Baseerat Online News Portal

کورونا کا سایہ ،گمشدہ مضان اور خطرنا ک اشارے(2)

ابوتراب ندوی
کورونا کی ہوا میں ہماری مسجدوں کے مناروں کی بجھ جانے والی روشنی رات کے سناٹے میں ملا اعلی کے ساتھ اسکی سرگوشیوں کو ہم تک پہونچارہی ہے۔ رمضان کی چاندنی راتوں میں ہر روز ایک مہیب سماں بندھ جاتا ہے، چاندنی راتوں کے باوجود ہمارے گھروں پر جیسے خوفناک تاریکی کی چادر تان دی گئی ہے، ایسا بجھا ہوا رمضان تو پہلے کبھی نہ دیکھا ، رمضان کا نور ہمارے اعمال کے سیاہ بادلوں میں کہیں اس طرح چھپ گیا ہے جیسے کہ اس کی آمد ہوئی ہی نہیں ۔
ایسے میں اگر کسی منارے پر نظر پڑ جائے تو اس احساس سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ چاندنی رات کی روشنی کا سکون اضطراب میں بدل جاتاہے، ان مناروں سے رات کے سناٹے میں نظر ملاتے ہی ایک خوفناک سوال ان مناروں سے اٹھتا ہے، کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس وبا میں سب سے خطرناک اشارہ کیا ہے ؟
تم پر بڑے سخت دن آنے والے ہیں، ذرا اپنی قوم پر نظر ڈالو غفلت کا عالم کیا ہے، وبا میں گرفتار ہیں پھر بھی رجوع الی اللہ اور گریہ و زاری کی کوئی کیفیت کہیں نظر نہیں آتی ، لوگ جیسے خوش ہوں کہ چلو مسجد سے چھٹکارا ملا، جبھی تو دیکھو جسے جب جی میں آیا نماز پڑھ لی اور جسے نہیں ادا کرنی ہے تو اسے کون دیکھتا ہے، سب کچھ بند ہے پھر بھی ایسے مشغول ہیں کہ اپنے رب کے حضور بیٹھنے کی فرصت نہیں۔
سب سے خطرناک بات
سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ تمہاری دینی و اخلاقی پستی اپنی آخری حدوں کو پہونچنے والی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے اس بارتم مسلمانوں کو جشن رمضان میں شریک نہیں کیا گیا۔ ہاں رمضان کا وہ جشن جو تمہارے لئے ہرسال آسمان و زمین پر منایا جاتا ہے ،جس میں تمہیں شریک ہونے کی دعوت دی جاتی تھی وہ دعوت شاید اس سال تمہارے نام نہ آئی ۔
شَهرُ رَمَضانَ الَّذى أُنزِلَ فيهِ القُرءانُ هُدًى لِلنّاسِ وَبَيِّنـٰتٍ مِنَ الهُدىٰ وَالفُرقانِ ۚ ﴿١٨٥﴾ ﴿سورة البقرة 185﴾
رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں ۔
پھر اسی آیت میں روزہ کا حکم دیتے ہوئے اخیر میں کہا:
وَلِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلىٰ ما هَدىٰكُم وَلَعَلَّكُم تَشكُرونَ اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔
کیا کہا کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا، یہ وہ نعمت ہے جس پر تمہیں جشن منانا چاہئے ، اللہ کی تکبیر بلند کرتے ہوئے اس نعمت قرآن پر اس کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
یہ وہ نعمت ہے جس کے اعزاز میں ہرسال اس مہینہ کائنا ت میں ایک خاص اہتمام ہوتا ہے، ملا اعلی میں بڑی ہماہمی رہتی ہے، نظام کائنات میں ایک خاص تبدیلی کی جاتی ہے۔
بخاری و مسلم کی اس مشہور روایت کو دیکھو : عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ( إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ ) رواه البخاري (3277) ، ومسلم (1079).
