Baseerat Online News Portal

کسان ملک کی ریڑھ کی ہڈی …………مگر شرم تم کو نہیں آتی؟؟

ملک کی شان………… کسان
مکرمی!
آج ملک عزیز ہندوستان میں پچھلے دس دنوں سے جاری کسانوں کے زبردست احتجاج نے ملک ہی نہیں بلکہ کہ بیرونِ ملک بھی اپنی آواز مضبوط کی ہے ،یہ بات الگ ہے کہ دہلی میں سراپا احتجاج کسانوں کی آوازدہلی میں مقیم وزیراعظم اورانکی وزارتی کارکنان کے کانوں تک اتنی مضبوطی سے نہیں پہنچ رہی ہے جوملک و بیرون ملک میں احتجاج کی بانگ بلندنے کہرام مچارکھا ہے،کسان اس ملک کاوہ مضبوط ستون اور اس اہم شعبے سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذریعے ملک کی معاشی حالات کو استحکام ملتا ہے ،ملک کی معیشت میں میں کسان کا اہم رول وکردار ہے ۔ کسان اُس اہم انسان وفرد کا نام ہے جو اپنی انتھک محنتوں، کوششوں اور قربانیوں سے سے ملک میں بسنے والے سبھی سماج ودھرم کے لوگوں کو بلا تفریق اناج کی فراہمی کراتا ہے،کسان اس ملک کی وہ واحد طاقت ہے جس نے ہمیشہ خاموشی کے ساتھ اپنی محنتوں کا مول نہ کرتے ہوئے اپنے معاش کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو مستحکم و مضبوط بنانے کا کام کیا ہے ۔ اگر ہم سوچنے اور سمجھنے کی قوت کا استعمال کرتے ہوئے’ حضرت ِکسان‘ پر نظر ڈالنے کی زحمت کریں گے تو یہ بات نظر آئیں گی کہ ملک میں جتنے شعبہ جات کارخانے ،مل مزدور اور ادارے کام کر رہے ہیں ان کی محنت اِک طرف اور کسانوں کی محنت اور مشقت کو اک طرف رکھا جائے تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں ہو کہ کسانوں کی محنت و مشقت کا میزان ہمیشہ اونچارہے گا اور اتنی محنتو ںکے بعد اتنی دوڑدھوپ کے بعد بھی ان کی آمدنی ملک کے سبھی شعبہ جات کی آمدنی کے سامنے نہیں کے مساوی ہیں ۔ملک کا کسان ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے زمانہ کی ترقیات کو اَن دیکھا کرکے کے کھیت کھلیان کی اپنی ایک حسین دنیا میں منہمک رہتا ہے ۔ کسان کی تعریف اس لئے بھی بنتی ہے کہ حضرت کسان نے کبھی بھی اپنے کاموں کا موازنہ کرتے ہوئے اپنے مال کی قیمت کونہیں ٹھہرایا بلکہ زمانے سے جو حکومت کی پالیسیاں کسانوں کے لئے بنی ہوئی ہے اس پر سو فیصد عمل کرتے ہوئے اپنے کاموں کو انجام دیا ۔علاوہ ازیں حکومت کی طرف سے آئے دن لادے جا رہے ہیں نت نئے قوانین جن میں حکومت کا نہیں بلکہ ساہوکاروں اور بڑے پیسے والوں کا فائدہ دیکھا جارہا ہے یقینا قابل مذمت ہے ۔ ایک طرف پوری طاقت سے قائم مضبوط حکومت ہے تو وہیں دوسری طرف ملک کے کسانوں کی ایکتا ،اتحاد اور کسان تنظیموں کا قابل تعریف زبردست احتجاج ……سوال یہ ہے کہ آخر کب تک کسانوں کے حقوق حکومت دبانے کا کام کرتے رہیں گے؟ ضعیف العمری میں ٹھنڈ کے اندر بھی سڑک پر کھلے آسمان کے نیچے بیٹھا ہوا ’کسان‘ ۔ حکومت کے غرور اکڑ ،نچڑپن کی حقانیت کو بیان کرتے ہوئے ہر دن اک زناٹے دار طمانچہ حکومت کے منہ پر دیتے ہوئے ان کو شرمسار کر رہا ہے لیکن حد ہوگئی ہے بے شرمی کی؟ حکومت ان کی باتوں اور مطالبات کو سننے اور سمجھنے کے بجائے ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے ۔ جس طرح اس مغرورو شاطر حکومت نے ملک کی ایک اقلیت کو نشانہ بنا کر کر تین طلاق جیسے قانون کا اطلاق کیا، بابری مسجد کے فیصلہ کر مجرمین کو بھی باعزت رہا کروایا ، حکومت کو اسی طرح لگا کہ مسلمانوں کی طرح کسانوں کو بھی گھر پہنچاکرانکو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے، لیکن سلام ہیں کسانوں کی ایکتا و اتحاد کو کہ انھوں نے اپنے احتجاج کی آواز ایسی بلند کی ہے کہ بندۂ ناقص کی رائے میں یا تو حکومت کو جھکنا پڑے گا ،یا پر یہ تاریخی تحریک ایسا انقلاب برپا کریں گی کہ وہ انقلاب اس حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے غریب اقلیت ہمدرد محب وطن خیراندیش تعلیمی سیاسی اور سماجی دانشوران ان شخصیات کسانوں کی تحریک کو مضبوطی، تقویت ،وقوت کے ساتھ تحریک کی کامیابی کے لیے متحد ہو کر ساتھ دیں کیونکہ کسانوں نے آواز اٹھائی ہے … اس طاقتور حکومت کے خلاف جوجمہوریت کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کام کر رہی ہے، انہوں نے آواز اٹھائی ہے اس مغرور حکومت کے خلاف جو حکم شاہ چاہتی ہے اور لوگ شاہی کوختم کرنا چاہتی ہے ، انہوں نے آواز اٹھائی ہے اس حکومت کے خلاف جو کسانوں کے مسائل کو لے کر گونگی اور بہری بنی بیٹھی ہے ۔کسانوں نے آواز اٹھائی ہے اس حکومت کے خلاف جس کے دور اقتدار میںجمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا نے حکومت کے سیاسی دباؤکے تحت چاپلوسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہوئے مغرور حکومت کے غرور کو کو بڑھاوادیااور گونگوں و بہروں کی طرح صرف وہی نیوز دکھائی ہیں جس سے حکومت میں بیٹھے ہوئے وزراء ہی خوش ہوں۔ انہیں نظر آتا ہے تو صرف مرکز نظام الدین …جہاںقانون کے پاسدار مہمان اور جماعت جو اپنے مذہب کی تشہیر کے لیے تشریف رکھتے تھے اور انہیں وہ کرونا جیسی لاحق بیماری کو بڑھانے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے ۔ انہیں نظر آتا ہے تو شاہین باغ جو اپنے حق کے لیے راستے پر اکٹھا ہو کر احتجاج کرتا ہے ۔اپنے بڑھاپے کو بھول کر، اپنے حقوق اور اپنے مطالبات کے لیے وہ لاکھوں کسان ، جو کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں اس خودغرض میڈیا کو نظر نہیں آتی۔ ملک کے ہر معزز شخصیات کو آج کسانوں کے احتجاج کا ساتھ دینا چاہیے اور انکی ہمت کو سلام کرتے ہوئے ان کی تحریک کو تقویت پہنچانی چاہئیے ،ورگر نہ ہم نے اس تاریخی تحریک میں ساتھ نہ دیا توتاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔یہی ایک تحریک ہے جس کے ذریعے خواب غفلت میں سوئی ہوئی آمرانہ ،ضدی ،مغرور حکومتکو نیند سے بیدار کیا جا سکتا ہیں ۔یا د رکھئیے! کسانوں کی بد حالی عوام کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے ،صاف لفظوں میں کہوں تو حکومت ظالم ہے اور کسان مظلوم ۔لہٰذا ملک کے ہر باشندہ پر لازم ہے کہ وہ بلا تفریق مذہب وملت مظلوم کا ساتھ دیں ۔ کسانوں کے حقوق بجا ہے حکومت ان کے مطالبات کو پورا کریں، ورنہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساری دنیا میں احتجاج کی گونج ہے حکومت ہر دن شرمسار ہو رہی ہے ………مگر شرم تم کو نہیں آتی………؟؟؟
حافظ محمد شعیب انصاری ،پونے

Comments are closed.