Baseerat Online News Portal

کریں سیاست بھی، حمایت بھی لیکن اجالے میں !!

تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی
سیاست کہتے ہیں حکمت عملی کو اور ظاہر سی بات ہے کہ حکمت عملی مرتب کرنا حکومت کا کام ہے لیکن اسی حکمت عملی پر نظر رکھنا حزب مخالف کا کام ہے معلوم یہ ہوا کہ ملک کی اور ملک کے عوام کی بھلائی کی ذمہ داری دونوں پر عائد ہوتی ہے ملک کو سجانے و سنوارنے کی ذمہ داری دونوں پر عائد ہوتی ہے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جب دونوں کے اندر ایسا ہی نیک نیتی کا جذبہ ہوگا تو ملک ہمیشہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا،، ہاں اگر حکومت یہ تہیہ کر لے کہ ہمیں حزب مخالف کی بات تسلیم کرنا ہی نہیں ہے کیونکہ وہ حکومت سے باہر ہے اور حزب مخالف بھی یہ ٹھان لے کہ ہمیں حکومت کی بات ماننا ہی نہیں ہے، حکومت کے کسی کام کی حمایت کرنا ہی نہیں ہے کیونکہ حکومت ہماری پارٹی کی نہیں ہے تو ایسی صورت میں ٹکراؤ کی نوعیت پیدا ہوتی ہے اور ایسی نوعیت سے نہ ملک کا بھلا ہوسکتا ہے اور نہ ہی ملک کی عوام کا بھلا ہوسکتا ہے اور فی الحال ہمارے ملک میں ایسی ہی تصویر نظر ارہی ہے جس کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن میں تنا تنی نظر آتی ہے اور گھوم پھر کر سارا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے اب آگے بڑھئے جہاں تک بات سیاست اور حمایت کی ہے تو سیاست پر تبصرہ تو ہوچکا اب حمایت پر غور کرنا ہے جلسے میں صدارت کا اعلان ہوتا ہے تو ایک شخص کھڑا ہو کر اس کی تائید کرتا ہے تو اسی کو حمایت کہا جاتا ہے الیکشن کا بگل بج گیا تمام پارٹیاں اپنے اپنے انتخابی منشور جاری کرتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر پارٹی کی سماج کی معزز شخصیات سے ملاقات کرنے اور ان کے ذریعے ان کے سماج سے اپنے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ اپیل کرتے بھی ہیں اسی کو حمایت کہتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سماج کے کسی بھی با اثر شخصیت کے پاس کوئی جائے تو وہ جب اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے ان کا سہارا لے تو کیا ان کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ بھی کچھ شرائط رکھیں یا کہیں کہ بدلے میں ہمیں کیا ملے گا ظاہر سی بات ہے کہ صبح سے لے کر شام تک کوئی کسی کے وہاں مٹی بھی پھینکتا ہے تو شام کو اس کی اجرت ملتی ہے جس سے اس کے گھر کا خرچ چلتا ہے اس کے کنبے کی ضروریات پوری ہوتی ہیں تو یہ معاملہ تو انفرادی ٹھہرا لیکن اصول اور ضابطہ یہی ہے چاہے پرائیویٹ سیکٹر ہو یا سرکاری کوئی مفت میں کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا اور کوئی مفت میں کام کرے گا تو اس کے گھر والے ضرور اس سے سوال کریں گے کہ آخر جب آپ کے کام سے اور آپ کی محنت سے گھر میں کسی کا بھلا نہیں ہورہا ہے تو ایسی بے گاری سے کیا فائدہ بلا وجہ آپ وقت اور اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ ہمارے مستقبل کو کیوں برباد کررہے ہیں تو یہی چیز سماج کے ان رہنماؤں پر بھی عائد ہوتی ہے جو الیکشن کے ماحول میں کسی نہ کسی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں اور اس پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہیں تو اس سے سماج کے بارے میں کیا معاہدہ کرتے ہیں اگر کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو وہ اپنے سماج کے لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے اور اگر کوئی معاہدہ نہیں کرتے ہیں یعنی بلا شرط کسی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں تو کس بنیاد پر یہ سوچ لیتے ہیں کہ ہم جسے کہیں گے ہمارا سماج اسی کو ووٹ دے گا ایسا کرنے سے کیا فائدہ،، ہاں اگر صرف آپ کا قد اونچا ہوجاتا ہے تو آپ پورے سماج کو کب تک ایسے ہی برباد کرتے رہیں گے اور جب سے ملک آزاد ہوا ہے تب سے یہی سلسلہ چلا ارہاہے اندھیروں