Baseerat Online News Portal

چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں میری    نور اللہ نور

چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں میری

 

نور اللہ نور

 

یوں تو مسلمانوں کے خلاف سازش اور مدارس کی تعلیم و تعلم پر قدغن لگانے کی تدبیریں بہت عرصے سے جاری ہے مگر خدا کا شکر ہے کہ ان دشمن عناصر کو ابھی تک موقع نہ ملا ہے اور نہ ملے گا انشاء اللہ۔

ابھی چند روز سے الزام تراشیوں کا سلسلہ پھر سے چل پڑا ہے ایک دو ہفتہ قبل ٹوئٹر پر بھی مدارسِ کے خلاف نفرت پھیلائی گئی تھی اور دو تین دن قبل پھر زیر اقتدار پارٹی کے نیتا کی طرف سے مدارس کے خلاف زہر افشانی کی گئی تھی اور بے جا الزامات لگائے گئے تھے ان کا یہ بیان دو وجہوں کی بنا پر ہوسکتا ہے یا تو سیاسی مفاد اس کے پس پشت کار فرما ہوگا یا پھر اہل مدارس کے کارنامے سے عدم واقفیت اور نفرت و عصبیت پر مبنی ہوگا۔

ان کی بیان بازی اور زہر افشانی اپنی جگہ مگر حقیقت یہی ہے کہ اس ملک کا معمار یہی مولوی ہیں اور فرش سے عرش تک کا سفر کرانے والے اور غلامی ؛ محکومی کے سلاسل سے آزادی کی راحت آمیز زندگی عطا کرنے والے یہی مدارس ہیں ؛ اس حسین چمن کے مالی یہی درویش اور بوریہ نشیں حضرات ہے اور اس کا حقیقی حسن ان ہی مدارس و مساجد سے باقی ہے ان مدارس کے وجود سے ہی یہ رعنائی اسے میسر ہے ۔

یہ لفاظی یا صرف زبانی جمع خرچ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے اور کسی بھی سنجیدہ اور انصاف پسند شخص سے مدارسِ کے بارے میں اس کی رائے معلوم کریں تو وہ ان بوریہ نشیں درویش حضرات کو ہی بنیاد کا پتھر بتائیں گے انہوں نے ہر محاذ پر اپنی محبت وطن کے تئیں خالص رکھیں ہے اور ہر شعبے اور ہر محاذ پر اپنے مسلک و مشرب کے بعد اپنے ملک کو مقدم رکھا ہے اور اہل مدارس نے یہاں تہذیبی ؛ ثقافتی علمی ؛ سیاسی سارے شعبہ جات میں وہ نمایاں رول ادا کئے ہیں جسے تاریخ ہند کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔

اسلام کی آمد سے قبل کے ہند کا جائزہ لیں تو یہاں کے باشندے معاشرتی آداب اور طرز زندگی سے ناواقف اور جاہل تھے یہاں تک کہ خورد و نوش اور لباس و پہناوے کا بھی شعور و ادراک نہیں تھا یہ ان ہی داڑھی ٹوپی والوں کی مرہون منّت ہے ان کو آداب زندگی کے اصول و قوانین سے آشنائی ہوئی اور ناخواندگی سے نکل کر ایک حسین اور پرکشش و جازب نظر معاشرے میں رہنے کا سلیقہ اور ڈھنگ سکھایا اور بتلایا ۔

اور صرف معاشرتی زندگی کو استوار نہیں کیا بلکہ تہذیب و تمدن اور ترقی کے اس بام عروج پر پہونچا دیا جس کی ان واقفیت بھی نہیں تھی اور اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک طاقتور اور خوبصورت ہندوستان کا دنیا کے پردے پر ظہور ہوا ۔

تعلیم و تعلم کے فروغ میں بھی ان کے رول کو فراموش نہیں کیا جا سکتا تعلیمی انقلاب ہندوستان میں لانے کا کریڈٹ اور سہرا کسی کے سر جاتا ہے تو وہ ان ہی مدارس کے فضلاء علماء کی محنت و کاوش ہے اور ان کا ہی فیض ہے کہ ہر طرف تعلیمی نظام کا جال پھیلا ہوا ہے

 

ہم نے تعلیمی معاشی اعتبار سے تو اس ملک کو استحکام بخشا ہی ہے اور اس کے علاوہ جب بھی ارض وطن پر آفت ناگہانی پیش آئی ہے اور جب بھی کسی مصیبت نے اپنا گھیرا تنگ کیا ہے تو اہل مدارس اور مسلمان ہند نے اس کے دفاع کے لیے پیش قدمی کی ہے اور بات جب دار و رسن کی آئ ہے تو سب سے پہلے یہی مولوی ملا پیش پیش رہے ہیں جو آج برادران وطن کی آنکھ کا تنکا ہیں۔

 

ایٹمی طاقت ؛ معاشی استحکام ؛ اور بہتر تعلیمی نظام ہمیں کی دین ہے اور خصوصاً جو قلعہ اور درس گاہ الزام تراشیوں ؛ دشنام طرازی کے زد میں ہے اس کے احسانات تادم حیات ہر ہندوستانی کے کاندھے پر ہوگا اور اس کی قربانیوں کو تسلیم کرنا ہوگا اگر یہ نہ ہوتے تو شاید یہ فرقہ پرست بھی کہیں غلامی کرے نظر آتے یہ مدارس ضرور سماج دشمن اور امن دشمنوں کے میں کھٹکتے ہونگے مگر ان کو یہ بات میں بھولنی چاہیے کہ ابو الکلام آزاد ؛ میزائل مین ؛ ٹیپو سلطان ؛ سر سید احمد خان ان ہی مدارس کے پروردہ ہیں جن کا ہندوستان تادم مرگ احسان مند رہے گا۔

یہ سیاسی لوگ جتنی مغلظات اگلنا چاہیں اگل لیں ؛ جتنی گالیاں دینی ہے دیں لیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم ہی اس ملک کے حقیقی معمار ہیں اور آگے بھی ہم ہی اس کے آرائش و زیبائش کے زمہ دار رہیں گے اور چمن کے جس کلی کو بھی اٹھا کر دیکھو گے ہماری ہی خوشبو ملے گی ؛ تاریخ کے جتنے بھی صفحات پلٹو گے ہمارا نام سر فہرست ملے گا اس لئے نفرت چھوڑ کر محبت سے لطف اندوز ہوں

Comments are closed.