Baseerat Online News Portal

کل ہند مسلم مشاورتی اجتماع کی ضرورت

سیا ست‘ میل ومحبت اور اخلاقی قیادت
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را

عبدالعزیز
فرقہ پرستی اور فسطائیت سے تنہا مسلمان مقابلہ نہیں کرسکتے ۔مقابلہ کے لیے ضروری ہے کہ جولوگ بھی جس پیمانے پر ہی سہی فسطائی طاقتوں سے لڑ رہے ہیں ان کے قدم سے قدم ملا کر لڑنا ہوگا ۔اگر مسلمانوں میں سے کوئی گروپ یا تنظیم انتخابی سیاست میں حصہ لے‘ اس کے نزدیک معاہداتی سیاست ہو اور ایک ایسی تر بیت یافتہ جماعت کا حصہ ہو جو امت مسلمہ کو خیر امت اور داعی جماعت سمجھتی ہو خاندانی جماعت نہ ہو ۔سیاست میں محض مسلمانوں کی نمائندگی بڑھا نے کے لئے نہ ہو بلکہ ہر اس طبقہ کی آواز بن کر ابھرے جو کچلا پسا ہوا ہو ۔ اس کے اندر جمہوری اور شورائی عمل ہو ۔ ایسی جماعت سے ہی امید کی جا سکتی ہے کہ ووٹوں کے حصول اور جلد کامیاب ہو نے کے لئے فرقہ وارانہ سیاست سے باز رہے گی ۔ جو لوگ بی جے پی اور آر ایس ایس کے ردعمل میں سیاست کریں‘گے وہ یقینا کہیں گے کہ وہ ہم سے زیادہ فرقہ وارانہ تقریریں اور بیانات دیتے ہیں ۔لہذا ہمیں بھی زہریلی تقریریں کرنے کا حق ہے خواہ کوئی ہارے یا جیتے۔ حقیقت میں ایسے لوگ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک جماعت 1925سے فرقہ پرستی کازہر پھیلا رہی ہے۔ وہ اس کی بدولت ملک کی باگ ڈور سنبھالنے میں کامیاب ہو گئی ہے ۔ایسی جماعت یا پریوار کو پارلیمنٹ یا چند اسمبلیوں میں چند سیٹیں لے کر مات دینے کا خواب وہی لوگ دیکھ رہے ہیں جو سیاست کے راستے سے عزت و شہرت کمانا چاہتے ہیں۔ حالات میں کیا بگاڑ ہوگا‘ فساد ی کیسا فساد برپا کریں گے اس سے ان کو کوئی مطلب نہیں ۔میرے خیال سے ایسے لوگوں کو فرقہ پرست پریوار اس لیے پسند کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے چند فرقہ پرستوں کے بیان و تقریر سے اپنی فرقہ پرستی کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔دہلی فساد سے کچھ پہلے اے ایم آئی ایم کے ایک لیڈر جناب وارث پٹھان نے فروری 2020 میں بمبئی میں تقریر کی کہ پندرہ کروڑ مسلمان سو کروڑ ہندوئوں پر بھاری ہیں ۔اگر فوج اور پولیس فورس ہٹا لی جائے تو مسلماں ہندوئوںسے نمٹ لیں گے ۔امیت شاہ کو پارلیمنٹ کے اندر جب کانگریس کے ایک لیڈر نے کپل مشرااور انو راگ ٹھاکر کے بھڑ کائو تقریر کویاد دلایا کہ دہلی فساد سے پہلے آپ کی پارٹی کے لیڈر وں کی فساد انگیز تقریر یں ہوئی ہیں تو امیت شاہ نے جو اب میں افسوس اور شرمندگی ظاہر کرنے کے بجائے کہا کہ وارث پٹھان کی اشتعال انگیز تقریر جو سو کروڑ ہندوؤ ں کے خلاف ہو ئی تھی آپ کو یاد نہیں آئی ۔ یہ ہے فرقہ پرستوں کی پارٹی کی سو فر قہ پر ستانہ تقریروں کا جواب سوچئے کیا وارث پٹھان نے سوچا تھا کہ کپل مشرا ، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کی تقریر وں کا جواب ان کی ایک تقریر ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے شاہ اور شہنشاہ جیسے لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے لا ابالی طبیعت کے ہوں جن کی تقریر وں اور بیانات سے ہمارے لوگوں کی تقریر وں اور بیانات کا جواز پیش کیا جا سکے۔
تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں پر غم و الم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے فسادات کا لا منتہا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ گاندھی جی نے شروعات میں روکنے کی کوشش کی۔ ہندو مسلم کے اتحاد کی کوشش کرنے کی وجہ سے دشمن انسانیت نے ان کی جان لے لی۔ دس پندرہ سال مسلما نوں پر سکتہ طاری رہا حالات اتنے خراب ہوئے کہ اترپردیش کے ایک مسلم ایم ایل اے نے یہاں تک کہہ دیا کہ جان بچانے کے لیے نام یا مذہب تبدیل کرکے رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کچھ لوگ اپنے آبائی مذہب کی طرف بھی دیکھنے لگے۔ مسلمانوں کو پاکستانی کا الزام اور ملک سے بے وفائی کا طعنہ دیا جانے لگا ۔پاکستانی جاسوسی کا الزام دے کر گرفتاریاں بھی ہوتیں کوئی شنوائی نہیں ہوتی ملک بھر میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ہوگئی ۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کچھ کیا جائے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ، حفظ الرحمن اور ڈاکٹر سید محمود کانگریس کے جید لیڈروں میں سے تھے اور جنگ آزادی کے صف اول کے مجاہدین تھے۔ ان لوگوں نے جماعت اسلامی ہند اور مسلم لیگ کیرالہ کو نظر انداز کر کے مسلمانوں کے دوتین کنونشن بھی کئے مگر کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے۔
1961 میں سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر سید محمود کی صدارت میں دہلی میں ایک کنونشن ہوا جس میں ڈاکٹر صاحب نے کانگریس میں رہتے ہوئے بیان دیا کہ ملک میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہر ی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگرچہ کنونشن نتیجہ خیز نہیں ہو ا مگر ڈاکٹر صاحب کے اس بیان کی وجہ سے کنونشن اور ڈاکٹر صاحب ملک بھر میں موضوع بحث بن گئے۔ وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے سخت ناراضگی ظاہر کی۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنا بیان واپس لینے سے انکار کر دیا جس کی وجہ مسلمانوں میں ان کی زبردست پذیرائی ہو نے لگی۔ مسلمانوں میں ڈاکٹر صاحب بیحد مقبول شخصیت ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کی بڑی چھوٹی جماعتوں سے حالات حاضرہ پر صلاح و مشورہ کرنے لگے خاص طور سے مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا ابو الیث ندوی و اصلاحی ( امیر جماعت اسلامی ہند) مولانا عتیق الرحمن عثمانی (جمعیت علما ہند) مولانا محمد مسلم (ایڈیٹر دعوت). مولانا منظور نعمانی ( لکھنؤ) جیسی بر گزیدہ شخصیتوں سے متعدد بار صلاح و مشورے کرنے لگے۔ پے در پے مشاورت کے نتیجے میں آخر کار8‘9اگست کو کل ہند مسلم مشا ورتی اجتماع کے نام سے دارالعلوم ندوۃالعلمالکھنؤ میں منعقد ہوا ۔جس میں کل ہند مسلم مجلس مشاورت کی بنیاد پڑی۔ ’’ڈاکٹر سید محمود صاحب پر جو خیال سب سے زیادہ طاری تھا وہ یہ کہ اس ملک میں اخلاقی قیادت ایک خلا ہے جو صرف مسلمان ہی (قرانی تعلیمات اور اسوہ حسنہ ؐ سے) پر کر سکتے ہیں ۔