Baseerat Online News Portal

کسان تحریک : محنت کے صلہ میں نہ ملے پیٹ کو روٹی

 

ڈاکٹر سلیم خان

کسانوں کا  حالیہ  احتجاج نیا نہیں ہے پچھلے سال کے آخری  تین مہینوں  میں تین مرتبہ  کسانوں کو اپنے مطالبات کے ساتھ دہلی کی سڑکوں پر آنا پڑا تھا۔ ملک کے مختلف علاقوں سے تقریباً 40000 کسان  امسال ماہِ جنوری میں رام لیلا میدان کے اندر  میں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ کسانوں کے دو  بنیادی مطالبات تھے اول تو ان کا قرض معاف کیا جائے اور دوسرے  سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشوں کو نافذ کر کے ان کو فصلوں کی لاگت کے ڈیڑھ گنا قیمت کی  ادا ئیگی کو یقینی بنایا  جائے۔ اس موقع پر مہاراشٹر کے ایک کسان نے بتایا تھا کہ قرض ادائیگی کے لیے انہیں اتنا اناج فروخت کرنا پڑتا ہے کہ وہ خود فاقہ کشی کا شکار ہوجاتے ہیں  اور پیٹ بھرنے کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔بچوں کو تعلیم سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

اس وقت  کسانوں کی  سب سے زیادہ  ناراضگی  ایم ایس پی  کو لے کر تھی اس کے علاوہ قرض اور فصل بیمہ یوجنا سے بھی وہ نالاں تھے ۔ اس لیے کہ نہ ایم ایس پی مل رہی تھی اور نہ بیما یوجنا کوئی فائدہ پہنچا رہی تھی۔ ہماچل کے کسانوں کو شکایت تھی  حکومت سیب 6.75 پیسے کلو خریدتی ہے، جبکہ لاگت   20 روپے فی کلو ہے۔ اتر پردیش کے گنّا کسان کو یہ پریشانی  تھی  14 دن میں فصلوں کی ادائیگی کا وعدہ کرکے  آٹھ مہینے سے سرکار نے پیسے  نہیں دیئے۔  اس موقع پر بہار کے دیہاتی فنکار للن پرساد یادو نے کہا تھا، ‘ کسانوا کو بھیجلے موت کے قریب بھیا، دیشوا کا پھوٹل نصیب بھیا‘۔ کسانوں کے ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے حکومت کے  نئے قوانین بناکر  صحیح معنیٰ میں ان کا نصیب پھوڑ دیا ہے ۔ اس کا اثربہار کے صوبائی  انتخاب کے دوران دیکھنے کو ملے گا۔   

اتر پردیش انتخاب سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے نوٹ بندی کا جوا کھیلا تھا ۔ وہ بازی کامیاب رہی۔ ریاستی انتخاب میں زبردست کامیابی درج کرانے کے بعد وزیر اعظم اور ان کی جماعت  نوٹ بندی کو ایک بھیانک خواب کی مانند بھول گئی کیونکہ وہ قومی معیشت کی تباہی میں اہم ترین  سنگ میل تھا۔ ویسے مرکزی حکومت کو چونکہ  قومی معیشت سے زیادہ دلچسپی صوبائی سیاست میں ہے اس لیے اس کے  اپنے خیال میں وہ فائدے میں رہی۔ مودی سرکار نے بہار کا انتخاب جیتنے کے لیے زرعی بل کا پانسہ پھینکا ہے۔ انہیں  امید ہے کہ بہار کی عوام کو اس کے جھانسے میں  ڈال کر وہ  بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ اس کے بعد قومی زراعت کے شعبے میں  جو ناقابلِ تلافی  نقصان ہوتا ہے ہوا کرے ،اپنی بلا سے ان  کا تو کام نکل جائے گا ۔  اس کے بعد  زرعی بل کو بھی ایک  خوفناک سپنے کی مانند بھلا دیا  جائے گا لیکن ہندوستان کے کسان اسے آسانی سے  نہیں بھولیں گے ۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ زرعی بل کے خلاف جہاں ہریانہ اور پنجاب میں احتجاج ہورہا ہے وہیں بہار و بنگال بالکل خاموش ہے ۔ اس کی وجہ  یہ ہے اس بل کے ذریعہ ہریانہ اور پنجاب کے کسان کو جن سہولیات سے محروم کرنے  کی کوشش کی  جارہی  ہے ان  مراعات سے بہار اور بنگال کے کسانوں کو پہلے ہی بغیر کسی بل کے محروم کیا جاچکا ہے۔ اس لیے ان  بیچاروں کے پاس اب  گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہے مگر پانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے ۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ بہاری بابو بھی  نوٹ  بندی کی مانند بی جے پی  کے فریب میں آتاہے  یا اس کی حقیقت کو جان کر  برسر اقتدار جماعت  کو سبق سکھاتاہے ۔ اس معاملے کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ زرعی بل کا فائدہ  کسانوں کو وہ وزیر اعظم سمجھا جارہا ہے جو ربیع اور خریف کی فصلوں کا فرق تک نہیں جانتا۔ وزیر اعظم کے دفتر نے ربیع میں خریف کی فصل دھان کو شامل کرکے یہ ثابت کردیا کہ اسے زراعت کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہے۔  یہی وجہ ہے کہ جس بل کو وزیر اعظم اکیسویں صدی کی ضرورت بتا رہے ہیں کسان اس کو اپنی موت کا فرمان قرار دے رہے ہیں ۔ وزیر اعظم ہوا میں ٹویٹ کررہے ہیں اور کسان سڑکوں پر چکہّ جام کرکے  احتجاج کررہے ہیں ۔

