Baseerat Online News Portal

ڈاڑھی اور مونچھ کی شرعی حیثیت

 

السّلام علیکم محترم مفتیان کرام!
سوال یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ:
(1) اسلامی شریعت کے مطابق داڑھی اور مونچھوں کی کیا حیثیت ہے اور دونوں چیزوں کا ہمارے نبی کریم محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کِتنا کردار رہا ہے۔
کچھ لوگ داڑھی بڑھاتے اور بڑھاتے ہی چلے جاتے ہیں اور حوالہ سُنّت کا دیتے ہیں۔

کچھ لوگ چہرے پر بِالکل بھی داڑھی نہیں رکھتے اور حوالہ کُھجلی کا دیتے ہیں اور اُنہیں لوگوں میں سے بہت سے لوگوں کو دوسروں کی داڑھی اور مونچھیں رکھنے اور نہ رکھنے کی ترغیب دیتے دیکھا گیا ہے حالاں کہ اِن کی تعداد کم ہے؛ لیکن ہے۔
داڑھی کا رکھنا سُنّت نبوی ہے یا ثواب یا فرض؟
جواب حوالے کے ساتھ دیں مہربانی ہوگی۔

(2) مونچھوں پر بھی لوگوں کے الگ الگ اعتراضات ہیں؛ یہ رکھو، یہ مت رکھو! بعض اوقات بات حرام اور حلال تک پہنچ جاتی ہے۔
جیسے کہ پانی پیتے وقت مونچھ کے بالوں کا پانی پر جانا حرام یا گناہ یا نجاست ہے؟
جواب حوالے کے ساتھ دیں مہربانی ہوگی۔

براے مہربانی ان سارے سوالات کے جوابات حوالے کی روشنی میں مِلیں گے تو میرے علم میں بھی اضافہ ہوگا اور آنے والے وقت میں بھی ان سارے موضوعات پر لوگوں کو غلط بیانی سے روک سکتا ہوں۔ ان شاءاللہ

سائل: مبین انصاری
(مالیگاؤں ضلع ناسِک، مہاراشٹر)
——————————————

الجواب و باللہ التوفیق:

(1) ڈاڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے، ا سی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا حکم دیا ہے، اس لیے جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے "امام مسلم” اور اصحابِ سنن نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ( پیدائشی سنت ہیں): ایک تو مونچھ خوب کتروانا، دوسری داڑھی چھوڑنا، تیسری مسواک کرنا، چوتھی پانی سے ناک صاف کرنا، پانچویں ناخن کاٹنا، چھٹی انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، ساتویں بغل کے بال اُکھاڑنا، آٹھویں زیرِ ناف کے بال مونڈنا، نویں پانی سے استنجا کرنا۔ زکریاؒ روای کہتے ہیں کہ مصعبؒ نے کہا: میں دسویں چیز بھول گیا، مگر یہ کہ یہ کلی ہوگی۔

"عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء ” قال زكريا: قال مصعب: ونسيت العاشرة إلا أن تكون المضمضة”. (صحيح مسلم ۔1/ 223)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے "بزار” نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجوسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔

"عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خالفوا على المجوس جزوا الشوارب وأوفوا اللحى”. (مسند البزار = البحر الزخار ۔13/ 90)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔

” عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: جُزُّوا الشوارب، وأرخوا اللحی، خالِفوا المجوس”. (صحیح مسلم، کتاب الطهارة / باب خصال الفطرة ۱؍۱۲۹رقم:۲۶۰بیت الأفکار الدولیة)

مذکورہ بالا احادیث میں صراحت سے داڑھی کے بڑھانے کا حکم ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے صریح حکم کی خلاف ورزی ناجائز اور حرام ہے۔

اسی معنی کی مزید احادیث درج ذیل ہیں۔

” عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: أحفوا الشوارب وأعفوا اللحی”. ( جامع الترمذي، أبواب الأدب، باب ماجاء في إعفاء اللحیة، النسخة الهندیة ۲/ ۱۰۵، دارالسلام رقم:۲۷۶۳)
سنن أبی داؤد شریف، کتاب الطهارة، باب السواک من الفطرة، النسخة الهندیة ۱/ ۸، دارالسلام رقم:۵۳.