مسلمانوں کو اس کی قیادت کی ذمہ داری قبول کر نی چاہیے۔ وہ کہتے تھے کہ افسوس ہے کہ اکثریت اس قیادت کی ذمہ داری سے دست کش ہوگئی اور اس نے اخلاقی نا کامی کا ثبوت دے دیا ہے۔گاندھی جی کے بعد ہند و مسلم اتحاد کا کو ئی داعی ملک میں نہیں رہا‘‘( پرانے چراغ از مولانا علی میاںؒ) مشاورت کی تشکیل کے بعد مشاورت کے لیڈروں نے ڈاکٹر صاحب کی قیادت میں ملک بھر میں خاص طور سے فساد زدہ علاقوں میں نہایت کامیاب دورے کئے ۔جہا ں بھی اکابرین گئے مسلمانوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا ہزارروں لاکھوں کی بھیڑ ہوتی۔ پانچ پانچ دس دس میل ڈاکٹر صاحب اسی سالہ عمر اور شدید قسم کی بیمار ی کے باوجود پیدل چلتے ۔ بعض جلسوں اور ریلیوں میں ہندو لیڈر اور سامعین کی اچھی خاصی تعداد ہوتی جو ڈاکٹر صاحب کے حوصلے کے باعث ہوتی۔ جلسوں اور ریلیوں سے مسلمانوں کے بھی حوصلے بڑھے اور خوف و ہراس میں کمی آئی۔اکھڑے ہوئے پائوں جم گئے۔ دو تین سال تک مشاورت نے اپنے کارہائے نمایاں سے تاریخ رقم کی مگر1968 کے عمومی انتخابات بلا واسطہ اور بالواسطہ مجلس کے لیے بڑے نا مبارک ثابت ہو ئے۔ مشاورت نے اگرچہ بالواسطہ حصہ لیا مگر انتخابات کے بے رحم اور سنگینی منطق نے جو ریاضی کی طرح نظریات پر نہیں بلکہ عملی فیصلہ پر اور ابہام پر نہیں بلکہ تعین پر عقیدہ رکھتی ہے مجلس کے شیرازہ کو درہم برہم کردیا
’’ در اصل شروع ہی سے مجلس میں دو بنیادی خیالات کا م کر رہے تھے۔ ایک یہ کہ مسلم مجلس مشاورت اس اخلاقی قیادت کے خلا کو پر کرنے کے لئے وجود میں آئی تھی جو عرصہ سے ہندو ستان کی سیاست اور ہندو مسلم تعلقات کے میدان میں پایا جاتا تھا۔ اس کو خیر امت اور خا د م انسانیت بن کر میدان میں آنا چاہیے اور ملک کی سچی حب الوطنی ، انسان دوستی، خلوص، دیانت اور محبت کا پیغام دینا چاہئے۔ یہی ڈاکٹر صاحب کے دل کی آرزو تھی اور اسی سے ان کی حقیقی دلچسپی تھی۔
د وسرا خیال یہ تھا کہ مسلمانوں میں قیادت کا ایک خلا پایا جاتا ہے ایسی قیادت جو ان کے مسائل کو جرات اور قابلیت کے ساتھ پیش کر سکے، جو ان کے مقدمے کی قوت اور اعتماد کے ساتھ وکا لت کرے‘ مسلمانوں کا انتشار اس سے دور ہو اور اکثریت سے دانستہ اور نا دانستہ پہنچنے والے نقصانات کا مقابلہ کیا جا سکے ‘‘( پرانے چراغ صفحہ 442)
غرض یہ دو طریقہ فکرتھے کھل کر اس وقت سامنے آگئے جب 67عیسوی کا معرکہ سر پر آگیا ایک فریق جس میں ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی پیش پیش تھے مجلس کے اکثر ارکان اس کے مو ئد تھے ۔یہ مطالبہ کررہے تھے کہ مجلس انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے اور خود ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں ’’مسلمان ثابت کر دے کہ مسلمانوں نے کانگریس کے لیے خط غلامی نہیں لکھ دیا ہے‘‘ بڑی کشمکش کے بعد یہ تجویز منظور ہوئی لیکن تجویز کا متن بڑے سلیقے اور قابلیت کے ساتھ تیار کیا گیا۔ جس میں مولانا محمد مسلم صاحب ( ایڈیٹردعوت) کی صحافتی لیاقت اور توازن دماغی کا بڑا دخل تھا اور جس کا رنگ اور اپیل سیاسی سے زیادہ اخلاقی اصول تھی۔
