Baseerat Online News Portal

کرونا: بھگوان سے بھگوان تک

زین شمسی
دو ڈھائی مہینے کی گھر بندی سے اس نتیجہ پر پہنچ گیا ہوں کہ کورونا سے مرنا نہیں ہے۔ یعنی کورونا جو موت کا خوف ساتھ لایا تھا وہ ختم ہو گیا۔ موت باقی ہے خوف ختم ہے۔
کورانا میں اب تک جتنی اموات ہوٸی ہیں ان میں 90فیصد اموات خالص کورونا کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی نہ کسی موذی مرض کے جسم میں موجود ہومے کی وجہ سے ہوٸی ہیں۔ وہ جسم جو کوٸی مرض جھیل رہا ہے اس پر کورونا کا حملہ خطرناک ثابت ہوا ہے اس کے برخلاف کورونا صحت مند جسم پر کرارا حملہ نہیں کر پایا۔
رہی بات امریکہ ، لندن اور دہگر ممالک کی تو وہ گلبدن لوگ ہیں، نازل بدن اور انتہاٸی درجہ تک انفیکشن سے محتاط رپنے والے لوگ۔ ان لوگوں کو چھینک بھی آ جاتی ہے تو وہ موت کو سامنے پاتے ہیں۔ ہمارے دیش میں لوگوں نے بیماریوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ کٸی طرح کے زخم تو صرف مٹی لگا کر ختم کر دیتے ہیں۔ کٸی اندرونی بیمارہوں کو گوشت انڈا کھا کر مات دے دیتے ہیں اور جنسی بیماریوں کو راز میں رکھ کر سہہ لیتے ہیں۔ سڑکوں پر سو جاتے ہیں مچھر مکھی اور کھٹمل تو مانو پالتو کیڑے مکوڑے ہیں۔ ان کا امیونٹی سسٹم باجرے ،مکا، دال اور چاول نے سخت بنایا ہوا ہے۔ دنیا بھر کی گندگیوں کے ساتھ جینے والوں کا کورونا بہت کچھ نہیں بگاڑ پاٸے گا۔ شاید اب یہ ایک ناسمجھ حکومت بھی سمجھ رہی ہے۔
تالی ، تھالی اور گھنٹی بجا کر عوام کو خوفزدہ کرنے والی حکومت نے ایک طرح سے لاک ڈاٶن کو ختم کر دیا ہے۔ سوال تو اٹھنے واجب ہیں کہ جب ملک میں کرونا نے دستک دے دٸے تھے تب تو ہیلو ٹرمپ اور سرکار کی تشکیل کے لٸے کی جانے والی ساری سرگرمیاں ہوتی رہیں اور جب مریضوں کی تعداد 56 پہنچ گٸی تو لاک ڈاٶن کر دیا گیا۔اور اب جب اس کی تعداد 2 لاکھ تک پہنچ رہی ہے تو لاک ڈاٸون کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ہہ کس طرح کی عقلمندی ہے۔
سرکار پالیسی سے چلتی ہے ناکہ ہوشیاری سے۔ مزدوروں کی نقل مکانی کے دوران ہو رہے دلخراش مناظر کو ہمارے پردھان سیوک نے بہت دردناک انداز میں بیان کیا۔ جیسے اس ہولناکی کے وہ قصوروار ہی نہیں ہیں۔ کیا یہ نقل مکانی لاک ڈاٶن سے پہلے نہیں کی جا سکتی تھی۔ اب جو یہ قدم اٹھایا گیا اس کے سبب کررونا مریضوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے۔
کورونا کی کرونالوجی بھی عجیب ہے۔
امریکہ نے کہا چین نے پھیلایا، بھارت نے کہا تبلیغیوں نے پھیلاہا، نیپال نے کہا بھارت نے پھیلایا۔ یہ بھی طے ہوا کہ بھگوان نے پھیلایا۔ اب اس کی بھی ایک الگ کرونالوجی ہے۔
کرونا کنٹرول کرنے کے لٸے پی ایم نے سی ایم سے ، سی ایم نے ڈی ایم سے، ڈی ایم نے ڈی او سے ، بی ڈی او نے جنتا سے اور اجنتا نے بھگوان سے مدد مانگی ہے۔
کرونا: بھگوان سے بھگوان تک ایک میگا سیریل کا اسکرپٹ ہے۔
اس سے نمٹنے کے دوران بہت کچھ اور پتہ چلا کہ یہاں کا میڈیکل سسٹم اب تک کیا کر رہا تھا۔ بھارت کے تمام ہاسپٹلس مریضوں سے اٹے پڑے ہوتے تھے۔ وہ سب مریض کہاں گٸے۔
تمام مندروں میں لاکھوں کا دان دے کر شانتی پانے والے بھگت کو شانتی کہاں سے ملی۔
پورے ماحولیات کو دھواں دھواں کر دینے والی فیکٹریاں کیا کر رہی تھیں۔ آسمان صاف کیوں نہیں تھا اب تک۔
کورونا کو لے کر ہوشیاری دکھانے والے اب کیا کریں گے۔ کیا غریبوں اور ملازمین کی آبادکاری آسان ہے۔ بے روزگاری کی پہلے سے مار جھیل رہے عوام اب کبھی اچھی زندگی کی توقع رکھ سکتے ہیں۔
مختصرا کہا جاٸے تو اس کورونا نے سرکار کو امیرترین اور جنتا کو غریب ترین بنا دیا اور سب سے بڑی بات کہ جو مڈل کلاس ہر مشکلات سے آسانی سے نکل جاتا تھا کرونا سے نمٹنے کی غلط پالیسیوں نے اسے بھی ہلا دیا۔
سرکار تو چلتی رہے گی اور مسلسل بدستور چلتی رہے گی کیونکہ پروس میں پاکستان ہے اور ملک کی دوسری آبادی مسلمان ہے۔ اس لٸے سیاست پر کرونا کا کوٸی اثر نہیں ہوگا بلکہ یہ سودمند ثابت ہوگا ہاں سماجیت اور معاشیات کا برسوں پرانا ڈھانچہ پوری طرح منہدم ہو جاٸے گا۔

Comments are closed.