Baseerat Online News Portal

کل پر ڈال خاک! اور نئے عزم پیدا کر! 

 

 

نور اللہ نور

 

 

کل جب آفتاب اپنے مطلع سے نکلے گا تو ہم عمر نا پائیدار کے ایک سال کو الوداع کہ رہے ہوں گے اور حیات مستعار کی ایک لڑی ٹوٹ کر منتشر ہو جائے گی.

یقیناً سال گزشتہ نامساعد حالات سے دو چار رہا ، مصائب و آلام کی راہ کو سر کرنا پڑا ، خوشیاں روٹھی رہیں ، خوف و ہراس کے سائے میں بڑی جانفشانی کے ساتھ یہ سال گزرا.

 

کوئ بھی ان گزرے ہوئے لمحوں کو یاد نہیں رکھنا نہیں چاہے گا ، ہر ایک اسی چیز کا متمنی ہوگا کہ زندگی دوبارہ ایسے خواب نہ دکھائے اور ایسی تباہی کے منظر سے قبل اس دار فانی کو الوداع کہ دے.

 

سال تو گزر گیا مگر اس نے جو زخم دیئے اس کا درد ابھی بھی تازہ ہے ، اس کے خوفناک شام و سحر کا تصور ابھی فکرو خیال میں گردش کر رہا، اس کے خوف سے پر دن اور اضطراب بھری شب کی وحشت باقی ہے ، اس کا خوف ہر ایک ذہن و دماغ پر ہنوز طاری ہے

 

ہر ایک زخموں سے چور نالاں کناں ہے، یاس و حرماں کا شکوہ لئے مغموم و اداس بیٹھا ہے ، پرواز کے حوصلے کھوچکا ہے ، کسی کو طاعون کا شکار ہوئے عزیز کا غم ہے، تو کوئ مالی تنگی کا شکوہ کر رہا ہے اور طلبہ اپنی زندگی کے انمول ایک سال ضائع ہونے پر افسردہ خاطر ہے.

 

یقیناً جب انسان کے مال و متاع پر ڈاکہ پڑ جائے ، اس کی ذخیرہ کی ہوئ پونجی خاکستر ہو جائے ، اس کا اپنا کوئ رفیق داغ مفارقت دے دے ، اس کے تیار کردہ عزائم و منصوبے پر پانی پھر جائے اور ساری تیاریاں دھری دھری کی رہ جائے تو اس کے حوصلے بکھر جاتے ہیں اور اس کی ہمت جواب دے دیتی ہے ، انسان امید و بیم سب منقطع کر دیتا ہے.

مگر حقیقت ہے کہ ہمارے کبیدہ خاطر ہونے سے لٹی ہوئی پونجی عود کر نہیں آسکتی، رنج و ملال سے مافات کی تلافی ممکن نہیں ہے ،حوصلہ ہار جانے سے بکھرے عزائم کا تدارک نہیں ہو سکتا ہے ، ہماری آہ و بکا سے ہمارے لیل و نہار واپس نہیں مل سکتے ، امید و رجاء کی قندیلیں گل کر کے اپنے گرانمایہ پونجی حاصل نہیں کر سکتے.

 

اس لئے رنج و الم کے درد سے نکل کر نئے آشیاں کی تعمیر پر غور فکر کرنی چاہیے ، کوچہ افسردگی و ملال سے نکل کر فلک پر کمند ڈالنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے، شکشتہ منصوبوں میں پھر سے نئ روح پھونکنے کی راہ تلاش کرنی چاہیے ، یاس و حرمان سے باہر آکر امید و رجاء کے دیپک روشن کرنے چاہیے کیونکہ منزل شکشت تسلیم کرنے والوں کو نہیں ملتی بلکہ منزل جفا کشوں ، جوان مردوں ، ثابت قدم رہنے والوں کا استقبال کرتی ہے.

 

یقیناً ہم نے سال گزشتہ اپنی گرانمایہ پونجی کھوئ ہے ، اپنی زندگی کے ماہ و سال کا ایک سال خوف و اضطراب میں گزار ہے جس سے ہم شکشتہ حال ہیں مگر ہم اپنے نئے جزبوں کی حدت سے سال نو کو کار گر اور مفید بنا سکتے ہیں ، بلند حوصلوں سے اپنوں خواب کو حقیقت کا جامہ پہنا سکتے ہیں ، اولو العزمی سے اپنی دنیا از سر نو حسین و جمیل اور دلکش بنا سکتے ہیں، اپنے سرد حوصلوں میں تپش و تمازت پیدا کر کے مستقبل کی راہ آسانی سے سر کر سکتے ہیں

 

تو آئیے! حالات کی نامساعدگی کا شکوہ بالائے طاق رکھیں ، نئے جزبوں اور امنگوں سے سال نو کا استقبال کریں ، اپنے گزشتہ کل پر خاک ڈال کر مستقبل کے لئے ایک نیا عزم و حوصلہ پیدا کریں! اور اپنی منزل کے حصول کے لئے زاد راہ باندھ لیں اور ایک نئی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں!

 

کل پر ڈال خاک! اور ایک نیا عزم پیدا کر!

نئی طریق ، نئی صورت اور ایک نیا نظم پیدا کر

Comments are closed.