"وعن ابن عمر رضي اللّٰه عنهما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: انهکوا الشوارب وأعفوا اللحی”. (صحیح البخاري، کتاب اللباس / باب إعفاء اللحی۲؍۸۷۵رقم:۵۸۹۳دار الفکر بیروت)

نیز داڑھی منڈوانا ایسا جرم ہے کہ اس کی حرمت پر ساری امت کا اجماع ہے، امت کا ایک فرد بھی اس قبیح فعل کے جواز کا قائل نہیں ہے۔

سنن ابو داؤد کے شارح صاحب "المنہل العذب المورود“ علامہ سبکی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: داڑھی کا منڈانا سب ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ،امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام ہے۔

”کان حلق اللحیة محرّماً عند ائمة المسلمین المجتهدین أبي حنیفة، ومالک، والشافعي، وأحمد وغیرهم -رحمهم الله تعالیٰ-“. (المنہل العذب المورود، کتاب الطہارۃ، أقوال العلماء فی حلق اللحیۃ واتفاقہم علی حرمتہ: 1/186، موٴسسۃالتاریخ العربی، بیروت، لبنان)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ ”بوادر النوادر “ میں لکھتے ہیں:
”قال العلائي في کتاب الصوم قبیل فصل العوارض: ”إن الأخذ من اللحیة، وهي دون القبضة، کما یفعله بعضُ المغارِبة ومُخَنَّثة الرجالِ، لَم یُبِحْه أحدٌ، وأَخْذُ کلِّها فعلُ الیهود والهنودِ ومَجوس الأعاجِم․ اهـ“ فحیثُ أَدْمَن علی فعلِ هذا المحرَّمِ یفسُقُ، وإن لم یکن ممن یستخفونه ولا یعُدُّونَه قادحاً للعدالة والمروة، إلخ“․ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ، کتاب الشھادۃ: 4/238، مکتبۃ رشیدیۃ، کوئٹۃ)

قلت(الأحقر): قوله:”لم یبحه أحد“ نصٌّ في الإجماع، فقط“․ (بوادر النوادر، پچپنواں نادرہ در اجماع بر حرمت اخذ لحیہ دون القبضہ،ص: 443،ادارہ اسلامیات لاہور)

علامہ علائی رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت کے آخر میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا قول: ”لَمْ یُبِحْہ أحدٌ“داڑھی منڈانے کی حرمت پر اجماع کی صریح دلیل ہے۔

علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرة من القبضة، فغیرُ جائزٍ فی المذاهب الأربعة“․ (العرف الشذی، کتاب الآداب، باب ما جاء فی تقلیم الأظفار، 4/162، دار الکتب العلمیۃ)

نیز ڈاڑھی کے صاف کرنے یا مشت سے کم کاٹنے کی حرمت اشارۃً قرآن مجید میں بھی موجود ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالی نے تغییر خلقِ اللہ یعنی انسانی اعضاء میں اللہ تعالی کی بنائی ہوئی تخلیق میں تبدیلیاں کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:
﴿وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا﴾ [النساء:119]
ترجمہ:اور میں ان کو گم راہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس میں وہ چوپایوں کے کانوں کو تراشا کریں گے اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بناوے گا وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔

واضح رہے کہ کسی فعل کے حرام ہونے کے لیے قرآنِ مجید یا احادیثِ نبویہ میں لفظِ حرام کہہ کر اس کا حکم ”حرام” بیان کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ بعض مرتبہ اشارۃً ایک حکم مذکور ہوتاہے اور اس کا حکم حرام یا فرض کا درجہ رکھتاہے، قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں بیان کردہ احکام کے مراتب ودرجات جاننے کا ذریعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے شاگردوں (تابعین رحمہم اللہ) کی تشریحات ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے آثار سے احکامِ اسلام کا مرتبہ متعین ہوجاتاہے، کیوں کہ وہ آپ ﷺ کے براہِ راست شاگرد، وحی کے نزول کے شاہد اور کمال درجہ شوق کے ساتھ آپ ﷺ سے دین کو سیکھنے سمجھنے والے ہیں، انہیں کسی فعل میں آپ ﷺ سے رخصت ملی تو بلا کم وکاست پوری امانت داری کے ساتھ امت تک رخصت والا وہ عمل بھی پہنچایاہے، آپ ﷺ نے خود بھی داڑھی رکھی ، تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی داڑھی رکھی، اور آپﷺ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو داڑھی بڑھانے کاحکم دیا،اور کسی نبی علیہ السلام یا صحابی رضی اللہ عنہ سے داڑھی صاف کرنا ثابت نہیں، ہاں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتنا آتاہے کہ وہ ایک مشت تک داڑھی کو درست کرتے تھے، اس سے کم داڑھی رکھنا کسی سے منقول نہیں ہے، اور درج بالا احادیث میں آپ نے ملاحظہ کیا کہ آپﷺ نے صاف اور دو ٹوک حکم دیا ہے کہ داڑھی بڑھاؤ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے وجوب ہی سمجھا، تب ہی خود بھی شدت سے عمل کیا اور آنے والی امت کو یہی امانت حوالہ کرکے گئے، ان کے شاگرد اور شاگردوں کے شاگردوں نے وہی امانت امت تک پہنچائی ہے، انہوں نے دین کے مسائل خود سے نہ بنائے ہیں اور نہ ہی خود سے احکام کے مراتب متعین کیے ہیں، فقہاءِ کرام رحمہم اللہ تب تک کسی چیز کا حکم اور اس حکم کا درجہ متعین نہیں کرتے جب تک کہ ان کے پاس قرآن وحدیث سے دلیل موجود نہ ہو، خواہ صراحتاً ہو یا اشارۃً۔