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کردئیے جاتے ہیں۔
ایک دوسری حدیث اسی مفہوم کی مزید وضاحت کرتی ہے: عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ من شَهْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فلم يُفْتَحْ منها بَابٌ ، وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فلم يُغْلَقْ منها بَابٌ، وينادي مناد: يا باغي الخير أقبل، ويا باغي الشر أقصر، ولله عتقاء من النار، وذلك كل ليلة» (رواه الترمذي)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے، تو سرکش شیاطین قید کردئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ کوئی دروازہ کھلا نہیں چھوڑا جاتا، جنت کے سارے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں تو اس میں کوئی دروازہ بند نہیں رکھا جاتا، ندا لگائی جاتی ہے ، اے خیر کے طلب گارو آگے بڑھو، اور اے شر کے علمبردارو باز آجاؤ، رمضان کی ہر رات اللہ کتنے ہی لوگوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ عطا فرماتا ہے ۔
اس سے کیا سمجھ میں آیا کہ رمضان کا مہینہ جب آتا ہے تو کائنات میں اس موقع پر اس کے استقبال کا خاص انتظام ہوتا ہے، عالم ملکوت میں بڑی ہماہمی رہتی ہے، پوری کائنات پر ایک پر کیف فضا طاری ہوجاتی ہے، وہ ذات باری جس نے اپنے اوپر رحمت واجب کرلی ہے ، یعنی جو سراپا رحمت ہے ، وہ اپنی رحمت کے ساتھ اپنے بندوں پر خاص توجہ فرماتا ہے، عتاب و عذاب کا ہر روزن بند کردیا جاتاہے، رحمت کے ہر دروازے کچھ اس طرح کھول دئیے جاتے ہیں کہ پوری کائنات پر سرور کی کیفیت چھا جاتی ہے، یہی مطلب ہے ان احادیث کا کہ جنت کا ہر دروازہ کھول دیاجاتا ہے اور دوزخ کا ہر دروازہ بند کردیا جاتاہے ۔ یہ رب سے رازو نیاز کے لمحات اور دامن سے لپٹ جانے کے دن ہوتے ہیں، وارفتگی کا عالم برپا کرنے کا مقام ہوتاہے۔ مانا کہ تم اپنے رب کے کرم کو بھول بیٹھے ، اپنے رب کی محبت کو ٹھکراتے رہے، جبکہ تمہیں جن و ملائک پر فضیلت عطا کی گئی ، تم سے حسد نے ابلیس کو راندۂ درگاہ کیا یہاں تک کہ اس نے دشمنی ٹھان لی ، پھر بھی تم نے اس کے پہلو میں بیٹھنا گوارا کیا۔
اس سب کے باوجود اللہ ہر سال تمہارےلئے رمضان میں اپنی کا ئنات کو سجاتا ، رحمت کے قمقمے جلاتا، فرشتے آسمان سے نازل ہوتے ، بڑی رکاوٹیں دو ر کی جاتیں، سر کش شیاطین قید کئے جاتے اور تمہارے لئے ماحول پوری طرح سازگار بنایا جاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری مسجدیں بھی قرآن کی تلاوت سے گونجنے لگتی تھیں، تمہارے غافل بھی مسجدوں کا رخ کرنے لگتے تھے، تمہارے سماج پر ایک پر کیف سماں طاری ہوجاتا تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے اب تمہاری بے روح عبادتوں کے مظاہر اللہ کو مزید گوارا نہیں فانا للہ وانا الیہ راجعون۔
قدرت کی کاری ضرب