میں سیاسی حمایت کی جاتی ہے حوالہ پورے سماج کا دیا جاتا اور پیٹ صرف اپنا بھرا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حکمراں قوم آج حاشیے پر بھی نظر نہیں آتی ملک کا دبے سے دبا کچلا طبقہ بھی اقتدار مزا چکھ لیا اس لیے کہ وہ سمجھ گئے کہ ماسٹر چابی کا نام سیاست ہے جب تک روئے تو روئے لیکن روتے روتے سمجھ گئے کہ رونا رونے سے کچھ نہیں ہونے والا بلکہ ملک کے آئین نے جو حق دیا ہے اس کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا اور تلاش کیا جس کے نتیجے میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی،، اور ہمیں جہاں دوسروں نے آکر ایک سیاسی پارٹی سے ڈرایا تو ہمارے لوگوں نے بھی آکر اسی پارٹی سے ڈرایا اور ہم صرف ہرانے والی سیاست تک محدود رہ گئے اور خود مسلم رہنماؤں نے مسلمانوں کو اس منزل تک پہنچا دیا کہ آج ہم جس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں تو دبی زبان میں وہ پارٹی بھی کہتی ہے کہ تمہارے سامنے تو خود مجبوری تھی تم جاتے کدھر،، تم نے تو مجبوراً ہماری پارٹی کو ووٹ دیا تمہارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا- یہ بات اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ اندھی حمایت کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں کراسکتی جمہوریت میں وہی قوم سربلند ہوتی ہے جس کے اندر سیاسی بیداری ہوتی ہے وہ احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتی بلکہ اس کے اندر احساس برتری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے آج تو مسلم قوم کا بہت بڑا طبقہ ووٹ کی اہمیت کو بھی نہیں جانتا اور اسے بتایا بھی نہیں جاتا ساڑھے چار سال تک سنسان رہتا ہے چھ مہینے کے لئے ایسے ایسے چہرے نمودار ہوتے ہیں کہ بس یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک کی ہر سیاسی پارٹی کی نکیل انہیں کے ہاتھوں میں ہے پھر ساڑھے چار سال تک گوشہ نشین ہوجاتے ہیں خدارا اب تو ہوش کے ناخن لیجئیے انہیں ساڑھے چار سالوں کے دوران آپ ووٹوں کی اہمیت کو بتائیے، ملک کے آئین نے ملک کی عوام کو کیا حق دیا ہے یہ بتائیے سیاست سے قریبی اور دوری کے کیا نقصانات اور فوائد ہیں یہ بتائیے صرف یہ کہہ کر چھٹکارا ملنے والا نہیں ہے کہ اب سیاست گندی ہوگئی ہے معاف کیجئے گا سیاست کل بھی گندی نہیں تھی اور آج بھی گندی نہیں ہے سیاست کرنے والے جیسی سوچ کے ہونگے ویسا ہی فیصلہ لیں گے آپ اچھی سوچ کے ہیں تو اچھی سوچ کے ساتھ سیاست میں حصہ لیجئیے اور پورے سماج کو سیاست میں حصہ لینے کا مشورہ دیجئے تاکہ اچھا سیاسی ماحول قائم ہو ورنہ اندھیرے میں سیاسی پارٹیوں کی حمایت کرنے سے نہ اب تک کچھ بھلا ہوا ہے اور نہ ہوگا آنکھیں بند کر کے سیاسی اسٹیج پر مسلمان مسلمان کی رٹ لگانے سے نہ بھلا ہوا ہے اور نہ ہوگا علاوہ ازیں تمہاری سیاست بھی مشکوک ہو جائے گی اور فرقہ پرستی کا الزام بھی لگ جائے گا،، ہمیں دوسروں پر الزام لگانے سے پہلے کبھی تو سوچنا چاہیے کہ ہم نے آخر اپنوں کے لئے کیا کیا ہے مسلمانوں کی کمیٹیاں تو بہت ہیں مگر ان کمیٹیوں سے مسلمانوں کا کتنا بھلا ہوا ہے؟ کمیٹیوں کا نام لینے پر کچھ لوگوں کو برا ضرور لگتا ہے مگر انہیں کبھی تو سوچنا چاہیے کہ ملت کی بیٹیاں بہکنے لگیں ان کو بہکایا جانے لگا یہاں تک کہ وہ لالچ میں اندھی ہونے لگیں صاف لفظوں میں کہدوں کہ وہ مرتد ہونے لگیں پھر بھی مسلمانوں کی یہ بڑی بڑی کمیٹیاں خاموش ہیں، ہجومی تشدد کے خلاف ان کمیٹیوں نے کیا کیا ؟ ہے کوئی جواب ،، کوئی جواب نہیں ہے اس لئے کہ ان کمیٹیوں نے اور کمیٹیوں کے ذمہ داروں نے کچھ کیا ہی نہیں ہے بس ہاسٹلوں اور عالیشان ہوٹلوں میں میٹنگیں کی ہیں وہ بھی ناشتہ پانی سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکیں،، اب وہ کمیٹیاں اگر کسی پارٹی کی حمایت کریں تو مسلمان ان کی حمایت اور اپیلوں کو جوتوں کی نوک پر ٹھکرا دے تو اس میں کیا برائی ہے۔

Comments are closed.