Baseerat Online News Portal

کسانوں کی تحریک کوکیوں کچلاجارہاہے؟

عبدالرافع رسول
بھارت میں کسانوں کی طرف سے ناکام احتجاجی مظاہرے کوئی نئی بات نہیں۔ کئی برسوں سے بھارتی کسان سرکاری شکنجے میں آکرکراہ رہے ہیں اوردل گرفتہ ہوکرخودکشیاں بھی کررہے ہیں ۔گذشتہ دوعشروں میں تین لاکھ سے زیادہ بھارتی کسانوں نے خود کشیاں کیں ہیں، کوئی اور ملک ہوتا توحکومتی اداروں میں بھونچال بپاہوجاتا لیکن یہ بھارت ہے یہاں حکومتوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔واضح رہے کہ 2017سے تواتر کے ساتھ بھارتی ریاستوں سے کسان برسر احتجاج ہوکردلی کارخ کرتے ہیں اورناکام احتجاجی مظاہرہ کرکے بے نیل ومرام واپس لوٹ جاتے ہیں۔لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بارکسانوں کے اس احتجاج میں شامل ہریانہ اورپنجاب کے سکھوں کوچن چن کرتشدد کانشانہ بنایاجارہا ہے اوران سے کہاجارہاہے کہ تم کسان تحریک کی آڑ میں دراصل ’’خالصتان ‘‘کی تحریک چلارہے ہو۔اس طرح ایک طرف جہاں بھارتی کسان اپنے مخالف قانون کے خلاف دلی کے بام درہلاناچاہتے ہیں اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے صدابلندکئے ہوئے ہیں تودوسری طرف ان میں سے بلالحاظ عمر سکھوں کو سڑکوں پر گھسیٹاجارہاہے اورانہیں تشددکاشکاربنایاجارہا ہے۔بھارت بھرمیںمودی دورمیںمسلمانوں کی طرح سکھوں کے خلاف نفرت کا جو زہرپھیلایاجارہا ہے تواس میں کوئی شک نہیں ہوناچاہئے کہ بھارت کو اس کے بھیانک نتائج بھگتناپڑیں گے۔ کسان تحریک کے دوران سکھوں کو کچلنے کے لئے مودی حکومت جس طرح طاقت کا استعمال کررہی ہے اس کے مظاہریوٹیوب اورسوشل میڈیاپردیکھے جاسکتے ہیں۔دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھوں کے خلاف مودی حکومت کا سخت لہجہ اورپکڑو،گھسیٹواورماروکامہیب طرزعمل اس امرکامبرہن ثبوت ہے کہ تنگ خیال اورچھوٹے ذہن کے حامل مودی بھارت کومسلسل دنیا کے سامنے ذلیل وخواراور شرمندہ کررہاہے ۔
پہلے 2017پھرنومبر2018اوراب 2020میں بھی بھارتی کسانوںنے دلی کی طرف مارچ کا اہتمام ہے۔ اس کسان مارچ میں دو سو سے زیادہ کسانوں کی تنظیمیں شامل ہیں۔بھارت کی مختلف ریاستوں کے آئے ہوئے ان ہزاروں کسانوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں بدحالی سے نکالنے کے لیے ان کی پیداوار کی منافع بخش قیمت کی ضمانت دینے کے قوانین کو وہ پارلیمنٹ میں منظوری دے۔ اپنی اپنی زبانوں میں نعرے لگاتے ہوئے بھارتی کسان کہہ رہے ہیں کہ ان سبھی کے مسائل مشترک ہیں اوروہ یکسان طورپرسرکاری دست تظلم کے شکارہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کسان اور کاشتکار گذشتہ حکومتوں میں بھی بدحال تھے لیکن اس حکومت میں وہ بدترین حالت میں پہنچ گئے ہیں۔بھارتی کسانوں کاکہناہے کہ پیداوار کی لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ خشک سالی ،سوکھے کی مار، ڈیزل، بیج، کھاد اور ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے کاشت کاری ایک نقصان کا سودا بن چکی ہے اورکھیتی باڑی واحد ایسا کاروبار ہے جو گھاٹے کا بزنس ہے ۔ان کاکہناہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کافی نیچے جا چکی ہے ۔ مٹی کی زرخیزی میں بھی کافی کمی آئی ہے۔ موسمی تبدیلیوں کا براہ راست اثربھارتی کسانوں پر پڑ رہا ہے۔ اگر فصل اچھی ہوتی ہے تو قیمتیں گر جاتی ہیں۔اس طرح بھارتی کسان ایک دائمی بدحالی کی گرفت میں ہیںاور بھارت کا زرعی شعبہ ایک بحران سے گزر رہا ہے۔