تم یاد کرو تمہارے رب نے تم پر بارہا آزمائشیں بھیجیں۔ تم سے حکومت چھینی، ملک چھینا، حکمرانی سے محکومی کی حالت میں پہونچادیا، پھر بھی تم باز نہ آئے ، اپنی حالت میں تبدیلی پیدا نہ کی ، تمہارے علما کی عقل ماری گئی، علم کی راہیں کھولنے کے بجائے فرسودہ کتابوں کی رٹ لگائے رہے۔ چار سو سالوں سے وہ ماحول بنا جیسے تمہاری عقل بانجھ ہوگئی ہو، کوئی مصلح اگر تم میں اٹھا بھی تو تم نے اسکی ایک نہ سنی۔ تم اپنی ڈگر پر چلتے رہے یہانتک کہ تمہارے مدارس سے علما کے بجائے جہلا کی کھیپ نکلنے لگی۔ تمہارے یہاں گٹ بندیاں عروج پر پہونچ گئیں، جبہ و دستار کا رواج عام ہوگیا، اللہ ، اس کے رسول اور اس کے دین کےلئے اخلاص جاتا رہا، تم جیسے تھے تمہیں رہبر بھی ویسے ہی ملے آج سبھی ایک بند سرنگ میں کھڑے ہو، کوئی راستہ سمجھ میں نہیں آتا۔
ایسے میں یہ کاری ضرب پڑی ہے، اس کے بعدتمہاری جگہ شاید ایک نئی نسل اٹھائی جائے جو باطل سے نبرد آزمائی کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہو، ادھر باطل طاقتوں پر بھی کاری ضرب لگائی گئی کہ عالمی اقتصاد کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی۔ ایسی ٹوٹی ہے کہ یہ بوکھلا کر جلد ہی باہم دست و گریباں ہونگے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وبا جلدہی دنیا کو ایک تیسری عالمی جنگ میں جھونک دے۔ دوسری طرف اس عالمی وبال و زوال کو ابلیس اور اسکے یہودی کارندے اپنے حق میں استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں، جیسے انہیں اسی دن کا انتظار تھا، ہوسکتا ہے تمہیں اسکے آثار ابھی تک نظر نہ آسکے ہوں لیکن جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ یہ عالمی زوال دنیا میں شر کی طاقتوں کو مکمل عروج تک لے جائے گا، تم اس فتنہ کے بہت قریب ہو جس سے تمہارے نبی نے تمہیں صبح و شام پناہ مانگتے رہنے کو کہا تھا۔ فیصلہ تمہارے ہاتھوں میں ہے کہ تم اس نئی نسل کا حصہ بننے کو تیار ہو ، یا پھر تم اسی ظلمت میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں میں ہوگے جن کی عقل پر پردہ ڈال دیا گیا ہے ، جو اپنی اصلاح کے لئے تیار نہیں، جو اپنے رب سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کے لئے آمادہ نہیں۔ جو دنیا کے فتنوں سے بچ کر اپنے رب کو یاد کرنے والے اور خود کو اس کے سپرد کرنے والے نہیں۔
اگر تبدیلی کا عزم ہے تو آؤ اس رمضان کے بقیہ دنوں میں اپنے گھر کے گوشوں کو اپنے رب سے سرگوشی کے مقامات میں بدل دو، اپنے بھائی ،بہنوں، دوستوں رشتہ داروں کو بتاؤ کہ جو وقت رہ گیا ہے اس میں ہم اپنے رب کے پیغام کو سمجھیں، آؤ مل کر اپنے لئے اس امت کے لئے اپنے رب سے سلامتی کی ضمانت لے لیں۔ ہم ان راتوں سے بہت قریب ہیں جو راتیں سلامتی کا پروانہ ہونگیں۔

بد امنی میں سلامتی کی ضمانت
قرآن کہتا ہے کہ رمضان اس دنیا کی سلامتی کا ضامن ہے، اسی میں سلامتی کی خاص رات ہے سَلـٰمٌ هِىَ حَتّىٰ مَطلَعِ الفَجرِ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک ﴿سورۃ القدر﴾ ۔
