Baseerat Online News Portal

کوروناوائرس اور ہمارا سماجی رویہ

شاھنوازبدرقاسمی
کورونا وائرس کی وجہ سے ہمارا ملک تباہی کی اس منزل کی طرف دن بدن آگے بڑھ رہا ہے جس کا انجام بہت بھیانک اور ناقابل یقین ہے. لوک ڈاؤن کی مدت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیوں کہ سرکاری سطح پر جو تیاریاں چل رہی ہیں اس سے بظاہر یہی اندازہ ہو رہا ہےکہ اگر خدا نخواستہ 15 اپریل تک اس مہلک وباء پر قابو نہیں پایا جاسکا، تو ہماری سرکار مزید چند ماہ لوک ڈاؤن کی مدت میں اضافہ کرکےحالات کو بہتر بنانےکی ہرممکن کوشش کرےگی۔ عالمی سطح کے طبی ماہرین اور WHO کی رپورٹ بھارت کے لیے بیحد تشویش ناک ہے. ایمرجنسی جیسے سخت حالات کے باوجود بہی ہمارے لوگ کورونا وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ ہم پولیس کو دیکھتے ہی گہر میں گھس جاتےہیں اور جاتے ہی فورا سڑک پر نکل آتے ہیں، مسجد میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے اور مودی، یوگی اور نتیش کی کمیاں نکالنے میں الجھے ہوئے ہیں اور ملک کےحالات روز بروز بد سے بدتر ہوتےجارہے ہیں۔ یاد رکھئے جب حالات بے قابو ہوجائیں گے، تو چاہے ہماری حکومت ہو، پولیس انتظامیہ، یا پہر ڈاکٹرس کی ٹیم کوئی کچھ نہیں کرسکتی کیوں کہ امریکہ، اٹلی اور یوکے جیسے ترقی یافتہ مممالک، جہاں کے میڈیکل ڈپارٹمنٹس اور فیسیلٹیز عالمی سطح پر معیاری مانے جاتے ہیں، وہاں کے ڈاکٹرس سب کچھ ہوتے ہوئے بہی کچھ نہیں کرپارہے ہیں۔ اٹلی میں روزانہ ایک ایک ہزار مریض اس بیماری سے لقمئہ اجل بن رہے ہیں۔ جب امریکہ تمام تر سائنسئ، طبی ودفاعی طاقتوں کے باوجود بے بس ہے، توپہر آپ ہندوستان کے میڈیکل سہولیات سے بخوبی واقف ہیں۔ یہاں ایک سو تیس کروڑ کی آبادی پرایک لاکھ وینٹیلیٹرز تک نہیں ہیں جہاں بہتر علاج ممکن ہوسکے۔

ایسے نازک اور مشکل ترین حالات میں ہمیں ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کے بجائے ہمت اور حوصلے کے ساتھ اس خطرناک اور لاعلاج بیماری سے لڑنے کے لے متحد ہوکر لوک ڈاؤن کو صدفیصد کامیاب بنانا ہوگا۔ ہمارے یہاں کورونا وائرس کو عام لوگوں نے ہنسی مذاق بناکر رکھ دیاہے۔ اس عالمی عذاب کی سنگینی کا شاید ہمیں اندازہ نہیں ہے۔ پوری دنیا کے طبی ماہرین، علماء اور حکومت ہندکی سخت ترین ہدایات کے باوجود ہم اپنے گھروں میں رکنے کو تیار نہیں ہیں۔ شہری علاقوں کے ساتھ دیہی علاقوں میں تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ ملک میں کچھ ہوہی نہیں رہاہے۔ ملنے جلنےکا وہی پرانا انداز اور طریقہ اب بھی جاری ہے جس سے بچنے کے لیے سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ بار بار یہ کہاجاچکا ہے کہ اگر اپنی فیملی اور اس ملک کو کورونا وائرس سے بچانا چاہتے ہیں، تو ایک ہی علاج ہے کہ آپ اپنے گھروں میں قید رہیں اور ڈاکٹروں کی طرف سے جو ہدایات دی گئی ہیں، اس پر سختی سے عمل کریں۔