یہ بات بھی قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ میں صراحتاً اور اشارۃً موجود ہے کہ مسلمان اہلِ علم کا اجماع/ اتفاق مستقل حجتِ شرعیہ ہے، یعنی اگر قرآن وحدیث میں کوئی حکم صراحتاً موجود نہ ہو، لیکن صحابہ کرام یا قرونِ اولیٰ کے اہلِ علم کسی آیت یا حدیث کی مراد پر متفق ہوجائیں تو یہ اجماع خود حجتِ شرعیہ ہے، اس اجماع سے ہی حکم کا درجہ متعین ہوجاتاہے، جب تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین وتبع تابعین اورفقہاء مجتہدین رحمہم اللہ قرآن وحدیث سے ایک مسئلے (داڑھی صاف کرنے یا ایک مشت سے کم کرنے ) کا حکم سمجھ کر اس کے درجے پر متفق ہیں تو ان حضرات کا اجماع ہی اس کی حرمت کی دلیل ہے، خواہ قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ میں صراحتاً حرمت نہ بھی موجود ہو۔ چہ جائے کہ داڑھی بڑھانے کے وجوب پر صراحتاً دلالت کرنے والی احادیث موجود ہیں جن کی جانبِ مخالف (واجب کو ترک کرنا) حرام ہے۔

نیز ڈاڑھی منڈوانا درج ذیل گناہوں کا مجموعہ ہے:

(1) نبی کریم ﷺ کے حکم کی مخالفت۔ (2) انبیاء کرام کی سنت اور فطرت کی مخالفت۔ (3)اس گناہ کا اعلانیہ ہونا کہ ڈاڑھی ایسا گناہ ہے جو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا، اور گناہ کی تشہیر خود ایک گناہ ہے۔ (4) اللہ کی فطری بنائی ہوئی خلقت میں تبدیلی اور مثلہ (چہرہ بگاڑنے) کا گناہ ۔ (5) کافروں سے مشابہت ۔(6) خواتین کے ساتھ تشبہ، اور مردوں کے لیے ایسا عمل جس سے خواتین کے ساتھ مشابہت حدیث کی رو سے موجبِ لعنت ہے ۔ (7) مخنثین اور ہیجڑوں سے مشابہت ۔(8) گناہ کا تسلسل اور استمرار۔یعنی جب تک انسان اس عمل کا مرتکب رہتا ہے اس وقت تک اس کا گناہ برابر جاری رہتا ہے۔ (9) اسلامی اور دینی شعائر کی خلاف ورزی۔

ڈاڑھی کے شرعی حکم سے متعلق حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے افادات میں ہے:
” داڑھی قبضہ (ایک مشت) سے کم کرانا حرام ہے، بلکہ یہ دوسرے کبیرہ گناہوں سے بھی بدتر ہے؛ اس لیے اس کے اعلانیہ ہونے کی وجہ سے اس میں دینِ اسلام کی کھلی توہین ہے اور اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں، اور ڈاڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے حتی کے نماز وغیرہ عبادات میں مشغول ہونے کی حالت میں بھی اس گناہ میں مبتلا ہے”۔( ”ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا مذاق اڑانا کفر ہے“ ص 10،مکتبہ حکیم الامت)
(ماخوذ: دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)

