎

نہ وہ پھول ہیں چمن میں نہ وہ شاخِ آشیانہ                                         فقط ایک برق چمکی کہ بدل گیا زمانہ

       عآپ اور اکالی  سے آگے بڑھ کر بی جے پی نے تو  اسے انتخاب ہی  ماننے سے انکار کردیا  ۔بی جے پی   کی پنجاب اکائی کے رہنما دنیش کمارشرما نےیہ ہوشربا   بیان دیا کہ وہ اسے الیکشن نہیں مانتے اور انہیں یقین ہے کہ اگلے صوبائی انتخاب میں بی جے پی کی حکومت بنے گی ۔ یہ بیان دلچسپ  ضرور ہے لیکن حیرت  انگیز نہیں  ۔ ملک کا وزیر اعظم جب ٹیلی ویژن چینل پر قوم سے مخاطب ہوکر یہ کہہ سکتا ہے کہ چینی ہندوستان کی سرحد میں نہ آئے تھے ، نہ آئے ہیں اور نہ انہوں نے کسی ہندوستانی چوکی پر قبضہ کیا تو بیچارہ دنیش کمار کس کھیت کی مولی ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی کے نزدیک فی الحال  سب سے بڑی پہیلی یہ ہے کہ وزیر دفاع چینیوں   کے واپس جانے کی بات کیوں کررہے ہیں جبکہ وہ آئے ہی نہیں تھے ؟

بی جے پی رہنما دنیش کمار  کے اس احمقانہ بیان کے بعد   کئی سوالات پیدا ہو گئے ہیں مثلاً انہیں یہ بتانا ہوگا کہ اگر یہ انتخاب نہیں تھا تو کیا تھا ؟  اگر اس میں دھاندلی ہورہی تھی تو انہوں نے نتائج سے قبل اس  کا بائیکاٹ یا کم ازکم اس کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کیا ؟ اگر   ان کے صدر  اشونی شرما کو کارکنان سے ملنے نہیں دیا جارہا تھا تو مرکزی وزیرداخلہ کیوں کر خاموش تماشائی بنے ر ہے؟ ان کو مداخلت کرنے سے کس نے روکا؟   اور اگر اگلے صوبائی انتخاب سے قبل بھی وزیر اعلیٰ ارمندر سنگھ ہی رہیں گے تو ان دھنادلی  کرنے سے کیسے روکا جائے گا ؟ اور اگر یہ  نہیں ہوسکے گا تو کوئی کمل دھاری  انتخاب جیت کر وزیر اعلیٰ کیسے بن پائے گا؟   دنیش کمار کا کہنا ہے کہ ان کے ۱۳۰۰ میں سے ۳۰۰ لوگوں کو انتخاب نہیں  لڑنے  دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جن ایک ہزار امیدواروں نے الیکشن لڑا انہوں کون سا پہاڑ اکھاڑ لیا؟

ایک سوال یہ بھی ہے کہ  بی جے پی مقامی امیدواروں کے بل بوتے پر انتخاب کہاں لڑتی ہے؟ ان کے تو ہر پوسٹر پر وزیر اعظم مودی ، وزیر داخلہ امیت شاہ اور پارٹی  کےصدر جے پی نڈا کی بڑی بڑی تصاویرہوتی ہیں ۔ جب بھی کوئی  کامیابی ہاتھ آجاتی ہے تو اس  کے بعد وزیر داخلہ فتح  کا کریڈٹ وزیر اعظم کو دے دیتے ہیں ۔ پارٹی کے صدر  جے پی نڈا میت شاہ کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں ۔ اس کے بعد مقامی رہنما اور  کارکنا ن جے پی نڈا کا ڈھول پیٹنے لگتے ہیں لیکن جب یہ لوگ شکست سے دوچار ہوتے ہیں تو اپنے سارے رہنماوں کو بھول کر مخالفین کے سر پر شکست کا ٹھیکرا پھوڑنے لگتے ہیں ۔ ارمندر سنگھ نے دھاندلی کروائی اور کانگریس نے کسانوں کو ورغلایا کا شور مچاتے ہیں۔ شرما جی کو یہ کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے وہ اسےمیچ  ہی نہیں مانتے کیونکہ  ایسا تو گلی محلے کے بچے بھی نہیں کہتے ۔ ایسے میں ان کو سید عابد علی عابد کے اس مشورے پر عمل کرنا چاہیے؎

یا کبھی عاشقی کا کھیل نہ کھیل                                                         یا اگر مات ہو تو ہاتھ نہ مل