  اس بل  کی منظوری کے بعد وزیر اعظم نے  ایک ٹویٹ میں لکھا :’’  ہندوستانی زراعت کی تاریخ کا ایک آبشار والا لمحہ! ہمارے محنتی کسانوں کو پارلیمنٹ میں کلیدی بلوں کی منظوری پر مبارکباد ، جو زرعی شعبے کی مکمل تبدیلی کے ساتھ ساتھ کروڑوں کسانوں کو بااختیار بنائے گی‘‘۔ یہ عجب تماشا ہے کہ ملک بھر کا کسان وزیر اعظم کے اس  نام نہاد احسان عظیم کاشکریہ ادا کرنے کے بجائے مظاہرے کررہا ہے ۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ دال میں کچھ  کالا ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ تو دال ہی کالی ہے۔  اسی لیے کسان رہنما گرنام سنگھ چڑھوانا  مطالبہ کررہے ہیں کہ یاتو حکومت اس بل کو واپس لے یا ہمیں گولی ماردے ۔وزیر اعظم نے اپنے  ایک اور ٹویٹ میں یہ  انکشاف کیا  ہےکہ ، “کئی دہائیوں تک ، ہندوستانی کسان مختلف رکاوٹوں کا پابند تھا اور بیچارے پر زبردستی کی جاتی تھی۔ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بلوں سے کسانوں کو ایسی پریشانیوں سے آزاد کرایا گیا ہے۔ یہ بل کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے اور ان کے لئے زیادہ سے زیادہ خوشحالی کو یقینی بنانے کی کوششوں میں محرک بنے گا‘‘۔

 وزیر اعظم نریندر مودی  منتخب ہونے کے پہلے سے کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کی بات کررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے ملک کے مختلف حصوں مثلاً بہار کے کسانوں کی آمدنی 2013کی بہ نسبت نصف ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ اسی طرح کی بات ہے کہ وزیر اعظم ہر سال دو کروڈ نئی ملازمتوں کی بات کرتے تھے لیکن حقیقت میں کورونا کے دوران ۲ کروڈ لوگ اپنی نوکریاں گنوا چکے ہیں۔ اس سے قبل 2017میں ہندوستان کی بیروزگاری نے 45سال کا ریکارڈ توڑ دیا تھا اور اب تو سرکار نے اعدادو شمار جمع کرنا ہی بند کردیا ہے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔  وزیر اعظم کے قوم و فعل کا تضاد اب کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن وہ جن رکاوٹوں کو دور کرکے پریشانیوں کی مشکلات کوکم  کرنے کا  ڈھول پیٹ رہے ہیں ان کی تہہ تک پہنچنے کے لیے کچھ بنیادی حقائق پر غور  کرنا  ضروری ہے جن کو چھپایا جارہا ہے ۔آر ایس ایس کی  پروردہ بھارتیہ کسان  سنگھ  سمیت  کاشتکاروں کی تمام تنظیمیں ان کو پردہ فاش کررہی ہیں مگر گودی میڈیا اس پر پردہ ڈال رہا ہے۔

