Baseerat Online News Portal

ڈاکٹر شباب عالم اور ان کی خدمات پر ایک طائرانہ نظر

حمیرا سعدیہ

معاصر مسائل کو ایک ہلکی نگاہ سے دیکھا جائے تو ہمیں ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ تعلیم کا مطلب فقط "ڈگری” کا حصول سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تعلیم نام ہے "کچھ” حاصل کرلینے کے بعد سب کچھ نچھاور کردینے کا، علم وہ ہے جو "مخلوق” کو "خالق” اور "مقصدِ تخلیق” سے آگاہ کرتا ہے۔ علم وہ ہے جو عمل پر آمادہ کرتا ہے، اسے حقیقی معنی میں حاصل کرنے والوں کو خود بخود دنیا کی چکا چوند کے پیچھے چھپی آہیں سناںٔی دینے لگتی ہیں۔ وہ مثل شاہین پر پھیلانے اور دھوپ میں جلتے افراد کو اپنے سایے تلے لینے کو بے کل و بے قرار ہوجاتے ہیں۔

ہندوستان کے عالمگیر شہرت یافتہ مفکر مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے نزدیک علم ایک ایسی اکائی ہے جو بٹ نہیں سکتی۔ اس پر مشرق و مغرب کا قبضہ نہیں بلکہ یہ اللہ تعالی کی وہ دین ہے جو کسی قوم و ملک کی ملک نہیں اور نہ ہی ہونی چاہیے۔ وہ علم و ادب اور فلسفہ و حکمت کسی میں بھی اس اصول کے قائل نظر نہیں آتے کہ محض اس کی وردی پہن کر آنے والا عالم ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ "یہ مان لیا گیا ہے کہ جس کے جسم پر وردی نہ ہو وہ نہ مستحق خطاب ہے اور نہ لائق سماعت، اور بدقسمتی سے ادب و شاعری میں بھی یہی حال ہے، جو ادب کی دکان نہ لگائے، اور اس پر ادب کا سائن بورڈ آویزاں نہ کرے اور ادب کی وردی پہن کر ادبی محفل میں نہ آئے وہ "بے ادب” ہے۔” ہمیں علم و ادب کی بڑی منڈیوں کے بے شمار وردی یافتہ حضرات نظر آتے ہیں لیکن وہ پیدائشی ادیب و شاعر کہ جن کا قصور بس یہ ہے کہ ان کے پاس وردی نہیں، غیر معروفیت کے دلدل میں غائب ہوتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اسی طبقے سے کچھ روشن مینارے بھی دکھائی دیتے ہیں جو خواب غفلت میں سوئے انسانوں کے لیے اپنا آرام قربان کردیتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا میں اب بھی کچھ ایسے سرفروش موجود ہیں جو حب جاہ سے بے نیاز ہوکر اپنی مقدور بھر کوششوں میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ ایسا ہی ایک نام نامی ڈاکٹر شباب عالم کا ہے۔ ایک باکمال شاعر، مصنف، طنز نگار، اور ماہر تعلیم۔

ڈاکٹر صاحب ١٥ اگست ١٩٨۴ء کو صوبہ اترپردیش کے معروف ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم علاقے ہی میں حاصل کی بعدہ اعلیٰ تعلیم کے لیے میرٹھ کا سفر۔ ڈاکٹر عالم جغرافیہ میں ایم۔اے ہیں اور اپنے ہاتھوں میں ایم بی اے اور پی ایچ ڈی جیسی اسناد رکھتے ہیں۔
برصغیر میں تعلیمی حوالے سے مسلمانوں نے کئی کوششیں کیں اور اپنے معاصر مسائل کو حل کرنا چاہا۔ ملا نظام الدین سہالوی کا درس نظامی بہت مشہور ہوا، اور بعد میں ترمیم و اضافوں کے ساتھ ساتھ آج تک بیش بہا مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔ استعماریت کے دوران دیوبند، علی گڑھ، ندوہ اور فلاح جیسے اداروں نے مختلف انداز سے مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کو سلجھانا چاہا۔ سرسید، یعنی بانئ علی گڑھ مشہور نام ہے۔ ڈاکٹر عالم ان کو اپنا رہنما تصور کرتے ہیں۔ سرسید کی طرح ڈاکٹر صاحب نے معاشرے کے حالیہ مساںٔل خصوصا ملک میں تعلیمی پسماندگی کے پہلوؤں کو نہایت باریک بینی سے دیکھا ہے، وہ بھی لوگوں کی طرح اس بات کے قائل ہیں کہ بھارت (خصوصاً دیہاتوں) میں تعلیم کے فقدان کی ایک بڑی وجہ غربت ہے۔

