Baseerat Online News Portal

کسان :قوم وملک کے اصل میزبان!

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
ترجمان وسکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
پانی، ہوا ،غذا ، دوا اور لباس انسان کی سب سے بنیادی ضروریات ہیں، ان میں سے ہوا اور پانی ایسی نعمتیں ہیں، جن کے خزانے اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں، ان کے حاصل ہونے میں انسان کی محنت کا کوئی دخل نہیں ہے، پانی چاہے آسمان سے برسنے والا ہو یا زمین سے نکلنے اور نکالا جانے والا ہو، اللہ ہی کے فیصلے اور حکم سے انسان تک پہنچتا ہے، ہوا کی انسان کو ہر لمحہ ضرورت ہوتی ہے، اگر آدمی ایک منٹ بھی آکسیجن سے محروم ہو جائے تو وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو اتنا ارزان اور کثیر مقدار میں رکھا ہے کہ ہر جگہ ہر جاندار کو مہیا ہے، جب تک انسان خود اپنے بے جا استعمال سے ان چیزوں کو نقصان نہ پہنچائے، اس کی فراوانی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، افسوس کہ فضائی اور آبی آلودگی پھیلا کر اور قدرت نے جنگلات کا جو تحفہ دیا ہے، ان کو برباد کر کے انسان اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
خوراک ، دوا اور لباس کی ضرورت پوری کرنے میں انسان کو خود بھی محنت کرنی پڑتی ہے، انسان کی غذائی ضرورت کھیتوں اور باغوں سے پوری ہوتی ہے، انسان کے لئے غذا کا ایک ذریعہ جانور بھی ہے؛ لیکن جانوروں کی پرورش بھی کھیتیوں ہی سے ہوتی ہے، زمینی پیداوار کا جو حصہ انسانی غذا کے کام نہیں آسکتا، اللہ کی طرف سے اس کو جانوروں کی غذا بنا دیا گیا ہے، زرعی پیداوار ہی جانوروں کے واسطہ سے ہمیں گوشت اور دودھ مہیا کرتی ہے، جن کپڑوں کو ہم اپنا لباس بناتے ہیں، وہ بھی زیادہ تر زمینی پیداوار ہی سے حاصل ہوتے ہیں، جیسے: کاٹن اور پتوں کی آغوش میں پلنے والے کیڑوں کے ذریعہ وجود میں آنے والا ریشم ، بیشتر دوائیں بھی پودوں اور پودوں سے پرورش پانے والے جانوروں کے اجزاء سے حاصل ہوتی ہیں، غرض کہ غذا، دوا اور لباس یہ تینوں ضرورتیں براہ راست یا بالواسطہ زمین سے پیدا ہونے والی اشیاء سے حاصل ہوتی ہیں۔
زمین تو قدرت کا عطیہ ہے؛ لیکن زمین سے ان خزانوں کو نکالنے اور لوگوں تک پہنچانے کا کام ہمارے کاشتکار انجام دیتے ہیں، یہ انسانوں اور جانداروں کے بڑے محسن ہیں، اور ہندوستان اور اس جیسے ترقی پذیر ملکوں کے لئے تو معاشی اعتبار سے بھی ان کی غیر معمولی اہمیت ہے ؛ کیوں کہ ہمارے یہ ممالک یورپ، امریکہ اور چین وجاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کی طرح صنعت وٹکنالوجی کے حامل نہیں ہیں، ان ترقی پذیر ملکوں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ زرعی بر آمدات ہیں، جو بہت کم خرچ کے ذریعہ بہت زیادہ آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں، آبادی کے بڑے حصوں کو اس ذریعہ سے روزگار حاصل ہوتا ہے، اراضی کے مالکان کو، مزدوروں کو، چلر فروش اور ہول سیل تاجروں کو، مویشی پالن شعبہ سے وابستہ لوگوں کو ، ڈیری فارموں سے کمانے والے افراد کو، اور اگر مڈیسین میں کام آنے والے پیڑ پودوں کو بھی شامل کر لیں تو اس کا دائرہ اور وسیع ہو جاتا ہے، غرض کہ زرعی شعبہ ملک کے زر مبادلہ کے لئے بھی اور روزگار کے لے بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے، روزگار کے اعتبار سے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوگی کہ یہ شعبہ بالکل اَن پڑھ لوگوں کو بھی روزگار فراہم کرتا ہے۔
