Baseerat Online News Portal

کورونا ویکسین کی حلت وحرمت کا مسئلہ

یاسر ندیم الواجدی

دنیا کو کورونا سے متاثر ہوئے ایک سال کا عرصہ ہو رہا ہے، اس دوران لوگوں نے بے شمار تعلیمی، اقتصادی اور معاشرتی مسائل کا سامنا کیا ہے اور کررہے ہیں۔ بہت سے ممالک میں کورونا کو حکومتی مظالم کے ایک طریقہ کار کے طور پر پیش کیا گیا۔ بھارتی حکومت اور اس کی غلام میڈیا نے تبلیغی جماعت کے نام پر مسلمانوں کو "کورونا بم” کہہ کر جس طرح نشانے پر لیا، وہ ایک ایسی ہی قوم کے نمائندوں سے متوقع ہے جس کے یہاں ترقی کی معراج مخالف کا انحطاط ہو۔ سری لنکا میں آج بھی کووڈ سے وفات پانے والے مسلمانوں کی لاشوں کو جلایا جارہا ہے اور اس کے پیچھے یہ غیر سائنسی اور خالص بودھ مذہبی دلیل دی جارہی ہے کہ میتوں کو دفنانے سے پورے علاقے میں کورونا پھیل سکتا ہے۔ ایک طرف بیماری اور موت کا قہر، تو دوسری طرف اقتصادی اور معاشرتی مسائل کا یہ سیلاب۔ ان تمام مشکلات کا حل حکومتوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے یہ تجویز کیا گیا کہ پوری دنیا کی آبادی کو ویکسین لگا دی جائے، تاکہ کرونا سے تحفظ حاصل ہو سکے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں کورونا کی ویکسین تیار کی جارہی ہے، لیکن سب سے زیادہ فائزر اور موڈرنا کمپنیوں کی ویکسین نے اپنی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ دونوں کمپنیوں کا دعوی ہے کہ ان کی ویکسین 95 فیصد مؤثر ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ اگر پوری دنیا کی تقریباً سات ارب آبادی کو ویکسین لگا دی جائے، تو تین سو پچاس ملین افراد کو (جو کہ سات ارب کا پانچ فیصد ہے) کرونا سے تحفظ کیسے فراہم ہوگا، جب کہ ابھی تک پوری دنیا میں کرونا متاثرین کی تعداد 80 ملین سے کچھ زائد ہے۔ اس بحث میں جانے کے بجائے اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ویکسین ہی کورونا وائرس کا علاج ہے، تو اب مسئلہ یہ آتا ہے کہ کیا ویکسین کے اجزاء حلال ہیں یا حرام۔

عام طور پر وائرس مخالف ویکسین کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے اس میں خنزیر سے بنی جیلاٹین کو بطور "اسٹیبلائزر” استعمال کیا جاتا ہے۔ لہذا یہ سوال فطری طور پر پیدا ہونا تھا کہ آیا کمپنیاں اپنی ویکسین میں جیلاٹین کا استعمال کر رہی ہیں یا نہیں۔ فائزر اور موڈرنا دونوں نے اپنے آفیشل بیان میں یہ کہا ہے کہ ان کی ویکسین میں خنزیر کے اجزاء کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ واضح رہے کہ فائزر کی معاون کمپنی بایو این ٹیک کی طرف سے ایک ترک نژاد مسلم جوڑا ویکسین بنانے میں شامل رہا ہے۔ ان دونوں کمپنیوں کی ویکسین کے اجزاء کے تعلق سے تحقیق کرنے والے کچھ مسلمان ڈاکٹر دوستوں کے مطابق، ان میں حرام اجزاء شامل نہیں ہیں۔

بھارت میں ان کے علاوہ دیگر دو کمپنیوں کی ویکسین استعمال کی جاسکتی ہیں، پہلی کمپنی ہے بھارت بایوٹیک جس کی ویکسین کو گھریلو پراڈکٹ ہونے کی بنا پر بہر حال منظوری ملے گی، لیکن ابھی یہ ویکسین اپنے ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں ہے۔ اخباری رپوٹس کے مطابق آکسفورڈ ویکسین کو جنوری میں منظوری مل سکتی ہے، جب کہ فائزر نے ابھی حکومتی اہلکاروں کے سامنے پریزینٹیشن نہیں دی ہے۔ اجزاء سے متعلق آکسفورڈ اور بھارت بایوٹیک کے آفیشل بیانات تلاش بسیار کے باوجود نہیں مل سکے ہیں، لہذا اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ان کی ویکسین میں خنزیر سے بنی جیلاٹین کا استعمال ہوا ہے، تو یہ جاننا ضروری ہے کہ جیلاٹین کیا ہے۔

جانوروں میں موجود پروٹینز کے گروپ میں ایک خاص پروٹین کا نام کولاجن ہے۔ اسی پروٹین کو کیمیاوی عمل سے گزار کو جو مادہ وجود میں آتا ہے، اس کو جیلاٹین کہا جاتا ہے۔ اس میدان کے ماہرین کی اکثریت کے مطابق جیلاٹین میں کولاجن کی ماہیت اور حقیقت تبدیل ہوجاتی ہے، اور حنفیہ کے یہاں فقہی ضابطہ یہ ہے کہ ہر حرام چیز استحالہ اور ماہیت وحقیقت کی تبدیلی کے بعد حلال ہوجاتی ہے، اسی بنیاد پر شراب اگر سرکہ بن جائے تو سرکہ کا استعمال جائز ہے۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی مدظلہم کے مطابق ہڈیوں سے بنی جیلاٹین کا استعمال جائز ہے، جب کہ کھالوں سے بنی جیلاٹین کے تعلق سے یہ تردد پایا جاتا ہے کہ اس میں تبدل ماہیت ہوئی ہے یا نہیں۔ (فتاوی دارالعلوم زکریا ج:6 ص606)۔ حضرت کا یہ فتوی سنہ 1417 ہجری کا ہے۔

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے 1424 ہجری میں منعقد ہونے والے سیمنار میں یہ تجویز پاس کی تھی کہ ماہرین کی رائے کے مطابق جیلاٹین میں ماہیت اور حقیقت تبدیل ہوجاتی ہے، اس لیے اس کا استعمال درست ہے۔ ساتھ میں سیمینار نے مسلم صنعت کاروں سے یہ اپیل بھی کی تھی کہ وہ حلال جانوروں سے جیلاٹین تیار کریں۔

اگر اس کے باوجود کسی کو اصرار ہو کہ جیلاٹین حرام ہی ہوتی ہے تو فقہاء کے اس موقف کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ کسی بھی حرام چیز کو بطورِ دوا استعمال کرنا عام حالات میں حرام ہے، اگر بیماری مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو اور مسلمان ماہرین یہ کہہ دیں کہ اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور یہ یقین ہو جائے کہ شفا حرام چیز میں ہی منحصر ہے، تو مجبوراً بطورِ دوا وعلاج بقدرِ ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے۔ یہ تفصیل اسی وقت زیر بحث آئے گی جب کہ جیلاٹین کے بارے میں یہ ثابت کردیا جائے کہ اس میں ماہیت تبدیل نہیں ہوتی ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ ویکسین کا انتخاب حکومتی سطح پر ہورہا ہے، انفرادی طور پر یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ایک شخص اپنی پسند کی کمپنی ویکسین کے لیے منتخب کرلے۔ اگر کسی ملک میں یہ صورت حال ہو تب تو جیلاٹین سے پاک ویکسین ہی کا انتخاب ہونا چاہیے، لیکن موجودہ صورت حال میں جب کہ وبا نے دنیا کو اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے اور افراد کو ویکسین منتخب کرنے کا اختیار نہیں ہے، جیلاٹین والی ویکسین کا استعمال بھی درست ہوگا۔ اس تعلق سے بلاوجہ انتشار پھیلانا اور فقہی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ دینا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اس تحریر کا مقصد اجزاء کی بنیاد پر ویکسین کی حلت وحرمت سے متعلق واضح موقف پیش کرنا ہے۔ ویکسین کے نتائج، اس کے مزعومہ سائڈ ایفیکٹس یا خطرات اس تحریر کا موضوع نہیں ہیں۔

Comments are closed.