یہ وہ وقت ہے جب پوری دنیا کےلئے آنے والے سال کی سیاست کا رخ طے ہونے والا ہے ، دنیا کی اقتصادی حالت ، امن و امان بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کے لئے فرشتے اللہ کا بجٹ اور فیصلے لے کر اترنے والے ہیں ، ہم میں سے ہر شخص کے لئے فیصلے صادر ہونے والے ہیں:
فيها يُفرَقُ كُلُّ أَمرٍ حَكيمٍ ﴿٤﴾ أَمرًا مِن عِندِنا ۚ إِنّا كُنّا مُرسِلينَ ﴿٥﴾ ﴿سورة الدخان﴾
یہ وہ رات ہےجس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ (4) ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔
اللہ کے یہاں فیصلہ کے گھڑیاں ہوتی ہیں، رمضان انہیں گھڑیوں میں ہے جب پورے سال کے فیصلے صادر ہوتے ہیں ، اس حقیقت کو سورہ القدر میں بھی دیکھو : تَنَزَّلُ المَلـٰئِكَةُ وَالرّوحُ فيها بِإِذنِ رَبِّهِم مِن كُلِّ أَمرٍ فرشتے اور روح (جبریل امین) اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔
یہ جو تم پر نت نئی مصیبتیں نازل ہورہی ہیں یہ بتاتی ہیں کہ تم اس عظیم عنایت ربانی سے فائدہ اٹھانے کا موقع گنواتے رہے ہو، یہ پیغام تمہاری زندگی سے کھوگیا، تم اس موقع پر غفلت برتنے کے عادی ہوگئے، تم چاہتے تو اس موقع پر اپنے لئے، اپنی زندگی کے ہر شعبہ کے لئے اپنے رب سے ایک مناسب حال بجٹ بنوالیتے ، اپنے رب سے اپنی سلامتی کا پروانہ لیتے،اپنے بارے میں خدشات و اندیشوں کو دور کروانے کی انتھک کوشش کرتے ، پھر تمہارا سال ایسا بر ا نہ جاتا کہ تم سڑکوں پر مارے مارے پھرو۔
شب قدر بیس روزوں کے بعد کیوں آتی ہے؟
کیا تمہیں معلوم ہے اس اخیر زمانہ کے زوال امت کے اسباب میں ایک بڑا سبب روزہ کی حکمتوں کو پس پشت ڈال دینا بھی ہے ۔ یہ مظہر عام ہوگیا کہ رمضان کے ابتدائی ایام میں مسلم سماج بڑا جوش و خروش دکھاتا رہا اورجب وہ مقام آیا کہ خیربٹ رہا ہوتا تو یہ سماج خواب خرگوش میں پڑجاتا ۔ اللہ انتظار فرماکر پھر بھی اپنی خیرات اس امت پر لٹا جاتا ،یہ امت جو اس کے حبیب کی امت ٹہری۔ لیکن اس کا بالآخر جو انجام ہونا تھا وہ تمہارے سامنے ہے۔ تمہارے رب نے تمہیں اپنے حال پر چھوڑدیا اور تمہیں نہتا پاکر تمہارے دشمن ابلیس کی سربراہی میں تم پر ٹوٹ پڑے ، کہیں دیش نکالا دیا گیا تو کہیں روزی روٹی سے محروم کیا گیا، کہیں روزی روٹی دی گئی تو آزادی اور عزت و کرامت سلب کر لی گئی۔
کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ رات جو قسمت بنانے کی رات ہے ، جسے شب قدر کہتے ہیں وہ بیس روزے گذارنے کے بعد ہی کیوں آتی ہے، اگر خود انسانی تجربات سے سمجھنا ہو تو جرمنی میں روزہ سے علاج کی کہانی پڑھ لو۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے دوران کی کہانی ہے جب جرمن بحری فوج کا ایک ڈاکٹر اپنے جوڑوں میں شدید در د کا شکار ہوا یہانتک کہ مفلوج ہوکر بیٹھ گیا، مختلف طبی ماہرین کے دروازے کھٹکھٹائے ، ہر جگہ سے ناامید کسی مشورہ پر اس نے اپنا علاج روزہ سے شروع کیا ۔ اس کےمطابق 19 روزوں کے بعد ایک معجزہ رونما ہوتا ہے ، اس کے جوڑ جوڑ کھل جاتے ہیں ، وہ حرکت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے ، اس کی تکلیف دور ہوجاتی ہے۔ یہیں سے جرمنی میں وہ مرکز صحت کھلتا ہے جو آج بھی Buchinger-Wilhelmi clinic کے نام سے معروف ہے۔ آج اسکا پوتا اس کلینک کا ڈائرکٹر ہے، جرمنی کے بڑے شہروں میں اسکی برانچ موجود ہے ، بلکہ اب تو جرمنی میں دیگر مراکز صحت اسی طرز پر کھل گئے ہیں۔