حکومت اپنے سرمایہ دار دوستوں اور عالمی تجارتی اداروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے چکر میں ہندوستان کے اندر زراعت کے شعبے میں  چند بنیادی حقائق سے صرفِ نظر کررہی ہے۔   امریکہ کے دو فیصد عوام زراعت پر انحصار کرتے ہیں  اور انہیں کروڈوں کی سبسڈی ملتی ہے جبکہ ہندوستان کے 14 کروڈ 40 لاکھ افراد سن 2011 کے اندر کھیت میں مزدوری کرتے تھے ۔ پچھلے 9سالوں میں ان کی  تعداد یقیناً  بڑھی ہوگی کیونکہ آزادی کے بعدکھیت مزدوروں  میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ ان  بے زمین مزدوروں کے علاوہ 86 فیصد کسان چھوٹے یا اوسط درجے کے ہیں یعنی ان کے 2 ہیکٹر سے کم زمین ہے۔ اس کی اوسط مقدار 0.37 ہیکٹر بنتی ہے جبکہ 0.63 سے کم کی زمین پر زراعت فائدہ بخش نہیں ہوتی۔ اس لیے بہار کا کسان گھر کے اناج کی  خاطر کھیتی باڑی کرکے باقی زمین یوں  ہی چھوڑ کر دوسرے کے یہاں مزدوری کرنے کے لیے نکل جاتا ہے۔  اس کے سبب چھوٹے کسانوں پر اوسطاً 31ہزار کا قرض ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر اور تلنگانہ جیسے خوشحال صوبوں کا کسان بھی  خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔  آندھرا پردیش کا 93 فیصد کسان قرضدار ہے بنگال میں 51فیصد جبکہ پنجاب کا بھی ۵۳ فیصد کسان قرض لیتا ہے لیکن چونکہ وہ کما کر ادائیگی کردیتا ہے اس لیے وہاں خودکشی کے سانحات نہیں ہوتے۔ ویسے کسانوں کی قرضداری کا  قومی اوسط ۵۲ فیصد ہے لیکن وہ وجئے  مالیا اور نیرومودی کی مانند فرار نہیں ہوتے اور نہ انل امبانی کی طرح دیوالیہ ہوکر عیش کرتے ہیں بلکہ بیچارے شرم کے مارے اپنی جان لے لیتے ہیں۔

حکومت نے جس طرح دھاندلی کرکے ایوان بالہ میں اس قانون کو غیر غلط ڈھنگ سے  اکثریت کے بغیر منظور کرایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر عالمی اداروں مثلاً ڈبلیو ٹی او وغیرہ کا دباو بہت زیادہ ہے۔ حکومت  کے بجٹ کا خسارہ پہلے ہی بہت زیادہ تھا اور کورونا میں جی ڈی پی کے ۲۴ فیصد کم ہو جانے سے اس میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے ۔ ٹیکس جمع نہیں ہورہا ہے۔ سرکاراپنا خرچ کم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں  رکھتی  ۔ اس نے کسمپرسی میں بھی ایوان پارلیمان کی نئی عمارت کا ٹھیکہ دے دیا ہے اس لیے  عالمی معاشی اداروں سے قرض لینا لازم ہوگیا ہے۔ ان کو خوش کرنے کی خاطر قومی مفاد کو بھینٹ چڑھا کر ان کی ساری شرائط کو قبول کیا جارہا ہے اور کسانوں کو بلی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ مودی کو ملک کی تاریخ میں اس کسان دشمن کالے قانون کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ اس سرکار نے جئے جوان کے ساتھ جئے کسان کی بھی لٹیا ڈبو دی ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کا کسان سڑکوں پر اترا ہوا ہے۔ ایسے میں  پرینکا گاندھی کا یہ  ٹویٹ درست ہی لگتا ہےکہ ، "کسانوں سے ایم ایس پی چھین لی جائے گی۔ انہیں کنٹریکٹ فارمنگ کے ذریعہ کھرب پتیوں کا غلام بننے پر مجبور کیا جائے گا۔ نہ قیمت ملے گی اور نہ ہی عزت و احترام۔ کسان اپنے ہی کھیت پر مزدور بن جائے گا۔ بی جے پی کا زرعی بل ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ راج کی یاد دلاتا ہے۔ ہم یہ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔‘‘اس صورتحال کو ابونبیل مسیح دکنی یوں بیان کرتے ہیں؎

محنت کے صلہ میں نہ ملے پیٹ کو روٹی                                             دہقانوں سے کہہ دو کہ یہ کھلیان جلادو

جس دیس دہقاں کو میسر نہیں انصاف                                           اس دیس کو قانون کے ایوان جلادو

 

 

Comments are closed.