ان کی ذات کو عام لوگوں سے منفرد کرنے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے فقط تجزیے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حل پر نظر رکھی، اور اس سلسلے میں کئی ایک ادارے قائم کیے۔

ڈاکٹر صاحب نے ۲۰۱۵ میں "گرامین مکت ودھیالیہ شکشا سنستھان” قائم کیا جو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ کی طرح ایک اوپن تعلیمی بورڈ ہے۔ گرامین مکت ودھیالیہ سے اب تک قریب پچیس ہزار طلبہ و طالبات دسویں اور بارہویں کے امتحانات پاس کرچکے ہیں۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، گرامین مکت ودھیالیہ دیہاتوں کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہے، اور یہی چیز اس کو دیگر ایسے اداروں سے امتیاز بخشتی ہے۔ یہ ادارہ ڈاکٹر صاحب کی ایک اعلی ترین کاوش ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے بے انتہاء مسائل کا آسان حل ہے۔ ہمارے مدارس سے فاضل طلبہ و طالبات عموما در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، مدارس اپنی طرف سے نہ تو دسویں اور نہ ہی بارہویں کی سند دیتے ہیں، اور اس وجہ سے یہ نوجوان اعلی تعلیم کے لیے ملک بھر کی جامعات کا رخ کرسکتے ہیں۔ گرامین مکت ودھیالیہ ان جیسے نوجوانوں کو بہترین معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

تعلیمی میدان کے کینوس پر یوں تو ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے رنگ جابجا پھیلے ہوںٔے ہیں لیکن ان رنگوں میں گرامین مکت ودھیالیہ کے بعد سب سے شفاف رنگ "فرسٹ ایڈ کونسل آف انڈیا” کا ہے، جس کی شروعات ۲۰۱۷ میں ہوئی ۔ ڈاکٹر صاحب کے پیش نظر فرسٹ ایڈ کی اہمیت ہے اور ان نوجوانوں کے روشن مستقبل کی فکر جو دسویں اور بارویں کے بعد روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں اور جن کی صلاحتیں حالات کے گرداب میں پھنس کر مفلوج ہورہی ہیں۔ فرسٹ ایڈ کی اہمیت سے کون واقف نہیں اور کون اس کی اہمیت کا انکار کرسکتا ہے۔ فرسٹ ایڈ کونسل آف انڈیا ان دونوں مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے۔ بھارت کے ہر دیہات میں ایک باسند فرسٹ ایڈر، یہ "جھولا چھاپیت” کے خطرناک مرض کا ایک بہترین علاج، اور نوجونوں کو جائز و حلال روزگار پیش کرکے، معاشرے سے غلط طریقے سے کمانے کا ایک مثبت جواب۔

فرسٹ ایڈ کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے ہمیں اس طرح کی کوششیں بہت کم ملتی ہیں، اور اس واسطے اگر یہ کہا جائے کہ ڈاکٹر شباب اس تعلیم کو فروغ دینے والوں کے اس عہد میں امام ہیں تو ہمیں لگتا ہے یہ زیادتی نہیں۔ وہ اس امر کے حقدار ہیں کو انہوں نے اس مسئلے کو اتنی باریک بینی سے دیکھا اور ایک لائحہ عمل نہ صرف تجویز کیا بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہوئے۔

ان دو اہم اداروں کے علاوہ ڈاکٹر صاحب "دانیہ نرسنگ ہوم” چلاتے ہیں، جس کے تحت دیہاتی بچوں کو طبی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس بات کے قائل ہیں کہ مادی وسائل اللہ تعالی کا انعام ہے، اور انہیں مخلوق کی خدمت میں استعمال کرنا چاہیے۔ اگر اس طرح کے مزید اقدامات بھارتی مسلم قائدین کی جانب سے ہوں تو ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اور معاشی زبوں حالی کا مقابلہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔
کوئی انسان محنت کرے اور پھر اس کے اچھے نتائج نہ ہوں، یہ ایک مشکل امر ہے۔ ڈاکٹر صاحب علم جغرافیہ کے ایک ماہر عالم ہیں اور ان کی کتابیں کئی ایک جامعات میں داخل نصاب ہیں۔ ان کو کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں میزان تعلیمی خدمات ایوارڈ ۲۰۱۷ سر فہرست ہے۔

یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم۔
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں۔

Comments are closed.