تم گوگل پر اس مرکز کی تفصیل پڑھ لو، اس مرکز کے حالیہ ڈائرکٹر کے ایک انٹر ویو کے مطابق اگر مسلمان اپنے نبی کی سنت کے مطابق روزہ رکھیں تو انہیں موجودہ دور کی عام بیماریوں کا علاج مل جائے، ہارٹ اٹیک کے خطرات، مٹاپے کی بیماری ، جان لیوا ہائی بلڈ پریشر، شوگر وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات تو اب کسی سے مخفی نہیں کہ روزہ سے علاج پر بہت ریسرچ ہوا اور اس کی افادیت اب کوئی راز نہیں ۔ جرمنی میں لوگ سال بھر میں ایک مہینہ یا چند ہفتے نکال کر اپنی بیماریوں کے علاج کے لئے اس مرکز میں ایڈمت ہوجاتے ہیں، روزہ سے علاج بہت بڑی بزنس بن چکا ہے ۔
اس پورے واقعہ میں جو قابل غور نکتہ ہے وہ اس کے پہلے تجربہ کرنے والے کا یہ بیان کہ 19 روزوں کے بعد معجزہ کا ظہور ہوتا ہے ۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر علما لکھتے چلے آئے ہیں۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے روحانی پاکیزگی کے لئے ایک خاص مدت کی اہمیت پر اپنی کتاب سیرت النبی میں روزہ کے باب میں تفصیلی بحث کی ہے۔ کیوں انبیائے کرام کو وحی دینے سے قبل ایک خاص مدت کے لئے دنیا کی آلائشوں سے پاک ہوکر مراقبہ میں جانے کو کہا جاتا تھا، موسی علیہ السلام کو تیس دنوں کے لئے بلایا گیا، عیسی علیہ السلام بھی انجیل ملنے سے قبل تیس دنوں کا روزہ رکھتے ہیں۔ ہمارے آقا وحی ملنے سے قبل مہینوں غار حرا میں خلوت کے دن گذارتے ہیں، انتہائی تھوڑے توشہ کے ساتھ۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی ہوگی کہ بیس روزوں کے بعد جب تم دنیاوی آلائشوں سے قدرے پاک ہوجاتے ہو تو پھر وہ رات آتی ہے جس میں تمہیں سعادت کا پروانہ عطا کیا جاتا ہے۔ اس لئے رمضان کا ایک ایک دن اہم ہے، اور بیس دنوں کے بعد اخیر کے دس دن تو وہ ہیں جس میں ایک پل کی غفلت نہ ہونے پائے۔
اے مسلمانوں آؤ اس نازک گھڑی میں اس رات کو پالو شاید کہ تمہارا رب پھر سے تمہاری طرف متوجہ ہوجائے۔
قرآن کھولو، تفسیریں پڑھو، احادیث جمع کرکے دیکھو، علما نے شب قدر پر بہت کچھ لکھا ہے، کوئی بھی سارے پہلو کا تنہا احاطہ نہیں کرسکتا، ان میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پڑھو، اللہ کے لئے واٹس اپ، سوشل میڈیا اور اپنے موبائل سے دور رہو، قرآن کی چند آیتیں ہی صحیح حفظ و معانی کے ساتھ سیکھنے کی کوشش کرو۔
سب سے اہم یہ کہ اپنے رسول کی مسنون دعاؤں کو حرز جان بناؤ ، ان دعاؤں کو یاد کرو، صبح و شام اہتمام رکھو،اگر یہ دعائیں تمہاری زندگی کا حصہ بن جائیں تو یقین مانو تم اللہ کی حفاظت میں ہوگے، تم جو جیوگے تو خیر کے ساتھ اور مروگے تو خیر کے ساتھ۔ اگر تمہیں یہ سب منظور نہیں تو یاد رکھو کہ آئندہ اپنی حالت زار کا رونا نہ رونا۔
(جاری)

Comments are closed.