2017میں شروع ہونے والے دلی تک مارچ کی تحریک شروع کرنے والے بھارتی کسانوںنے انسانی کھوپڑیاں لہرا تے رہے ان کاکہناتھا کہ یہ کھوپڑیاں انکے بھائی بندوں مردہ کسانوں کی ہیں۔انھوں نے آدھے سر منڈوا رکھے تھے اور منھ میں زندہ چوہے پکڑ رکھے تھے۔ کچھ لوگ اپنے ہاتھ کاٹ کر احتجاجی خون بہا رہے تھے، جب کہ کچھ گرم بجری پر لوٹ رہے تھے جبکہ کچھ لوگ فرضی جنازوں کی رسمیں بھی ادا کر رہے تھے۔اس باربھی پہلے ہی کی طرح کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ مطالبے تسلیم نہ ہونے تک دہلی میں ڈٹے رہیں گے۔
ستمبر2020 میں مودی حکومت کے ذریعے متعارف کروائے جانے والے زرعی قانون کی مخالفت میں’’ دہلی چلو‘‘ نعرے کے ساتھ بھارتی کسانوں نے بھارت کے دارالحکومت کا رخ کیا۔کسانوں کی قیادت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ آئندہ کئی روز کا راشن ساتھ لائے ہیں اور اس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک مطالبات پورے نہیں ہو جاتے۔دوسری طرف مودی حکومت کی جانب سے انھیں دلی میں داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے اور حکومت کا
کہنا ہے کہ زراعت کا نیا قانون ان کی بھلائی کے لیے بنایا گیا ہے۔
دہلی کے حدودپر روکے جانے کی وجہ سے کسانوں اور پولیس میں مختلف جگہ تصادم بھی ہوئے ہیں۔ کسانوں کے خلاف ہریانہ دہلی سرحد پر واٹر کینن اور آنسو گیس کے گولے استعمال کیے گئے۔ا پارلیمان نے ستمبر کے تیسرے ہفتے میں زراعت کے متعلق یکے بعد دیگرے تین بل متعارف کرائے جنھیں فورا قانونی حیثیت دے دی گئی۔مودی سرکار نے ستمبرمیں ایک زرعی پیداوار تجارت اور کامرس قانون 2020 بنایاہے۔ جس پر پورے بھارت میں منقسم رائے پائی جاتی ہے۔ نریندر مودی کا دعوی ہے کہ ان قوانین سے جو اصلاحات کی جا رہی ہے وہ زراعت کے شعبے کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوں گی۔ لیکن بھارت کی حزب اختلاف نے ان قوانین کو کسان دشمن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کسانوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوں گے۔اس نئے قانون کے بعدپورے بھارت میں کسانوں کی تنظیمیں بھی ان پر احتجاج کر رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ غیر منصفانہ ہیں اور ان سے کسانوں کا استحصال ہو گا۔بھارت میںقانونی اصلاحات کے حامی معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کام کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے اور اس سے متوقع نتائج حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔کسانوں کا مطالبہ ہے کہ وہ دہلی کے تاریخی رام لیلا میدان میں یکجا ہو کر اپنا پرامن مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ دہلی کے مضافاتی علاقے براری جائیں پھر ان سے بات چیت ہو سکتی ہے۔
دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا ہے کہ حکومت کو کسانوں سے بغیر شرط فوری طور پر بات کرنی چاہیے۔ انھوں نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنی بات کہی۔کیجروال کاکہناہے کہ ہم اس جدوجہد کی حمایت کر رہے ہیں۔ لیکن مودی سرکار اورکسانوں کے باہم چل رہے اس معاملے میں ہم مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔کیجروال کاکہناتھاکہ کسان جہاں مجتمع ہیں انھیں وہیں رہنا دینا چاہیے۔ حکومت کو انھیں وہیں سہولیات فراہم کرنی چاہییں۔ ان کاکہناتھاکہ فرض تو یہ ہے کہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر زراعت ان کے پاس جاتے اور ان سے ملتے۔ لیکن ان کے پاس میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے لیے وقت ہے ان کے لیے نہیں۔ اس سے ان کی نیت کا پتا چلتا ہے۔خیال رہے کہ ان دنوں بی جے پی کے بہت سے رہنما حیدرآباد میں ہونے والے میونسپل انتخابات کے لیے جلسے کر رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما کا اسی جانب اشارہ تھا۔

 

Comments are closed.