Baseerat Online News Portal

کورونا سے خوفزدہ ڈاکٹرس ،معذور بچی کے علاج کیلئے بھٹکتے رہے والدین

عبدالوہاب شیخ
9970073214
[email protected]

اورنگ آباد کا شمار مرکزی حکومت کے معروف اسمارٹ سٹی پروجیکٹ میں ہوتا ہے جس سے شہروںمیں بنیادی انفراسٹرکچر میں تبدیلی کرنا اہم مقصد تھا۔اورنگ آباد مراٹھواڑہ کی راجدھانی کہلاتا ہے اور سیاحتی اعتبار سے مہاراشٹر کی راجدھانی ہے لیکن یہاں پیش آئے ایک حالیہ واقعہ نے اسمارٹ سٹی کی نہ صرف قلعی کھول دی ہے بلکہ شہر میں موجود ہیلتھ کئیر سیکٹرکی تن آسانی اور بنیادی عوامی مسائل کو منظر عام پر لا دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق میونسپل کارپوریشن سے 30میٹر دوری پر شہر کے ٹائون ہال علاقہ میں رہائش پذیر شیخ ناصر شیخ عبداللہ نامی شخص کی پندرہ سال لڑکی (جویریہ) ذہنی طور پر معذور ہے ۔اس کا علاج گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ اس کے علاوہ لڑکی کو تین چار ماہ میں ایک دفعہ پیشاب میں تکلیف ہو نے کے سبب یورین ڈرینیج بیگ لگانے کی ضرورت درپیش ہوتیہے۔ذہنی معذور ہونے سے بنیادی ضرورتوں کیلئے بھی یہبچی مکمل طور پر والدین پر منحصرہے ۔دو روزقبل جویریہ کو رات 2بجے پیشاب کے ا خراج میں تکلیف ہونے لگی ۔دیر رات اسپتال کھلے نہ ہوں گے ،یہ سوچ کر والدین نے کسی طرح اسے صبح5بجے تک کسی طرح سمجھایا لیکن پیٹ پھولنے اور نا قابل برداشت تکلیف ہونے پر وہ جویریہ کو لے کر اسپتال کی طرفنکل پڑے۔قریبی میڈیکل شاپ سے یورین ڈرینیج بیگ ،کیتپھیٹر،گلوز، سینی ٹائزر جیل و دیگر میڈیکل اشیاء خرید ی اور آدھا کلومیٹر فاصلہ پر واقع بڈی لین ،جونا بازار علاقہ میں واقع بچوں کے اسپتال کا رخ کیا تو وہ بند پایا، اس کے بعد قریب ہی واقع ہیڈ پوسٹ آفس سے قریب ایک معروف سرجن کے اسپتال میں بھی کوئی اسٹاف موجود نہیں تھا۔یہاں سے دور 2کلومیٹر فاصلہ پر واقع کالی مسجد علاقہ میں نرسنگ اسپتال میں اسٹاف موجود نہیں ملا۔یہی کچھ معاملہ وی آئی پی ہال کے قریب ایک کڈنی اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس بھی پیش آیا۔ہرچندکہ کڈنی اسپیشلسٹ ڈاکٹر بچی کے مرض سے واقف ہیںاور گذشتہ چار سالوں میں کئی بار انہی کے پاس یورین بیگ بٹھائی گئی۔ اس بار یہ بتانے کے باوجود کہ بچی پیشاب نہ ہونے سے تڑپ رہی ہے ،ڈاکٹر نے نرسنگ اسٹاف کو فون پر ’ ڈاکٹر صاحب گھر پر نہیں ہے ‘کہہ کر رخصت کرنے کا حکم دے دیا۔حالانکہ ڈاکٹر اسپتال کی اسی عمار ت میں اوپری منزل پر رہائش پذیر ہیں۔ڈاکٹر نے مریض لڑکی کی کیفیت جاننے کی تک زحمت نہیں کی۔یہی تلخ تجربہ انہیں 24گھنٹے علاج کا بورڈ دعویٰ کرنے والے آزاد چوک پر واقع بچوں کے ایک اسپتال میں بھی ہوا ۔جب وہاں کی اسٹاف ملازمہ نے ڈاکٹر کو بلانے فون کیا تو ڈاکٹر نے فون پر ہی کہہ دیا کہ مریض بچی کے والدین کو کہہ دیجئے کہ’’ ڈاکٹر صاحب موجود نہیں ہے ‘‘۔معذور لڑکی کو قریب آدھا درجن اسپتال گھومنے کے بعد بھڑکل گیٹ تا آزاد چوک تک سارے اسپتال کی خاک چھاننے کے بعد مجبوروالدین سینٹرل ناکہ روڈ پر واقع اسپتال پہنچے وہاں بھی مایوسی اور ناکامی ہی ہاتھ آئی۔اس بارے میں حقیقت جاننے کی کوشش کی گئی تو ہیلتھ کئیر سیکٹر میں ملازم ایک شخص بتاتے ہیں کہ’’اورنگ آباد میں کووڈ۔