(2) قرآن وحدیث میں مونچھیں منڈوانے یا جڑ سے اکھاڑنے کی ممانعت نہیں ہے مگر سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مونچھیں پست کرنا ہی ہے؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اپنی مونچھیں ترشواتے تھے کبھی منڈوائی یا جڑ سے اکھاڑی نہیں ہیں۔ احادیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ خَالِفُوا الْمُشْرِکِینَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ رضی اللہ عنهما إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْیَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ.
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں باریک کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو اضافی ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔
(بخاري، الصحیح، 5: 2209، رقم: 5553، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة)

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
انْهَکُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَی.
ترجمہ: مونچھیں پست کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔
(بخاري، الصحیح، 5: 2209، رقم: 5554
مسلم، الصحیح، 1: 222، رقم: 259، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللِّحَی خَالِفُوا الْمَجُوسَ.
ترجمہ: آتش پرستوں کی مخالفت کرو، مونچھیں ترشواؤ اور داڑھی بڑھاؤ۔
(مسلم، الصحیح، 1: 222، رقم: 260
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 365، رقم: 8764، مصر: مؤسسة قرطبة)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت میں ہے کہ:
(کانَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُصُّ أَوْ یَأْخُذُ مِنْ شَارِبِهِ وَکَانَ إِبْرَاهِیمُ خَلِیلُ الرَّحْمٰنِ یَفْعَلُهُ.
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مونچھیں مبارک کتروایا کرتے تھے اور اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
(ترمذي، السنن، 5: 93، رقم: 2760، بیروت: دار احیاء التراث العربي
طبراني، المعجم الکبیر، 11: 277، رقم: 11725، الموصل: مکتبة الزہراء)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ لَمْ یَأْخُذْ مِنْ شَارِبِهِ فَلَیْسَ مِنَّا.
ترجمہ: جو اپنی مونچھوں کا کچھ حصہ (جو ہونٹ سے زائد ہو) نہ ترشوائے وہ ہم میں سے نہیں۔
(ترمذي، السنن، 5: 93، رقم: 2761
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 365، رقم: 8764
نسائي، السنن، 1: 66، رقم: 14، بیروت: دار الکتب العلمیة)

مذکورہ بالا احادیث کے بارے میں شارحین حدیث کی وضاحتیں ذیل میں دی گئی ہیں۔ علامہ بدر الدین ابو محمد محمودبن العینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں لکھتے ہیں:
”مونچھیں کاٹنا سنت ہے قص الشارب کا لفظ قصصت الشعر سے ماخوذ ہے میں نے بال کٹوائے طیر مقصوص الجناح (جس پرندے کے پر کٹے ہوں)۔ اہل مدینہ میں سے بہت سے بزرگوں کے نزدیک مونچھیں منڈوانے سے کٹوانا بہتر ہے۔ مثلاً سالم، سعید بن مسیب، عروہ بن الزبیر، جعفر بن الزبیر، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، ابوبکر بن عبد الرحمن بن الحارث، ان سب کے نزدیک مونچھیں کاٹنا مستحب ہے مونڈنے کی نسبت یہی قول ہے۔ حمید بن ہلال، حسن بصری، محمد بن سیرین، عطاء بن ابی رباح اورامام مالک کا بھی یہی مذہب ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اﷲ نے فرمایا کثیر تعداد میں سلف نے مونچھیں مونڈھنے سے منع فرمایا ہے یہی امام مالک کا مذہب ہے ان کے نزدیک یہ مثلہ ہے۔ امام مالک مونچھیں مونڈنے والے کو سزا کا حکم دیتے تھے اور ہونٹ سے اوپر بال کاٹنے کو مکروہ سمجھتے تھے مستحب یہ ہے کہ اوپر سے اتنی مونچھیں کاٹی جائیں جس سے ہونٹ نظر آئیں۔ اہل کوفہ، مکحول، محمد بن عجلان، نافع مولیٰ ابن عمر، ابو حنیفہ، ابو یوسف ا ور امام محمد رحمھم اﷲ نے فرمایا مونچھیں کاٹنے سے افضل مونڈھنا ہے۔ ابن عمر، ابو سعید خدری، رافع بن خدیج، سلمہ بن الاکوع، جابر بن عبد اللہ، ابو اسید، عبد اللہ بن عمر کے نزدیک کاٹنے سے مونڈنا افضل ہے۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ خارجیوں کی علامت مونڈنا ہے (سر کے بال ہوں یا مونچھوں کے)۔
(عیني، عمدة القاري، 22: 44، بیروت: دار حیاء التراث العربي)