 کسی زمانے میں ملک  کے اندرقومی انتخابات پر لوگوں کی توجہ ہوتی تھی ۔ ریاستی الیکشن میں اس صوبے کے لوگ دلچسپی لیتے تھے ۔ مقامی انتخابات کا ذکر ذرائع ابلاغ میں  بہت کم ہوتا تھا  لیکن جب سے انتخاب گزیدہ مودی سرکار بنی ہے ہر  الیکشن اہم ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ ان لوگوں کو نہ کچھ اور آتا ہے اور کسی کام میں دلچسپی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال حیدر آباد  میونسپل کارپوریشن کا انتخاب ہے۔ اس کی مہم چلانے کے لیے وزیر داخلہ امیت شاہ لنگوٹ باندھ کر اکھاڑے میں کود پڑے ۔  دوچار قلابازی کھانے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ اب وہ پارٹی کے صدر نہیں بلکہ وزیر داخلہ ہیں ۔ اس کے بعد ایک بلدیاتی انتخاب کی تشہیر کے لیے قومی صدر جے پی نڈا  میدان میں آئے ۔ انہیں زمینی حقائق کا اندازہ ہوا کہ شاہ کا دعویٰ کھوکھلا ہے ۔ بی جے پی کا میئر منتخب ہونا مشکل ہے تو اترپردیش سے یوگی ادیتیہ ناتھ کو بلا کر نفرت انگیزی کی  گئی۔ اس کے باوجود ان کا  میئر تو دور نائب میئر بھی نہیں بن سکے ۔

دہلی سے حیدر آباد میں آکر اچھل کود کرنے والے ان لنگوروں کودارالخلافہ  اور یوپی سے سٹے راجستھان اور ہریانہ جانے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ اس کی وجہ صاف تھی کہ داخلی انٹلی جینس نے بتا دیا  ہوگا کہ ان دونوں صوبوں  کے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی  کی حالت خستہ  ہے۔ اس کا منہ کالا ہونے والا ہے اس لیے انہوں نے کوئلے کی دلالی سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ کشمیر کی باری آئی تو وہاں مختار عباس نقوی کے ساتھ شاہنواز حسین کو روانہ کردیا ۔ بعید نہیں  کشمیر جانے سے قبل شاہنواز نے سودے بازی کرلی ہوکہ نقوی تو مرکزی وزیر ہیں لیکن ان کا  کیا؟    شاہنواز حسین کو سب سے کم عمر مرکزی وزیر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ اٹل بہاری کی سرکار میں وزیر مملکت برائے کپڑا اور ہوا بازی تھے لیکن مودی جی نے انہیں باہر کی ہوا کھلا دی ۔

  رام ولاس پاسوان کی موت سے راجیہ سبھا کی جو نشست خالی ہوئی تو شاہنواز حسین پر امید ہوگئے لیکن بہت جلد اس پر اوس پڑ گئی۔بی جے پی ہائی کمان نے اول تو وہ نشست ایل جے پی سے جھٹک لی اور چراغ پاسوان کو ایک ہوا کے جھونکے سے بجھا دیا۔ اس کے بعد نتیش کمار کا دایاں ہاتھ سمجھے جانے والے سشیل کمار مودی کو دہلی بلا کر ایک تیر سے دو شکار کرلیے۔  اس اقدام سے دو ہنسوں کا جوڑا بچھڑ گیا اور نتیش و سشیل دونوں کمزور ہوگئے کیونکہ ایک دہلی چلا آیا  اور دوسرا پٹنہ میں رہ گیا  ۔  سشیل کمار جب دہلی آئے تو یہ کہا جارہا تھا کہ ان کو مرکز میں اہم وزارت سے نوازہ جائے گا لیکن ابھی تو ایسا نہیں ہوا اور آگے بھی امکان کم ہے۔ سشیل  کے دہلی آجانے سے جو جگہ خالی ہوئی تھی اس کو شاہنواز حسین سے پرُ کرکے  انہیں بتا دیا گیا کہ  اب ان کی حیثیت قومی نہیں علاقائی  ہوگئی ہے۔ اس تنزل کا دکھ کم کرنے کے لیے ان کو نتیش کی کابینہ میں شامل کیا گیا ۔ شاہنواز کو اگر نائب وزیر اعلیٰ بنایا جاتا تب یہ توقع ہوتی کہ آج نہیں تو کل بہار کو  عبدالغفور کے بعد ایک مسلمان وزیر اعلیٰ مل جائے لیکن وہ بھی نہیں ہوا۔ شاہنواز کو ایک ایسے صوبے کا وزیر صنعت بنایا گیا ہے جہاں سیاست کے سوا کوئی  قابلِ ذکر صنعت و حرفت  نہیں ہے ۔ پہلے جو کچھ  تھا وہ جھارکھنڈ کے حصے میں جاچکا ہے۔    اپنی قسمت پر اترانے والے شاہنواز حسین کو سشیل مودی کے انجام سے سبق لینا چاہیے  بقول شاعر؎

ادھر نام تک مٹ رہا ہے کسی کا، ادھر بن رہا ہے کسی کا فسانہ                                              نہ اتراؤ صیاد کی دوستی پر، اسی باغ میں تھا مرا آشیانہ

Comments are closed.