19(کورونا) کے بڑھتی تعداد اور خاص طور پر تین ڈاکٹرس کورونا کا شکار ہونے پر خود ڈاکٹرس اور نرسنگ اسٹاف بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔‘‘اپریل میں سینٹرل ناکہ پر واقع ایک نجی ملٹی اسپیشلٹی اسپتال میں کورونا مریض پائے جانے پر اسپتال کو شعبہ صحت۔اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن نے 14دنوں تک سیل کر تے ہوئے ڈاکٹرس کو قرنطینیہ کا حکم دیا تھا۔کئی اسپتال کے نرسنگ اسٹاف نے ملازمت چھوڑ دی ہیں حتی کہ انہیں اسپتال کی جانب سے ملازمت پر واپس آنے کی نوٹسیں بھی تھمائی گئی لیکن ڈر سے اسٹاف واپس آنے تیار نہیں۔اورنگ آبادڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع میں 7مارچ کو کورونا کے پہلے مریض کی رپورٹ مثبت آئی تھی اور گذشتہ 101دنوں میں 15جون تک 2,825مریض پائے گئے ہیں اور 158افراد کی موت ہو چکی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ لوگ صحیتاب نہیں ہوئے ہیں بلکہ 1549افراد تندرست ہو کر گھر لوٹ گئے ہیں۔مہاراشٹر میں 8جون سے لاک ڈائون میں کاروباری ڈھیل دینے کے بعد سے اورنگ آباد میں پہلے ہفتہ میںمسلسلاوسطاً 100سے زائد مریضوں کا روزانہ اضافہ ہورہا ہے اور یہی سبب ہے کہ ڈاکٹرس بھی مریضوں سے دوری میں عافیت سمجھ رہے ہیں۔جویریہ کے والد اشک بار ہوتے ہوئے بتاتے ہیں کہ’’ بھڑکل گیٹ تا آزاد چوک یہ علاقہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے ۔ حالانکہ میرے مکان سے مراٹھواڑہ کا سب سے بڑا سرکاری گھاٹی اسپتال (گورنمنٹ میڈیکل کالج و اسپتال)قریب آدھا کلومیٹر دوری پر ہی واقع ہے لیکن وہاںمسلسل کووڈ کے مریض بڑھنے پر اسپتال انتظامیہ دیگرمریضوں کو نظر انداز کر رہا ہے۔ اس لیے ہم اسے بچی کو نجی اسپتالوں میں لے کر گھومتے رہے۔ یورین بیگ لگوانے کیلئے 5منٹ سے زیادہ کا وقت نہیں لگتا لیکن اسی کام کیلئے ہمیں کئی اسپتال گھومنا پڑا اور آخر تین گھنٹے بعد ایک نرسنگ ہوم میں یہی کام تین چار منٹ میں ہو گیا جس سے بچی کو راحت نصیب ہوئی‘‘۔بچی کی والدہ کہتی ہیں’’عام دنوں میں بھی ہم بچی کی یورین بیگ بدلنے جاتے ہیں تو ہمیںگھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔کیونکہ ڈاکٹروں کی نظر میں ایک معمولی کام ہے۔ ایک بار بڈی لین ،جونا بازار میں بچوں کے دواخانہ میں میری بچی کی جان جاتے جاتے رہ گئی۔ڈاکٹرس کہتے ہیں کہ یورین بیگ لگوانا کوئی بڑا معاملہ نہیں اور نہ ہی اس سے جان جانے کا خطرہ ہے لیکن کیا کبھی اولاد کو تڑپتا دیکھ سکون حاصل ہوسکتا ہے اور وہ بھی خاص طو پر جب کہ بچی معذور ہو؟ایک بار اسی طرح ایمرجنسی میں بچی کو ایک اسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹر نے ریسپشینسٹ سے فون پر پوچھا کہ اسپتال میں مریض کتنے ہیں ؟ایک مریض ہونے کا جواب ملنے پر ڈاکٹر نے دو گھنٹے انتظار کروانے کے بعد آنے کی معذرت کر لی۔ بچی کی حالت اتنی غیر ہو گئی تھی کہ ہم نے ایک بار اس کا ویڈیو تک بنا ڈالا تھا کہ خدانخواستہ اسے کچھ ہو جائے تو مقدس سمجھے جانے والے پیشہ کی حقیقت اجاگر کر سکیں۔اگر ایسے ڈاکٹروں کو اس عظیم الشان پیشہ کی قدر نہیں تو اپنا لبادہ اتار پھینکیں ‘‘۔
*رائٹراورنگ آباد میں فری لانس جرنلسٹ اورشعبہ صحافت میں تدریسی پیشہ سے وابستہ ہے-

Comments are closed.