یہ وبائی بیماری مسلم فیملیز کیلے اور بھی پریشانی کا سبب ہے کیوں کہ طبی ماہرین کے مطابق جوائنٹ فیملیز میں احتیاط اور بہی مشکل ہوجاتاہے۔ اس لیے اس بات کاخاص خیال رکھیں! نظافت اور صاف صفائی کے ساتھ آپسی ملاقات اور رہن سہن پر کنٹرول انتہائی ضروری ہے۔ یہ وقت یقیناً ہم سب کے لیے بیحد تکلیف دہ ہے کہ اہل خانہ میں کوئی نہ کوئی افراد ملک وبیرون میں روزگار یا پہر علم کےحصول میں ہم سے دور ہیں۔ بڑی تعداد میں یومیہ کام کرنے والے مزدور کلاس کے لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے سڑکوں پر بھٹک رہےہیں، جن کےپاس نہ رہنے کے لیے گھر ہے اور نہ ہی کھانے کے لیے اناج۔ ان کی بے بسی اور تکلیف کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لاکھوں لوگ کرایہ کے مکان اور سفر کے بیچ میں پھنسے ہوئے ہیں جن کے پاس دودن کے کھانے تک کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔ کروڑوں لوگ ہمارے ملک میں بے روزگار ہوچکے ہیں۔ جن کے سہارے پورا گھر چلتا تہا، اب ان کی دنیا ویران ہوچکی ہے۔ سب کے آنکھوں کے سامنے موت کا مہیب منظر دکھائی دے رہاہے۔ ایک طرف بھوک سے مرنے کا خطرہ، وہی‍ں دوسری طرف بیماری کا ڈرکیوں کہ اس بیماری کے بعد انسان اپنوں کے لیے بہی پرایا ہوجاتا ہے۔ انسانی زندگی کے لیے اس سے زیادہ تکلیف کی گھڑی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس بیماری نے ہمیں اپنوں سے بہی دور کردیا ہے۔ اس وقت ہم مسلمان ہونے کے باوجود بہی مسجد نہیں جاسکتے کیوں کہ اللہ کی ناراضگی کی یہ انتہاء ہے کہ اس نے ہمارے لامحدود گناہوں کی وجہ سے اپنے گھر تک کا دروازہ بہی ہمارے لیے بند کردیا ہے۔ 1400 سالہ اسلامی تاریخ میں ایسی کومثال نہیں ملتی ہے کہ بیک وقت پوری دنیا میں ایسے سخت ترین حالات پیش آئے ہوں خانہ کعبہ، بیت المقدس سے لیکر ہر شہر اور گاؤں کی مساجد اور دیگر عبادت گاہوں پر تالا لٹک گیا ہو!!!

مسلمانوں!!! یہ وقت ہمارے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ ہماری بد اعمالیوں نے ہمیں کہاں لاکر کھڑا کردیاہے ہم تصور بہی نہیں کرسکتے۔ ہمارے لیے سب دروازے بند ہوچکے ہیں۔ ہرطرف مایوسی ہی مایوسی ہے۔ اگرہم چاہتے ہیں کہ ہمارا یہ ملک اور ہم آباد اور سلامت رہیں تو ابہی بہی وقت ہے سچے دل سے توبہ کرکے اللہ کو راضی کرلیں۔ جب تک اللہ کی ناراضگی ختم نہیں ہوگی، اس وقت تک ہم اس مصیبت سے نہیں نکل سکتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کی اس لاعلاج اور مہلک وباء سے حفاظت فرمائے اور اس عالمی عذاب کو دنیاسے اٹھالے۔ یہی اس حقیر کی آخری التجاہے۔ امید ہے کہ آپ سب ان بے ربط جملوں کو نظر انداز کرکے مقصدِ مضمون پر توجہ فرماکر عمل کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطافرماے! آمین!

Comments are closed.