اس لئے اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ کسان ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں، یہی پوری قوم کے میزبان ہیں، یہ مئی جون کی جھلسا دینے والی گرمی اور دسمبر جنوری کی جما دینے والی ٹھنڈک کو برداشت کر کے ہمارے لئے ضروریات مہیا کرتے ہیں، جو لوگ ان کی محنتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ تو معاشی ترقی کے بام عروج پر پہنچ جاتے ہیں؛ لیکن یہ بے چارے کسان اکثر وبیشتر معاشی ترقی کے سفر میں پہلے زینہ سے اوپر نہیں چڑھ پاتے؛ اس لئے جو لوگ زرعی سرگرمیوں سے وابستہ تھے، اب ان کی بڑی تعداد شہروں میں آکر محنت ومزدوری کو ترجیح دے رہی ہے، اور اس کا نقصان یہ ہے کہ بعض دفعہ ہمارے ملک کو زرعی پیداوار در آمد بھی کرنی پڑتی ہے، اس سے ملک کی دولت ملک سے باہر چلی جاتی ہے، کاشت کاروں کی محنت بہت زیادہ ہے اور ان کی آمدنی اس لحاظ سے بہت ہی کم ہے؛ اس لئے بجا طور پر کسانوں کو شکایت ہے کہ حکومت ان کے مسائل پر توجہ نہیں دیتی ہے۔
کاشت کاروں کی اہمیت کے پس منظر میں اسلام نے اس شعبہ کو بڑی اہمیت دی ہے، اللہ تعالیٰ نے کاشت کاری کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے: أنتم تزرعونہ أم نحن الزارعون (واقعہ: ۶۴) اور کہا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ ہی نے زمین کو کاشت کے لئے موزوں بنایا ہے‘‘ (ملک: ۱۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے، اس میں سے پرندہ ، انسان یا جانور جو کچھ کھاتا ہے، یہ اس کے لئے صدقہ ہوتا ہے، (بخاری عن انس بن مالک، حدیث نمبر: ۲۳۲۰) بعض روایتوں میں درندوں کا بھی ذکر ہے کہ اگر درندے کھاتے ہیں تو اس میں بھی صدقہ کا ثواب ہے ، (مسلم عن جابر بن عبداللہ، حدیث نمبر: ۱۵۵۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صدقۂ جاریہ قرار دیا ہے، ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں کو صدقۂ جاریہ قرار دیا ہے، ان میں ایک کھجور کا درخت لگانا بھی ہے، (البحرالذخار، حدیث نمبر: ۷۲۷۹) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی بلیغ تاکید کے ساتھ شجر کاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: اگر قیامت قائم ہو جائے اور تمہارے ہاتھ میں کوئی پودا ہو اور یہ ممکن ہو کہ قیامت آنے سے پہلے تم اس پودے کو لگا سکو تو اسے لگا دینا چاہئے، (الادب المفرد عن انس بن مالک، حدیث نمبر: ۴۷۹)
زمینوں کو افتادہ چھوڑے رکھنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے پاس زمین ہو، اس کو چاہئے کہ اسے کاشت کرے، اور اگر کاشت نہیں کر سکتا تو اپنے مسلمان بھائی کو زمین دے دے، اس کو کرایہ پر نہ لگائے، (مسلم عن جابر، حدیث نمبر: ۱۵۳۶) مقصد یہ ہے کہ زمین کو یوں ہی خالی نہ چھوڑ دے، یہ اللہ کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری اور انسانیت کو اس کے نفع سے محروم رکھنا ہے؛ اس لئے اگر کسی کے پاس قابلِ کاشت زمین ہو تو اس کو ضرور کاشت کرنا چاہئے، یہ بات انصاف کے خلاف ہے کہ سماج میں کچھ لوگ اتنی زیادہ زمینوں پر قابض ہو جائیں کہ وہ ان کو کاشت نہ کر سکیں؛ اس لئے ایسے شخص کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ زائد زمین ان بھائیوں کو دیدیں، جو کاشت کرنے کے موقف میں ہوں؛ تاکہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ضائع نہ ہو جائے اور انسانیت اس کے نفع سے محروم نہ رہ جائے، سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ایک صاحب آئے، انھوں نے عرض کیا کہ ایک ایسی زمین جو ویران ہو گئی تھی اور زمین کے مالکان خود اس کو آباد کرنے کے موقف میں نہیں تھے، میں نے اس کے لئے نہر کھودی اور اس میں کھیتی کی ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: خوش ہو کر کھاؤ، تم نے اصلاح کی ہے، فساد پیدا نہیں کیا ہے، آباد کیا ہے، ویران نہیں کیا ہے، (کتاب الخراج یحییٰ ابن آدم؍۷۵۹) بظاہر یہ ویران زمین سرکاری زمین رہی ہوگی، جو کسی شخص کو دی گئی ہوگی؛ تاکہ وہ اسے آباد کرے اور جب وہ آباد نہیں کر پایا تو دوسرے شخص نے آباد کیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو اس زمین پر برقرار رکھا، بہر حال اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خلافتِ راشدہ میں اس بات کی کوشش کی جاتی تھی کہ افتادہ زمینیں آباد کی جائیں اور وہ کسانوں کو دے دی جائیں۔
شریعت کا ایک عام اصول یہ ہے کہ انسان کو اس کی محنت کے اعتبار سے اجرت دی جائے، اگر اس جہت سے غور کیا جائے تو کسانوں کی محنت سب سے بڑھی ہوئی ہے، دوسرے شعبوں کے ملازمین کے مقابلہ وہ زیادہ وقت بھی لگاتا ہے اور مشقت بھی برداشت کرتا ہے اور ایسی چیز مارکیٹ میں لاتا ہے، جو سماج کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت ہے؛ لیکن معاشی ترقی کے اعتبار سے دیکھئے تو وہ سب سے پچھلی صف میں نظر آتا ہے، اس کے مکانات، سواری اور رہنے سہنے کا معیار سب سے کمتر ہوتا ہے، یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے، اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کسان کی حاصل کی ہوئی پیداوار کی قیمتیں گرادی جاتی ہیں، زرعی پیداوار جب تک کسانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اس کی بہت معمولی قیمت لگائی جاتی ہے، بعض اوقات اتنی کم ہوتی ہے کہ اس نے جو کچھ خرچ کیا تھا، وہ بھی اس سے وصول نہیں ہو پاتا ہے؛ لیکن یہی پیداوار جب بڑے سرمایہ داروں، تاجروں اور کمپنیوں کے پاس پہنچتا ہے تو اس کی قیمت آسمان پر پہنچ جاتی ہے، کاشت کار سے جو چیز پانچ روپئے میں خریدکی جا رہی تھی، وہ اب پچاس روپئے سے زیادہ میں فروخت ہوتی ہے، یہ کھلا ہوا ظلم اور ناانصافی ہے، حکومت خود بھی بڑے بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتی ہے، بجائے اس کے کہ خود پیداوار خرید کرے، اسے مارکیٹ میں لائے، اور اس سے ہونے والا فائدہ کاشت کاروں کو پہنچے، حکومت چاہتی ہے کہ کسانوں کو کچھ بڑی کمپنیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے، مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا اور انصاف کی جدوجہد میں شریک ہونا ایک انسانی فریضہ بھی ہے اور مسلمانوں کے لئے دینی فریضہ بھی ہے، اس لئے کسانوں کا جو احتجاج ہو رہا ہے، پُر امن طریقہ پر اس میں شریک ہونا چاہئے، ان کی تائید کرنی چاہئے، چند بڑے سرمایہ دار جو ہندوستان کی پوری معیشت پر سانپ بن کر بیٹھ گئے ہیں، ان کی استحصالی فکر کے خلاف میدان میں آنا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ زرعی شعبہ کے جو اصل محنت کار ہیں، ان کو ان کی محنت کی پوری قیمت ملے۔
حکومت جس طرح تمام شعبوں کو چند کارپوریٹ گھرانوں کے حوالے کرتی جا رہی ہے، یہ قوم وملک کے مستقبل کے لئے بے حد نقصان دہ ہے اور اندیشہ ہے کہ کہیں ہمارے ملک میں بھی انقلاب ِفرانس کی طرح کوئی طوفان نہ اٹھے، جو سب کچھ بہا لے جائے۔(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.