علامہ احمد بن علی بن حجر عسقلانی فتح الباری شرح صحیح البخاری میں لکھتے ہیں:
”المراد به هنا قطع الشعر النابت علی الشفة العلیا من غیر استئصال.“
یعنی: اس سے مراد اوپر والے ہونٹ پر اگنے والے بال کاٹنا ہے، مونڈھنا مراد نہیں۔
(عسقلاني، فتح الباري، 10: 335، بیروت: دار المعرفة)

امام نووی فرماتے ہیں:
”أما حد مایقصه فالمختار أنه یقص حتی یبد و طرف الشفة ولا یحفه من أصله وأما روایات احفوا الشوارب فمعنا ھا احفوا ماطال علی الشفتین.“
یعنی: مونچھیں کاٹنے کی مذہب مختار میں حد یہ ہے کہ ہونٹ ظاہر ہو جائیں، کلی طور پر مونڈھنا نہیں اور جن روایات میں احفوا الشوارب مونچھیں کاٹو، اس کا مطلب ہے وہ بال کاٹو جو ہونٹوں پر لمبے لمبے موجود ہیں۔
(النووي، شرح صحیح مسلم، 3: 149، بیروت: دار احیاء التراث العربي)

امام نووی مزید لکھتے ہیں:
”فذهب کثیر من السلف إلی استئصاله وحلقه بظاهر قوله صلی الله علیه وآله وسلم احفوا وانهکوا وهو قول الکوفیین و ذهب کثیر منهم إلی منع الحلق والاستئصال وقاله مالک وکان یری حلقه مثلة ویأمر بأدب فاعله وکان یکره أن یؤخذ من أعلاه ویذهب هؤلاء إلی أن الإحفاء والجز والقص بمعنی واحد، وهو الأخذ منه حتی یبد و طرف الشفة وذهب بعض العلماء إلی التخییر بین الأمرین والمختار ترک اللحیة علی حالها وأن لا یتعرض لها بتقصیرشئی أصلاً والمختار في الشارب ترک الاستئصال والا قتصار علی مایبدو به طرف الشفة.“
”یعنی: بہت سے بزرگ اس طرف گئے ہیں کہ مونچھیں مونڈھی جائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ظاہر قول سے استدلال کرتے ہوئے کہ مونچھیں کٹاؤ اور یہی قول ہے اہل کوفہ کا اور بہت سے علماء مونچھیں نہ کاٹنے اور نہ مونڈھنے کی طرف گئے ہیں اور یہی قول ہے امام مالک رحمہ اﷲ کا، وہ مونچھیں مونڈھنے کو مثلہ قرار دیتے تھے اور مونڈھنے والے کو سزا کا حکم دیتے اور اوپر سے مونچھیں مونڈھنے کاٹنے کو مکروہ سمجھتے تھے ان کے نزدیک اِحفاء، جَزّ اور قصّ کا ایک ہی مطلب ہے کہ مونچھیں اتنی کاٹی جائیں جس سے ہونٹ ظاہر ہو جائیں بعض علماء کے نزدیک بندے کو دونوں میں اختیار ہے۔‘‘
(النووي، شرح صحیح مسلم، 3: 151)

مونچھیں تراش کر پست کرنا سنت ہے، مونڈنا یا جڑ سے اکھاڑنا کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے اور نہ اس کی ممانعت ہے۔

مذکورہ بالا تمام تفصیلات سے یقیناً آپ کے سامنے شرعی حکم واضح ہوگیا ہوگا، اور آپ کی تسلی بھی ہوگئی ہوگی، اور اگر مزید تفصیل چاہتے ہیں تو اس پر مستقل رسالے اور کتابیں لکھی گئی ہیں ، مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کا ڈاڑھی کے احکام سے متعلق رسالہ "جواہر الفقہ” 7 جلد میں موجود ہے، اسی طرح حکیم الامت تھانوی صاحب کے افادات "ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا مذاق اڑانا کفر ہے” ، اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اور مولانا قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کے رسالوں کا مطالعہ کیجیے۔

فقط
واللہ اعلم بالصواب

المجیب: (مفتی) محمد توصیف صدیقی
29 شوال 1442ھ
11 جون 2021ء

Comments are closed.