Baseerat Online News Portal

کشوری چاچا

محمد آفتاب صابری (ایم اے صابری)
متعلم جگن ناتھ مشرا کالج مظفرپور
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میرے استاذ گرامی جناب ایم آر چشتی صاحب پان کھانے کے بہت شوقین ہیں ،وہ مجھے اکثرمجھے پان لان کو کہا کرتے تھے اور میں بلا تاخیر پان لانے نکل جایا کرتا تھا۔ میرے اسکول سے چوک کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا ،میں جلد ہی پان کی دکان پر پہنچ جایا کرتا تھا ۔رفتہ رفتہ میری جان پہچان پان والے سے بڑھنے لگی چنانچہ استاذ گرامی کا پان لانا اب میرا محبوب مشغلہ بن چکا تھا۔ جب استاذ گرامی مجھے پان لانے کو کہتے میرا دل خوشی سے کھل اٹھتا ۔ ایک روز طبیعت خرابی کے باعث میں اسکول جانے سے قاصر رہا۔ اگلے ہی دن جب میں کشوری چاچا کی دکان پر استاذ گرامی کا پان لانے گیا تو وہ مجھے دیکھ کر کھل اٹھے ۔بولے بیٹا کل کہاں تھے تم؟ "میری طبیعت ذرا ناساز تھی۔” میں نے جواب دیا۔وہ پیار بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ کر بول پڑے کل تجھے دیکھنے کو میری آنکھیں ترس گئیں بیٹا۔ جب میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھا تو یوں لگا جیسے میرا انتظار وہ صدیوں سے کر رہے ہوں وہ پیار بھری نظروں سے مجھے تک رہے تھے ۔میری بھی کیفیت کچھ ایسی تھی گویا ان کی صورت کے علاوہ کوئی اور شبیہ دیکھنے کی آرزو بھی مجھ میں باقی نہ رہی ہو۔
ہم لوگوں کی گفتگو جاری ہی تھی کہ دفعتاً کافی تیز بارش شروع ہو گئی ۔کچھ پل تو یوں لگا جیسے آسمان بھی ہماری ملاقات پر خوشی کے آنسو بہا رہا ہو۔ کشوری چاچا نے کہا بیٹا بارش ہو رہی ہے تم دکان کے اندر آ جاو۔ میں دکان میں داخل ہو گیا ۔انھوں نے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور بڑے پیار سے کہنے لگے بیٹا روزانہ مجھ سے ملاقات کر لیا کرو۔ میں نے کہا میری بھی خواہش ہوتی ہے کہ میں آپ سے روز ملوں۔ وہ میری بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑے گویا میری باتیں ان کے دل میں اتر گئی ہوں۔ اسی دوران انہوں نے مجھے ایک کتاب دی اور بولے بیٹا زور سے پڑھو میں بھی سنوں گا۔ میں نے پڑھنا شروع کیا۔ مجھے یاد ہے اس کتاب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تھا۔ میں بڑی دلچسپی سے وہ کتاب پڑھتا رہا۔ پڑھنے کے بعد میں نے ان سے پوچھا چچا جان آپ بھی ان کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں؟ "ہاں” ، انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ میرے سوال کا مقصد انہوں نے محسوس کر لیا تھا۔ وہ مجھے بڑے ہی پیار سے سمجھانے لگے۔ بیٹا اگر کوئی نیک بات بتاتا ہو تو اسے کبھی کسی مذہب سے مت جوڑنا۔ نیکی کے پیامبر فقط ایک ہی مذہب کے رہنما نہیں بلکہ پوری انسانیت کے رہنما ہوتے ہیں،پھر وہ کہنے لگے میرے نزدیک وہی سب سے نیک بخت انسان ہے جو ہر مذہب کی عزت کرتا ہو ۔میں بڑے غور سے ان کی باتوں کو سنتا رہا اور دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ کاش آج چاچا کی طرح سبھی لوگ سوچنے لگیں تو یقیناً ہمارے ملک کے گوشے گوشے میں امن و سکون ہی رہے گا . باتوں باتوں میں وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہیںچلا۔
اب بارش تھم چکی تھی میں استاذ گرامی کا پان لے کر وہاں سے رخصت ہو گیا۔ ان سے ملاقات کا سلسلہ یونہی چلتا رہا روز وہ مجھے اچھی اچھی باتیں بتایا کرتے تھے۔میرے دل کی دنیا ان کے باعث شاداب ہو چکی تھی۔ کشوری چاچا کی عمر اس وقت تقریباً 60 برس کی رہی ہوگی مگر اس عمر میں بھی وہ نہایت ہی پھرتیلے تھے۔ اپنا ہر کام خود کیا کرتے تھے اور وقت کے بالکل پابند ۔لبوں پرہر وقت مسکراہٹ ۔چہرہ بالکل کھلتے ہوئے پھول کی مانند سدا چہکتا ہی رہتا تھا۔ میری دنیا ان کی مسکراہٹ کی روشنی سے سدا روشن رہا کرتی تھی ۔وقت گزرتا گیا کچھ روز کے بعد اچانک کشوری چاچا کی دکان مسلسل بند رہنے لگی۔ میں حیران و پریشان رہنے لگا۔ کسی بھی کام میں میرا جی نہیں لگتا تھا۔ حتیٰ کے پڑھائی میں بھی نہیں۔چار دن گزر چکے تھے انتظارکی قوت اب مجھ میں باقی نہ رہی میں نے اس شخص سے پوچھا جن کی دکان کشوری چاچا کے بغل میں ہی تھی انہوں نے مجھے بتایا کہ اچانک کشوری چاچا کی طبیعت بگڑ گئی ہے یہ خبر سنتے ہی میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ پھر میں نے اس آدمی سے کشوری چاچا کا پتہ معلوم کیا اور ان سے ملاقات کرنے کے غرض سے ان کے گاوں کی طرف نکل پڑا۔ تقریباً آدھا گھنٹہ سفر کرنے کے بعد میں ان کے گاوں میں جا پہنچا گاوں میں ایک عجب قسم کاسنّاٹا چھائے ہوا تھا لوگوں کے چہرے پر بھی خاموش چھائی ہوئ تھی۔ تبھی میری نظر ایک گھر پر پڑی ،جہاں لوگ جمع تھے۔ گھر کے اندر سے رونے کی صدائیں آ رہی تھیں۔ میں نےوہاں جا کر دیکھا کہ ایک تصویر پر پھولوں کا ہار لگا ہے اور کچھ لوگ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے ہیں ۔اس تصویر کو دیکھ کر میری بھی آنکھیں نمناک ہو گئں۔ اس تصویر کے نیچےلکھا تھا کشوری رائے۔

Comments are closed.