Baseerat Online News Portal

کافی ہے ایک نسبت سلطان مدینہ

 

 

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

جنرل سیکریٹری/ مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ

۶۳۹۳۹۱۵۴۹۱

 

انسان کو خدا کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے اور ساتھ ہی خدا کی طرف سے بخشش و مغفرت کی امید اور آس لگائے رکھنا چاہیے ۔ *اللہ تعالٰی* کب اصلاح حال کی توفیق دے دے اور کب بندہ کو پروانئہ مغرفت نصیب کر دے، یہ کسی کو معلوم نہیں ۔ بڑے سے بڑے شرابی ۔ رہزن و قاتل، بادہ نوش و مے خوار ، ڈاکو اور قزاق کو بھی ان کے اصلاح حال کی طلب اور تڑپ (جو اس کے سینہ میں پوشیدہ تھی) کی بنا ایسی توفیق دی کہ وہ بعد میں مرجع خلائق اور ولی کامل بن گئے اور لوگ ان کی گرد دیوانہ وار آنے لگے، تاریخ میں سینکڑوں ایسی مثالیں اور واقعات موجود ہیں ۔ ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو امید دلائی اور فرمایا: ،،لا تقنطوا من رحمتہ اللہ،، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ سے صدق دل سے توبہ کرنے کے بعد جس کو عربی زبان میں توبتہ نصوح کہا گیا ، انسان کا جرم و خطا معاف کردیا جاتا ہے، اور پھروہ اپنے رب کی نگاہ میں توبہ اور ندامت کے آنسو ٹپکانے کی وجہ سے محبوب ہوجاتا ہے ۔

حضرت جگر مرد آبادی مرحوم بھی ان لوگوں میں سے تھے ، جن کا ماضی ان کے حال و مستقبل سے بالکل برعکس تھا ، جام و صبو بادہ و ساغر کے ایسے عاشق اور عادی کے کوئی گھنٹہ اس کے بغیر نہیں گزرتا، لیکن خدا کی طرف سے توفیق اور اصلاح حال کا جب موقع ملا تو اس ام الخبائث سے تا زندگی اس طرح توبہ کیا اور اپنی سابقہ زندگی اور غلطی پر اس قدر نادم و پشیماں ہوئے کہ اللہ کو بندے کے حال پر ترس آگیا اور پھر ایسی مرجعیت اور محبوبیت و مقبولیت ملی کہ اہل اللہ اور صلحاء امت نے ان کو اپنے سے قریب کیا ، اپنی مجلس میں جگہ دی،اور محبت و شفقت اور لطف و کرم کی ان پر بارش کردی اور انعام و اکرام سے نوازا خدا غریق رحمت کرے اور جنت الفردوس میں جگہ دے خواجہ عزیز الحسن مجذوب رح کو کہ انہوں نے جگر مراد آبادی کی اصلاح حال کے لئے کیسی کوشیش کیں، کس طرح بے چین و مضطرب رہے اور حضرت تھانوی رح سے ملاقات کے لئے کس طرح رابط و واسطہ بنے، کس طرح دعائے نیم شبی میں ان کے لئے دعائیں کرتے رہے ۔ خدا ہمارے اندر بھی لوگوں کی اصلاح حال کے لئے یہی تڑپ اور جذبہ پیدا کردے آمین ۔ لیکن افسوس کہ آج امت میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کسی کی غلطی ،علمی فرو گزاشت اور لغزشوں پر ان کی اصلاح حال اور توفیق ایزدی و ربانی کے لئے دعا نہیں کرتا ، بلکہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اور اس دلدل میں پھسل جائے اور بے راہ رو ہوجائے ۔اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی اصلاح حال کی توفیق عطا فرمائے اور دوسروں کے راہ راست پر آنے کا ذریعہ بنائے آمین۔

اب ہم جگر مراد آبادی مرحوم کے اس واقعہ کو ہدئہ قارئین کرتے ہیں، جس واقعہ میں بہت کچھ عبرت و نصیحت کے پہلو ہیں ہمارے لئے ہیں ۔ خاص طور پر اس واقعہ سے ہم سب کو یہ پیغام ملتا ہے ، کہ انسان گناہ سے تو نفرت کرے گنہگار سے نفرت نہ کرے، کیونکہ کب وہ توبہ و معافی اور اصلاح حال کے بعد مقام و مرتبہ میں ہم سے آگے بڑھ جائے ہمیں اس کا علم نہیں ۔

۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*اجمیر شریف* میں نعتیہ مشاعرہ تھا، فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ *جگر مرادآبادی صاحب* کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے ، وہ کھلے رند تھے اورنعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔ دراصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔

بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند علماء حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود علماء حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔکو مدعو کیا جانا چاہیے۔یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتاتھا۔جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں گنہگار، رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں‘‘ ۔ اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ ہوگئے۔ سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوں سے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔ دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ،اگر شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے،

 

شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے، شایدمجھ پر مرے آقا کا کرم ہوجائے، شاید خدا کو مجھ پر ترس آجائے ایک دن گزرا، دو دن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔ مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔وہ کئی دن پہلے اجمیر شریف پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گا۔جگر اؔپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوں کو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے؎

 

کہاں پھر یہ مستی، کہاں ایسی ہستی

جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں

 

آخر مشاعرے کی رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔ سٹیج سے آواز ابھری’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادآبادی!‘‘ ۔۔۔۔۔۔اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا… اور محبت بھرے لہجے میں گویاں ہوئے۔۔

’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو،جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔

شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے…

 

اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

 

جوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہورہا ہے۔نعت کیا تھی گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے، اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی.نعت یه تھی..

 

اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

 

دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ

اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ

 

اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق

تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ

 

اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت

دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ

 

اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید

صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ

 

کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت

دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ

 

ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم

شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ

 

اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا

نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

 

کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے

کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ

Comments are closed.