لیکن الیکشن کے نتائج کے بعد وہی کچھ ہوا جس کے انجام سے ڈاکٹر سید محمود صاحب نے آگاہ کیا تھا ۔مجلس میں انتشار بڑھ گیا -ڈاکٹر صاحب نے مجلس کی صدارت سے استعفیٰ دینا چاہا مگر کسی طرح عارضی طور پر انہیں راضی کرلیا گیا۔ ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی اور ان کے رفقا کو اجازت د ے دی گئی کہ یوپی میں ایک سیاسی تنظیم قائم کر لیں۔ چنا نچہ 2جون1967 کے ایک جلسہ میں ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کی صدارت میں ایک سیاسی جماعت یوپی کے لیے قائم ہوگئی۔ ڈاکٹر فریدی صاحب بدستور مشاورت کے مرکزی ممبر رہے اور ڈاکٹر سید محمود صاحب نے اپنی فراخ دلی اور بزرگانہ شفقت سے پچھلے واقعات کو نظر انداز کر دیا اور دونوں گلے ملے۔ ڈاکٹر فریدی صاحب کا ذہن فرقہ پرستی سے کوسوں دورتھا ۔ موصوف ملک و ملت کے لیے یکساں سوچ رکھتے تھے ۔ہندو اور مسلمانوں میں وہ مقبول تھے اپنے وقت کے بہت مقبول اور مشہور ڈاکٹر تھے ۔ خاکسار سے کلکتہ میں جب وہ تشریف لائے تو ان سے اچھی خاصی ملاقات رہی۔ ڈاکٹر مقبول اور ملا جان کے مہمان تھے جس میں خاکسار بھی کلام و طعام میں شریک تھا ۔زکریا اسٹریٹ میں جلسہ موصوف کی صدارت میں ہوا۔ نقابت کے فرائض خاکسار نے انجام دیئے۔ ایک بار ایک کام سے لکھنؤ جانا ہوا تو ڈاکٹر صاحب کے چیمبر میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا ۔ مریضوں کی بھیڑ کی وجہ سے زیادہ بات چیت کا موقع نہیں ملا ۔لیکن ان کا عالیشان مطب دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ راستے میں ایک غیر مسلم بزرگ سے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ’دیوتا سمان‘ ہیں ۔مولانا علی میاں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’ مسلمانوں کے مسائل میں وہ خالص مسلمانوں کو خطاب کر نے کے موقع پربھی وہ اپنی تقریر وں میں مسلمانوں کو اتنا ہی زور دیتے تھے جتنی ان کو ایک مریض کی طرح اس وقت ضرورت ہوتی تھی الفاظ کے بڑے سے بڑے ذخیرے کو خرچ کر دینے اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے وہ قائل نہ تھے جس طرح مسلمانوں کی بعض سیا سی جماعتوں کے آتش نوا اور شعلہ بیان مقرر قائل اور عا دی ہیں۔ ا س کا تا وان ان کواس صورت میں بر داشت کرنا پڑا کہ وہ کبھی عوام اور جذباتی لوگوں کے لیڈر نہ بن سکے۔ لیکن ان کو اس کی پر واہ نہ تھی ان کا فن اس کا مزاج بن گیا تھا۔ مسلمانوں کی اس بیماری سے واقف تھے کہ وہ وقتی جوش اور ہنگامہ کو مسلسل اور مستقبل میں کو شش اور سر گرمی پر ترجج دیتے تھے۔ لیکن حقیقتاً اپنے فن کا وفا دار وہ مریض کے ہمدرد ڈاکٹر نہیں جو مریض کو تسکین دینے اور اس کے تیما ر داروں سے داد حاصل کرنے کے لئے ’عطائی‘کی سطح پر آنے کے لئے تیار ہوجائے اور مر ض میں مارفیا کا انجکشن دے کر مریض کو سلا دے یا وقتی طور پر مطمئن کر دے ‘‘ وہ آگے لکھتے ہیں کہ ’’ وہ ہمیشہ ملی خدمت کے میدان میں تھے اور ان کا دل ملک و ملت کے لیے درد مند اور ان کا ذہن مسلمانوں اور ہم وطنوں کے لئے فکر مند تھا لیکن مسلم مجلس مشاورت کے آخری دور اور مسلم مجلس کے ابتدائی دور میں میں نے یہ سمجھ کر ہمیشہ ان کی ہمت افزائی اور تقویت کی کوشش کی کہ ان کی ان خصوصیات اور صفات کا دوسرابالخصوص اس جرات اور بے غرضی کا دوسرا رہنما مسلمانوں کی اس نسل میں اور خاص طور پر ان چند برسوں میں جب ہندوستان تحریک خلافت کے پروردہ تمام آزمودہ کار سپاہیوں اور رہنما ئوں سے خالی ہو گیا ہے‘ نہیں نظر آتا ۔بارہا انہوں نے اپنی تنہائی، ساتھ دینے والوں کی کمی اور پرانے ساتھیوں کے بیٹھ جا نے اور نئے رفیقوں کے نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اب اجازت دیجئے کہ میں بھی سیاست کا میدان چھوڑ کر اپنے مطب اور پیشہ میں مصروف ہوجائوں‘‘
ڈاکٹر صاحب ملت کی بے توجہی اور بے اعتنائی کا گلہ شدت سے کرتے اور سیاسی میدان چھوڑ نا بھی چاہتے مگر ان کا درد ان کو چین سے بیٹھنے نہ دیتا ۔جن خطرات و حقائق کو بچشم دیکھ رہے تھے ان سے وہ اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے تھے ۔ان کے سیکڑوں مریضوں سے زیادہ جو ان کے مطب میں آتے تھے ‘ان کے نز دیک ملک وملت کے مریض تھے۔ وہ آخری وقت سیاست کے کمبل کو نہ چھوڑ سکے اور نہ کمبل نے انہیں چھوڑنے دیا۔ مگر ڈاکٹر صاحب کی عظیم الشان قابلیت اور غیر معمولی صفات والے ایسے انسان کی نا قدری کسی بڑے المیہ سے کم نہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ملت کی بے توجہی اور بے اعتنائی اور ان کے نئے پرانے رفقاکی بے وفائی کچھ ایسی رہی کہ ڈاکٹر صاحب کو سیاست کی یہ گلی راس نہیں آئی۔ وہ اپنوں کا درد اور شکوہ لے کر دنیا سے رخصت ہو ئے اور وہ تو اپنے تجربے میں ناکام نہیں کیونکہ انہوں نے اپنی کوشش اور جدو جہد میں کوئی کمی نہیں کی مگر اترپردیش کی ملت اسلامیہ خاص طور پر نا کام رہی۔
آج بھی دو عظیم اور مخلص ڈاکٹر وں کے دو بڑے خیالات میں ملت بٹی ہوئی ہے۔ ضرورت ہے کہ دونوں ڈاکٹر وں کے تجربے سے ملت فائدہ اٹھائے۔ اس وقت دونوں مجلسیں مرثیہ خواں ہیں ۔میرا تعلق مشاورت سے ہے‘ جس کی یا جس کی طرح مشاورت کی آج بیحد ضرورت ہے۔ سید صاحب کی مشاورت کئی وجوہ سے گہری نیند میں سو گئی ہے۔ ملت کی کوئی جماعت اور فر د اسے جگا نے سے ڈر رہا ہے کہ بیداری میں کہیں پھر مقدمہ بازی کی شکا ر نہ ہوجائے۔ آج 1964سے بھی زیادہ پر آشوب حالات سے ملت گزر رہی ہے ۔ضرورت ہے کہ کو ئی مخلص شخص یا جماعت اٹھے اور کل ہند پیمانے پر تمام مسلم جماعتوں اور چیدہ شخصیتوں کا ایک مشاورتی اجتماع منعقد کرنے کی کوشش کر ے۔ اس میں اجتماعی مشورے سے کو ئی راہ اعتدال نکالی جائے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی فکری اور عملی رہنمائی کی جائے۔ ہمارے اندر کچھ لوگ ہیںجن کے پیچھے چلنے کے لیے کچھ لوگ تیار ہوں‘ تو وہ رہنما ئی کر سکتے ہیں ۔ ملک میں نفرت کی آندھی بڑھتی جارہی ہے۔ جہالت کا اندھیرا بھی بڑھتا جا رہا ہے اس کا مقابلہ سیاسی قدروں سے میل و محبت کے گہرے جذبات سے اور اعلیٰ اخلاقی قیادت سے نہ غضب سے نہ تخریبی جوش سے بلکہ ٹھنڈے دل سے ایسی راہ نکالی جا ئے جو ہم سب کو منزل مقصود تک پہنچا سکے۔

()()()
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Comments are closed.